سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل دو شخصوں کو دیکھ کر ہنستا ہے کہ ایک نے دوسرے کو قتل کیا، پھر دونوں جنت میں گئے لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ کیسے ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑتے ہوئے شہید ہوا۔ اب جس نے اس کو شہید کیا تھا، وہ مسلمان ہوا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑا اور شہید ہوا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دونوں جہنم میں اس طرح اکٹھا نہ ہوں گے کہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچا دیں۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مسلمان کافر کو قتل کرے، پھر نیکی پر قائم رہے۔
سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص ایک اونٹنی نکیل سمیت لایا اور کہنے لگا کہ یہ میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے بدلے تجھے قیامت کے دن نکیل پڑی ہوئی سات سو اونٹنیاں ملیں گی۔
سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرا (سواری کا) جانور جاتا رہا، اب مجھے سواری دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سواری نہیں ہے۔ ایک شخص بولا یا رسول اللہ! میں اسے وہ شخص بتلا دوں جو سواری دے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی نیکی کی راہ بتائے، اس کو اتنا ہی ثواب ہے جتنا نیکی کرنے والے کو ہے۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر اللہ تعالیٰ کے فرمان ”کافروں کے لئے زور کی تیاری کرو جتنی طاقت ہو“ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے سنا۔ آپ فرما رہے تھے ”خبردار رہو کہ زور سے مراد تیراندازی ہے، خبردار رہو کہ زور سے مراد تیراندازی ہے (پھر) خبردار رہو کہ زور سے مراد تیراندازی ہے“۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ (چند روز میں) عنقریب کئی ملک تمہارے ہاتھ پر فتح ہوں گے اور اللہ تعالیٰ تمہارے لئے کافی ہو جائے گا پھر کوئی تم میں سے اپنے تیروں کا کھیل نہ چھوڑے (یعنی نشانہ بازی سیکھے: پستول سے، کلاشنکوف سے، راکٹ اور میزائل وغیرہ سے)۔
سیدنا عبدالرحمن بن شماسہ سے روایت ہے کہ فقیم لخمی نے سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اس بڑھاپے میں تم ان دونوں نشانوں میں آتے جاتے ہو، تم پر مشکل ہوتا ہو گا۔ سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات نہ سنی ہوتی، تو میں یہ مشقت نہ اٹھاتا۔ حارث نے کہا کہ میں نے ابن شماسہ سے پوچھا کہ وہ کیا بات تھی؟ انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی نشانہ بازی سیکھ کر چھوڑ دے، وہ ہم میں سے نہیں ہے یا گنہگار ہے۔
سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے کی پیشانی کے بال انگلی سے مل رہے تھے اور فرماتے تھے کہ گھوڑوں کی پیشانیوں سے قیامت تک برکت بندھی ہوئی ہے یعنی ثواب اور غنیمت (دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اشکل گھوڑے کو برا جانتے تھے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ اشکل گھوڑا وہ ہے جس کا داہنا پاؤں اور بایاں ہاتھ سفید ہو یا داہنا ہاتھ اور بایاں پاؤں سفید ہو۔ (اور اہل لغت کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ اشکل اس گھوڑے کو کہتے ہیں جس کے تین پاؤں سفیدی والے ہوں اوپر سفیدی نہ ہو)۔