سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کام یعنی خلافت ہمیشہ قریش میں رہے گی یہاں تک کہ دنیا میں دو ہی آدمی رہ جائیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حکومت میں تمام لوگ قریش کے تابع ہیں اور مسلمان لوگ مسلمان قریش کے تابع ہیں اور کافر لوگ کافر قریش کے تابع ہیں (یعنی حکومت اور سرداری کے زیادہ اہل ہیں)۔
سیدنا عامر بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے غلام نافع کو یہ لکھ کر سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا کہ مجھ سے وہ بات بیان کرو جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ کہتے ہیں انہوں نے جواب میں لکھا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس جمعہ کی شام، جس دن ماعز اسلمی سنگسار کئے گئے سنا ہے آپ فرما رہے تھے کہ یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو یا تم پر بارہ خلیفہ ہوں اور وہ سب قریشی ہوں گے (شاید یہ واقعہ بھی قیامت کے قریب ہو گا کہ ایک ہی وقت میں مسلمانوں کے بارہ خلیفہ بارہ ٹکڑیوں پر ہوں گے) اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی جماعت کسریٰ کے سفید محل کو فتح کرے گی (یہ معجزہ تھا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ایسا ہی ہوا) اور میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ قیامت سے پہلے جھوٹے پیدا ہوں گے ان سے بچنا اور میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جب اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کو دولت دے، تو پہلے اپنے اوپر اور اپنے گھر والوں پر خرچ کرے (ان کو آرام سے رکھے پھر فقیروں کو دے) اور میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ میں حوض کوثر پر تمہارا انتظار کرنے والا ہوں (یعنی تمہارے پانی پلانے کے لئے وہاں بندوبست کروں گا اور تمہارے آنے کا منتظر رہوں گا)۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور انہوں نے کہا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے والد کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کریں گے؟ میں نے کہا کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایسا ہی کریں گے۔ میں نے قسم کھائی کہ میں ان سے اس کا ذکر کروں گا۔ پھر چپ رہا، دوسرے دن صبح کو بھی میں نے ان سے نہیں کہہ سکا، لیکن میرا حال ایسا تھا جیسے کوئی پہاڑ کو ہاتھ میں لئے ہو (قسم کا بوجھ تھا)۔ آخر میں لوٹ کر ان کے پاس گیا وہ مجھ سے لوگوں کا حال پوچھنے لگے تو میں بیان کرتا رہا، پھر میں نے کہا کہ میں نے لوگوں سے ایک بات سنی ہے اور قسم کھا لی کہ آپ سے ضرور اس کا ذکر کروں گا، وہ سمجھتے ہیں کہ آپ کسی کو خلیفہ نہیں کریں گے۔ اگر آپ کا اونٹوں کا یا بکریوں کا کوئی چرانے والا ہو، پھر وہ آپ کے پاس ان اونٹوں اور بکریوں کو چھوڑ کر چلا آئے تو آپ یہ سمجھیں گے کہ وہ جانور برباد ہو گئے، اس صورت میں آدمیوں کا خیال تو اور بھی ضروری ہے۔ میرے اس کہنے سے ان کو خیال ہوا اور ایک گھڑی تک وہ سر جھکائے رہے (فکر کیا کئے) پھر سر اٹھایا اور کہا کہ اللہ جل جلالہ اپنے دین کی حفاظت کرے گا اور میں اگر خلیفہ مقرر نہ کروں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا اور اگر خلیفہ مقرر کروں تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلیفہ مقرر کیا ہے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر اللہ کی قسم جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا تو میں سمجھ گیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر کسی کو نہیں کرنے والے اور وہ خلیفہ مقرر نہیں کریں گے۔
ابوحازم کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس پانچ سال بیٹھتا رہا اور میں نے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے سنا ہے کہ بنی اسرائیل کی حکومت / سیاست پیغمبر کیا کرتے تھے۔ جب ایک پیغمبر فوت ہوتا تو دوسرا پیغمبر اس کی جگہ ہو جاتا۔ اور شان یہ ہے کہ میرے بعد تو کوئی پیغمبر نہیں ہے بلکہ خلیفہ ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا حکم کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس سے پہلے بیعت کر لو، اسی کی بیعت پوری کرو اور ان کا حق ادا کرو اور اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا اس کے متعلق جو اس نے ان کو دیا ہے۔
سیدنا عبدلرحمن بن عبدرب الکعبہ کہتے ہیں کہ میں مسجد میں داخل ہوا اور وہاں سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کعبہ کے سایہ میں بیٹھے تھے اور لوگ ان کے پاس جمع تھے۔ میں بھی جا کر بیٹھ گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ ایک جگہ اترے، تو کوئی اپنا خیمہ درست کرنے لگا، کوئی تیر مارنے لگا اور کوئی اپنے جانوروں میں تھا کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پکارنے والے نے نماز کے لئے پکار دی۔ ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس پر اپنی امت کو وہ بہتر بات بتانا لازم نہ ہو جو اس کو معلوم ہو اور جو بری بات وہ جانتا ہو اس سے ڈرانا (لازم نہ ہو) اور تمہاری یہ امت، اس کے پہلے حصہ میں سلامتی ہے اور اخیر حصہ میں آزمائش ہے اور وہ باتیں ہیں جو تمہیں بری لگیں گی اور ایسے فتنے آئیں گے کہ ایک فتنہ دوسرے کو ہلکا اور پتلا کر دے گا (یعنی بعد کا فتنہ پہلے سے ایسا بڑھ کر ہو گا کہ پہلا فتنہ اس کے سامنے کچھ حقیقت نہ رکھے گا) اور ایک فتنہ آئے گا تو مومن کہے گا کہ اس میں میری تباہی ہے۔ پھر وہ جاتا رہے گا اور دوسرا آئے گا تو مومن کہے گا کہ اس میں میری تباہی ہے۔ پھر جو کوئی چاہے کہ جہنم سے بچے اور جنت میں جائے، تو اس کو چاہئے کہ اس کی موت اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر یقین کی حالت میں آئے اور لوگوں سے وہ سلوک کرے جو وہ چاہتا ہو کہ لوگ اس سے کریں اور جو شخص کسی امام سے بیعت کرے اور اس کو اپنا ہاتھ دیدے اور دل سے اس کی فرمانبرداری کی نیت کرے، تو اس کی اطاعت کرے اگر طاقت ہو۔ اب اگر دوسرا امام اس سے لڑنے کو آئے تو (اس کو منع کرو اگر لڑائی کے بغیر نہ مانے تو) اس کی گردن مار دو۔ یہ سن کر میں عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تم نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ انہوں نے اپنے دونوں کانوں اور دل کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا اور کہا کہ میرے کانوں نے سنا اور دل نے یاد رکھا ہے۔ میں نے کہا کہ تمہارے چچا کے بیٹے معاویہ رضی اللہ عنہ ہمیں ایک دوسرے کے مال ناحق کھانے کے لئے اور اپنی جانوں کو تباہ کرنے کے لئے حکم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”اے ایمان والو اپنے مال ناحق مت کھاؤ مگر رضامندی سے سوداگری کر کے اور اپنی جانوں کو مت مارو بیشک اللہ تعالیٰ تم پر مہربان ہے“(النساء: 29)۔ یہ سن کر عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ تھوڑی دیر چپ رہے پھر کہا کہ اس کام میں معاویہ کی اطاعت کرو جو اللہ کے حکم کے موافق ہو اور جو کام اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہو، اس میں معاویہ رضی اللہ عنہ کا کہنا نہ مانو۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب دو خلیفوں سے بیعت کی جائے، تو جس سے اخیر میں بیعت ہوئی ہو اس کو مار ڈالو (اس لئے کہ اس کی خلافت پہلے خلیفہ کے ہوتے ہوئے باطل ہے)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا (حاکم سے مراد منتظم اور نگراں کار اور محافظ ہے) پھر جو کوئی بادشاہ ہے وہ لوگوں کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کا سوال ہو گا (کہ اس نے اپنی رعیت کے حق ادا کئے، ان کی جان و مال کی حفاظت کی یا نہیں؟) اور آدمی اپنے گھر والوں کا حاکم ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہو گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی اور بچوں کی حاکم ہے، اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا۔ اور غلام اپنے مالک کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کے بارہ میں سوال ہو گا۔ غرضیکہ تم میں سے ہر ایک شخص حاکم ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت کا سوال ہو گا۔
سیدنا عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عبدالرحمن! کسی عہدے اور حکومت کی درخواست مت کر، کیونکہ اگر درخواست سے تجھ کو (حکومت / عہدہ) ملا تو تو اسی کے سپرد کر دیا جائے گا اور جو بغیر سوال (درخواست) کے ملے، تو اللہ تعالیٰ تیری مدد کرے گا۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوذر! میں تجھے کمزور پاتا ہوں اور میں تیرے لئے وہی پسند کرتا ہوں جو اپنے لئے پسند کرتا ہوں۔ دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ مت کرو اور یتیم کے مال کی نگرانی مت کرو (کیونکہ احتمال ہے کہ یتیم کا مال بیجا اٹھ جائے یا اپنی ضرورت میں آ جائے اور مؤاخذہ میں گرفتار ہو)۔