سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ مجھے گورنری (وغیرہ) نہیں دیتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک میرے کندھے پر مارا اور فرمایا کہ اے ابوذر! تو کمزور ہے اور یہ امانت ہے (یعنی بندوں کے حقوق اور اللہ تعالیٰ کے حقوق سب حاکم کو ادا کرنے ہوتے ہیں) اور قیامت کے دن اس عہدہ سے سوائے رسوائی اور شرمندگی کے کچھ حاصل نہیں ہو گا مگر جو اس کے حق ادا کرے اور سچائی سے کام لے۔
سیدنا ابوبردہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میرے ساتھ قبیلہ اشعر کے دو آدمی تھے ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف۔ دونوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عامل بنا کر بھیجنے کی درخواست کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوموسیٰ (یا عبداللہ بن قیس)! تم کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! قسم اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا، انہوں نے مجھ سے اپنے دل کی بات نہیں کہی اور مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ کام (عہدہ خدمت) کی درخواست کریں گے۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ گویا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسواک کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ نچلے ہونٹ پر ٹھہری ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم اس کو کبھی عہدہ نہیں دیتے جو عہدے کی درخواست کرے، لیکن اے ابوموسیٰ یا عبداللہ بن قیس! تم جاؤ۔ پس انہیں یمن کی طرف بھیجا۔ پھر ان کے پیچھے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا (تاکہ وہ بھی شریک رہیں)۔ جب سیدنا معاذ وہاں پہنچے تو سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اترو اور ایک گدہ ان کے لئے بچھایا۔ اتفاق سے وہاں ایک شخص قید میں جکڑا ہوا تھا، سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ کیا ہے؟ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ ایک یہود مسلمان ہوا پھر کمبخت یہودی ہو گیا۔ اپنا برا دین اختیار کر لیا۔ سیدنا معاذ نے کہا کہ جب تک اسے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے مطابق قتل نہ کر دیا جائے میں نہ بیٹھوں گا۔ تین بار یہی کہا پھر سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تو وہ قتل کیا گیا۔ اس کے بعد دونوں نے رات کی نماز کا ذکر کیا، تو سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تو رات کو سوتا بھی ہوں اور عبادت بھی کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ سونے میں بھی مجھے وہی ثواب ملے گا جو عبادت میں ملتا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امام سپر (ڈھال) ہے کہ اس کے پیچھے مسلمان (کافروں سے) لڑتے ہیں اور اس کی وجہ سے لوگ تکلیف (ظالموں اور لٹیروں) سے بچتے ہیں۔ پھر اگر وہ اللہ سے ڈرنے کا حکم کرے اور انصاف کرے، تو اس کو ثواب ہو گا اور اگر اس کے خلاف حکم دے، تو اس پر وبال ہو گا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لوگ انصاف کرتے ہیں وہ اللہ عزوجل کے پاس اس کی داہنی جانب نور کے منبروں پر ہوں گے اور اس کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں (یعنی بائیں ہاتھ میں جو داہنے سے قوت کم ہوتی ہے یہ بات اللہ تعالیٰ میں نہیں کیونکہ وہ ہر عیب سے پاک ہے) اور یہ انصاف کرنے والے وہ لوگ ہیں، جو فیصلہ کرتے وقت انصاف کرتے ہیں اور اپنے بال بچوں اور عزیزوں میں انصاف کرتے ہیں اور جو کام ان کو دیا جائے، اس میں انصاف کرتے ہیں۔
سیدنا عبدالرحمن بن شماسہ کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس کچھ پوچھنے کو آیا، تو انہوں نے کہا کہ تو کون سے لوگوں میں سے ہے؟ میں نے کہا کہ مصر والوں میں سے۔ انہوں نے کہا کہ تمہارے حاکم کا تمہاری اس لڑائی میں کیا حال ہے؟ (یعنی محمد بن ابی بکر کا جن کو سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ نے قیس بن سعد کو معزول کر کے مصر کا حاکم کیا تھا) میں نے کہا کہ ہم نے تو ان کی کوئی بات بری نہیں دیکھی، ہم میں سے کسی کا اونٹ مر جاتا، تو اس کو اونٹ دیتے اور غلام فوت ہو جاتا تو، غلام دیتے اور خرچ کی احتیاج ہوتی، تو خرچ دیتے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ میرے بھائی کا جو حال ہوا (کہ مارا گیا اور لاش مرداروں میں پھینکی گئی پھر جلائی گئی) یہ مجھے اس امر کے بیان کرنے سے نہیں روکتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حجرہ میں فرمایا کہ اے اللہ! جو کوئی میری امت کا حاکم ہو، پھر وہ ان پر سختی کرے، تو تو بھی اس پر سختی کر اور جو کوئی میری امت کا حاکم ہو اور وہ ان پر نرمی کرے، تو بھی اس پر نرمی کر۔
سیدنا تمیم الداری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین خلوص اور خیرخواہی کا نام ہے۔ ہم نے کہا کہ کس کی خیرخواہی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی اور اس کی کتاب کی اور اس کے رسول کی اور مسلمانوں کے حاکموں کی اور سب مسلمانوں کی۔ (یعنی ہر مسلمان اللہ اور اس کے رسول کی اور اپنے حاکم کی فرمانبرداری کرے اور ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے حقوق ادا کرے)۔
سیدنا حسن کہتے ہیں کہ عبیداللہ بن زیاد، سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی اس بیماری میں جس میں ان کا انتقال ہوا، عیادت کرنے آیا، تو سیدنا معقل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تجھ سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں جو کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے اور اگر میں جانتا کہ میں ابھی زندہ رہوں گا، تو تجھ سے بیان نہ کرتا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ کوئی بندہ ایسا نہیں ہے جس کو اللہ تعالیٰ ایک رعیت دیدے، پھر وہ مرے اور جس دن وہ مرے وہ اپنی رعیت کے حقوق میں خیانت کرتا ہو مگر اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کر دے گا۔
حسن سے روایت ہے کہ سیدنا عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے وہ عبیداللہ بن زیاد کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ اے میرے بیٹے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ سب سے برا چرواہا ظالم بادشاہ ہے (جو رعیت کو تباہ کر دے) تو ایسا نہ ہونا۔ عبیداللہ نے کہا کہ بیٹھ جا تو تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کی بھوسی ہے۔ سیدنا عائذ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں بھی بھوسی ہے؟ بھوسی تو بعد والوں میں اور غیر لوگوں میں ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز (ہمیں نصیحت کرنے کو) کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں خیانت کے متعلق بیان فرمایا اور اس کو بڑا گناہ بتلایا۔ پھر فرمایا کہ میں تم میں سے کسی کو قیامت کے دن ایسا نہ پاؤں کہ وہ آئے اور اس کی گردن پر ایک اونٹ بڑبڑا رہا ہو، وہ کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد کیجئے اور میں کہوں کہ مجھے کچھ اختیار نہیں میں نے تمہیں اللہ کا حکم پہنچا دیا تھا۔ (نووی علیہ الرحمۃ نے کہا کہ یعنی میں اللہ کے حکم کے بغیر نہ مغفرت کر سکتا ہوں نہ شفاعت اور شاید پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ سے ایسا فرما دیں، پھر شفاعت کریں بشرطیکہ وہ موحد ہو) اور میں تم میں سے کسی کو ایسا نہ پاؤں کو وہ قیامت کے دن اپنی گردن پر ایک گھوڑا لئے ہوئے ہو جو ہنہناتا ہو اور وہ کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد کیجئے اور میں کہوں کہ مجھے کچھ اختیار نہیں میں تو تجھ سے کہہ چکا تھا (یعنی دنیا میں اللہ تعالیٰ کا حکم پہنچا دیا تھا کہ خیانت کی سزا بہت بڑی ہے پھر تو نے خیانت کیوں کی) اور میں تم میں سے کسی کو قیامت کے دن ایسا نہ پاؤں کہ وہ اپنی گردن پر ایک بکری لئے ہوئے آئے جو میں میں کر رہی ہو اور وہ کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد کیجئے۔ اور میں کہوں کہ مجھے کچھ اختیار نہیں ہے میں نے تجھے اللہ تعالیٰ کا حکم پہنچا دیا تھا۔ اور میں تم میں سے کسی کو ایسا نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن اپنی گردن پر کوئی جان لئے ہوئے آئے جو چلا رہی ہو (جس کا اس نے دنیا میں خون قتل کیا ہو) پھر کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد کیجئے اور میں کہوں کہ مجھے کچھ اختیار نہیں ہے میں نے تجھے اللہ تعالیٰ کا حکم پہنچا دیا تھا۔ میں تم میں سے کسی کو ایسا نہ پاؤں کہ جو اپنی گردن پر کپڑے لئے ہوئے آئے جو اس نے اوڑھے ہوئے ہوں (جن کو اس نے دنیا میں چرایا تھا) یا پرچیاں کاغذ کی جو اڑ رہی ہوں (جس میں اس کے اوپر حقوق لکھے ہوں) یا اور چیزیں جو ہل رہی ہوں (جن کو اس نے دنیا میں چرایا تھا) پھر کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد کیجئے اور میں کہوں کہ مجھے کچھ اختیار نہیں ہے میں تو تجھے خبر کر چکا تھا۔ اور میں تم میں سے کسی کو قیامت میں ایسا نہ پاؤں کہ وہ اپنی گردن پر سونا چاندی، پیسہ وغیرہ لئے ہوئے آئے اور کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد کیجئے اور میں کہوں کہ مجھے کچھ اختیار نہیں ہے میں نے تو تجھے خبر کر دی تھی۔