ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ پر احد کے دن سے بھی زیادہ سخت دن کوئی گزرا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تیری قوم سے بہت آفت اٹھائی ہے (یعنی قریش کی قوم سے) اور سب سے زیادہ سخت رنج مجھے عقبہ کے دن ہوا جب میں نے عبد یا لیل کے بیٹے پر اپنے آپ کو پیش کیا (یعنی اس سے مسلمان ہونے کو کہا) اس نے میرا کہنا نہ مانا۔ میں چلا اور میرے چہرے پر (بہت زیادہ) رنج و غم تھا۔ پھر مجھے ہوش نہ آیا (یعنی یکساں رنج میں چلتا گیا) مگر جب (مقام) قرن الثعالب میں پہنچا۔ میں نے اپنا سر اٹھایا اور دیکھا تو ایک بادل کے ٹکڑے نے مجھ پر سایہ کیا ہوا ہے اور اس میں جبرائیل تھے انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ جل جلالہ نے آپ کی قوم کا کہنا اور جو انہوں نے آپ کو جواب دیا سن لیا ہے۔ اور پہاڑوں کے فرشتے کو اس لئے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ جو چاہیں اس کو حکم کریں۔ پھر اس فرشتے نے مجھے پکارا اور سلام کیا اور کہا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کا کہنا سن لیا ہے اور میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں اور مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رب نے آپ کے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ آپ جو حکم دیں میں کروں۔ پھر آپ جو چاہیں کہیں؟ اگر آپ کہیں تو میں دونوں پہاڑ (یعنی ابوقبیس اور اس کے سامنے کا پہاڑ جو مکہ میں ہے) ان پر ملا دوں (اور ان کو کچل دوں)؟۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (میں یہ نہیں چاہتا) بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد میں سے ان لوگوں کو پیدا کرے گا جو خاص اسی کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے (سبحان اللہ کیا شفقت تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت پر۔ وہ رنج دیتے اور آپ ان کی تکلیف گوارا کرتے)۔
سیدنا جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کسی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی زخمی ہو گئی اور خون نکل آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ہے تو مگر ایک انگلی جس میں سے خون نکلا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں تجھے یہ تکلیف ہوئی (مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اتنی سی تکلیف بےحقیقت ہے)
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اپنے دوستوں سمیت بیٹھا تھا اور ایک دن پہلے ایک اونٹنی ذبح کی گئی تھی۔ ابوجہل نے کہا کہ تم میں سے کون جا کر اس کی بچہ دانی لاتا ہے اور اس کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان میں رکھ دیتا ہے جب کہ وہ سجدے میں جائیں؟ یہ سن کر ان کا بدبخت شقی (عقبہ بن ابی معیط ملعون) اٹھا اور لا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدے میں گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں مونڈھوں کے بیچ میں وہ بچہ دانی رکھ دی۔ پھر ان لوگوں نے ہنسی شروع کی اور مارے ہنسی کے ایک دوسرے کے اوپر گرنے لگے میں کھڑا ہوا دیکھتا تھا، مجھے اگر زور ہوتا (یعنی میرے مددگار لوگ ہوتے)، تو میں اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ سے پھینک دیتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے ہی میں رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر نہیں اٹھایا، یہاں تک کہ ایک آدمی گیا اور اس نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو خبر کی تو وہ آئیں اور اس وقت وہ لڑکی تھیں اور اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ سے اتارا اور پھر ان لوگوں کی طرف آئیں اور ان کو برا کہا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے، تو بلند آواز سے ان پر بددعا کی۔ اور آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے تو تین بار دعا کرتے اور جب اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگتے تو تین بار مانگتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! قریش کو سزا دے۔ تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا سے ڈر گئے اور ان کی ہنسی جاتی رہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! تو ابوجہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عقبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو برباد کر دے اور ساتویں کا نام مجھے یاد نہیں رہا (بخاری کی روایت میں اس کا نام عمارہ بن ولید مذکور ہے)۔ پھر قسم اس کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا کہ میں نے ان سب لوگوں کو جن کا نام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لیا تھا، بدر کے دن مقتول پڑے ہوئے دیکھا کہ ان کی لاشیں گھسیٹ گھسیٹ کر بدر کے کنوئیں میں ڈالی گئیں (جیسے کتے کو گھسیٹ کر پھینکتے ہیں) ابواسحاق نے کہا کہ ولید بن عقبہ کا نام اس حدیث میں غلط ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ گویا کہ میں (اب بھی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک پیغمبر کا حال بیان کر رہے تھے کہ ان کی قوم نے ان کو مارا تھا اور وہ اپنے منہ سے خون پونچھتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ اے اللہ! میری قوم کو بخش دے وہ نادان ہیں۔ (سبحان اللہ نبوت کے حوصلے کا کیا کہنا)۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوجہل کی خبر کون لاتا ہے؟ یہ سن کر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما گئے تو دیکھا کہ عفراء کے بیٹوں نے اسے ایسا مارا تھا کہ وہ زمین پر گرا ہوا تھا (یعنی قریب المرگ تھا) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے اس کی ڈاڑھی پکڑی اور کہا کہ تو ابوجہل ہے؟ وہ بولا کہ کیا تم نے اس شخص (ابوجہل) سے زیادہ مرتبے والے شخص کو قتل کیا ہے؟ (یعنی مجھ سے زیادہ قریش میں کوئی بڑے درجے کا نہیں) یا اس نے کہا کسی بڑے آدمی کو اس کی قوم نے قتل کیا ہے جو مجھ سے بڑا ہو؟ (یعنی اگر تم نے مجھے قتل کیا تو میری کوئی ذلت نہیں) ابومجلز نے کہا کہ ابوجہل نے کہا کہ کاش کاشتکار کے سوا اور کوئی مجھے مارتا۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کعب بن اشرف (کے قتل) کا کون ذمہ لیتا ہے؟ اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی تکلیف دی ہے۔ سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہے کہ میں اسے مار ڈالوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں تو انہوں نے عرض کیا کہ مجھے اجازت دیجئیے تاکہ میں کچھ بات بناؤں (جھوٹ بولوں)۔ آپ نے فرمایا کہ تجھے اختیار ہے۔ چنانچہ سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ اس شخص (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہم سے صدقہ مانگا ہے اور اس نے تو ہمیں تنگ کر رکھا ہے۔ کعب نے کہا کہ ابھی کیا ہے، اللہ کی قسم آگے چل کر تم کو بہت تکلیف ہو گی۔ وہ بولے کہ خیر اب تو ہم اس کا اتباع کر چکے ہیں اب ایک دم چھوڑنا تو اچھا نہیں لگتا، مگر دیکھ رہے ہیں کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ خیر میں تیرے پاس کچھ قرض لینے آیا ہوں۔ کعب بن اشرف نے کہا کہ میرے پاس کچھ گروی رکھ دو۔ انہوں نے کہا کہ تم کیا چیز گروی رکھنا چاہتے ہو؟ کعب نے کہا تم میرے پاس اپنی عورتوں کو گروی رکھ دو۔ انہوں نے جواب دیا ہم تیرے پاس عورتوں کو کیسے گروی رکھ دیں؟ کیونکہ تو عرب کا بےانتہا خوبصورت ہے۔ کعب بولا کہ اپنے بیٹوں کو میرے پاس گروی رکھ دو۔ وہ بولے بھلا ہم انہیں کیونکر گروی رکھ دیں؟ کل کو انہیں طعنہ دیا جائے گا کہ فلاں دو وسق کھجور کے عوض گروی رکھا گیا تھا۔ لیکن ہم تیرے پاس ہتھیار رکھ دیں گے اس نے کہا ٹھیک ہے۔ پس انہوں نے کعب سے وعدہ کیا کہ وہ حارث، ابی عبس بن جبر اور عباد بن بشر کو بھی ساتھ لائے گا۔ راوی نے کہا کہ وہ رات کو آئے اور کعب کو بلایا۔ وہ قلعہ سے نیچے اتر کر ان کے پاس آنے لگا۔ اس کی بیوی نے پوچھا کہ تم اس وقت کہاں جا رہے ہو؟ کعب نے جواب دیا کہ محمد بن مسلمہ (رضی اللہ عنہ) اور میرا بھائی ابونائلہ مجھے بلا رہے ہیں (ڈرنے کی کوئی بات نہیں) عورت بولی کہ اس آواز سے تو گویا خون ٹپک رہا ہے۔ کعب نے کہا یہ صرف میرا دوست محمد بن مسلمہ (رضی اللہ عنہ) اور میرا دودھ شریک بھائی ابونائلہ ہے اور عزت والے آدمی کو تو اگر رات کے وقت نیزہ مارنے کے لئے بھی بلایا جائے تو وہ فوراً منظور کر لے۔ ادھر سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ (دو اور آدمیوں کو ساتھ لائے تھے)۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب کعب بن اشرف آئے گا، تو میں اس کے بال پکڑ کر سونگھوں گا، جب تم دیکھو کہ میں نے اس کے سر کو مضبوط پکڑ لیا ہے، تو تم جلدی سے اسے مار دینا۔ جب کعب ان کے پاس چادر سے سر لپیٹے ہوئے آیا اور خوشبو کی مہک اس میں پھیل رہی تھی، تب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تیرے پاس سے کیسی بہترین خوشبو آ رہی ہے۔ کعب نے جواب دیا کہ ہاں! میری بیوی عرب کی سب سے زیادہ معطر رہنے والی عورت ہے۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا مجھے اپنا سر سونگھنے کی اجازت دیتے ہو؟ اس نے کہا ہاں کیوں نہیں۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے سونگھا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے پھر (دوبارہ سونگھنے کی) اجازت ہے؟ اس نے کہا ہاں ہے۔ چنانچہ جب سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اسے مضبوط پکڑ لیا، تب انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس کو مارو، چنانچہ انہوں نے کعب بن اشرف کو مار ڈالا۔
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک لڑائی میں نکلے اور ہم چھ آدمیوں کے پاس صرف ایک اونٹ تھا۔ ہم باری باری اس پر سوار ہوتے تھے۔ ہمارے قدم چھلنی ہو گئے تھے اور میرے دونوں پیر پھٹ گئے اور ناخن بھی گر پڑے، تو ہم نے اپنے پیروں پر پٹیاں باندھ لیں، اس لڑائی کا نام ذات الرقاع بھی اسی وجہ سے رکھا گیا (یعنی پٹیوں دھجیوں والی لڑائی) کیونکہ ہم پاؤں پھٹ جانے کی وجہ سے ان پر پٹیاں باندھتے تھے۔ ابوبردہ (راوی) نے کہا کہ یہ حدیث ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ سنائی پھر (ریاکاری کے خوف سے) بیان نہیں کرتے تھے۔ اور ابواسامہ نے کہا کہ برید کے علاوہ کسی دوسرے راوی نے یہ زیادہ کیا کہ اللہ تعالیٰ اس کی جزا دے۔
سیدنا ابراہیم التیمی اپنے والد (یزید بن شریک تیمی) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص بولا: اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کرتا اور لڑنے میں کوشش کرتا۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا تو ایسا کرتا؟ (یعنی تیرا کہنا معتبر نہیں ہو سکتا۔ کرنا اور ہے اور کہنا اور ہے۔ صحابہ کرام نے جو کوشش کی تو اس سے بڑھ کر نہ کر سکتا تھا) میں اپنے آپ کو دیکھ رہا ہوں کہ ہم غزوہ احزاب کی رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ہوا بہت تیز چل رہی تھی اور سردی بھی خوب چمک رہی تھی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص ہے جو جا کر کافروں کی خبر لائے؟ اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن میرے ساتھ رکھے گا۔ یہ سن کر ہم لوگ خاموش ہو رہے اور کسی نے جواب نہ دیا (کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ ایسی سردی میں رات کو خوف کی جگہ میں جائے اور خبر لائے حالانکہ صحابہ کی جانثاری اور ہمت مشہور ہے)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص ہے جو کافروں کی خبر میرے پاس لائے؟ اور اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن میرا ساتھ نصیب کرے گا۔ کسی نے جواب نہ دیا سب خاموش رہے۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے حذیفہ! اٹھ اور کافروں کی خبر لا۔ اب کوئی چارہ نہ تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام لے کر جانے کا حکم دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جا اور کافروں کی خبر لے کر آ اور ان کو مجھ پر مت اکسانا۔ (یعنی کوئی ایسا کام نہ کرنا جس سے ان کو مجھ پر غصہ آئے اور وہ تجھے ماریں یا لڑائی پر مستعد ہوں)۔ جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلا تو ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی حمام کے اندر چل رہا ہے (یعنی سردی بالکل کافور ہو گئی بلکہ گرمی معلوم ہوتی تھی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت تھی اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پہلے تو نفس کو ناگوار ہوتی ہے لیکن جب مستعدی سے شروع کرے تو بجائے تکلیف کے لذت اور راحت حاصل ہوتی ہے) یہاں تک کہ میں نے ان کے پاس پہنچ کر دیکھا کہ ابوسفیان اپنی کمر کو آگ سے سینک رہا ہے، تو میں نے تیر کمان پر چڑھایا اور مارنے کا قصد کیا۔ پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد آیا کہ ایسا کوئی کام نہ کرنا جس سے ان کو غصہ پیدا ہو۔ اگر میں مار دیتا تو بیشک ابوسفیان کو مار لیتا۔ آخر میں لوٹا پھر مجھے ایسا معلوم ہوا کہ حمام کے اندر چل رہا ہوں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور سب حال کہہ دیا، اس وقت سردی معلوم ہوئی (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑا معجزہ تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنا ایک فاضل کمبل اوڑھا دیا، جس کو اوڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرتے تھے۔ میں اس کو اوڑھ کر جو سویا تو صبح تک سوتا رہا۔ جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اٹھ اے بہت زیادہ سونے والے!
سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احزاب کے دن ہمارے ساتھ مٹی ڈھوتے تھے (جب مدینہ کے گرد خندق کھودی گئی) اور مٹی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیٹ کی سفیدی کو چھپا لیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے تھے: قسم اللہ تعالیٰ کی اگر تو ہدایت نہ کرتا تو ہم راہ نہ پاتے اور نہ ہم صدقہ دیتے نہ نماز پڑھتے۔ تو ہم پر اپنی رحمت کو اتار ان لوگوں (یعنی مکہ والوں) نے ہمارا کہنا نہ مانا (یعنی ایمان نہ لائے) اور ایک روایت میں ہے کہ سرداروں نے ہمارا کہنا نہ مانا۔ جب وہ فساد کی بات کرنا چاہتے ہیں (یعنی شرک اور کفر وغیرہ) تو ہم ان کے شریک نہیں ہوتے اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز سے فرماتے تھے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب خندق (غزوہ خندق) کے دن یہ رجز پڑھ رہے تھے کہ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر یا جہاد پر بیعت کی ہے (اس وقت تک) جب تک ہم زندہ رہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ رجز پڑھ رہے تھے: اے اللہ! بھلائی تو آخرت کی بھلائی ہے پس تو انصار اور مہاجرین کو بخش دے۔