سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ سے سچائی کے ساتھ شہادت مانگے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو شہیدوں کا درجہ دے گا اگرچہ وہ اپنے بچھونے پر ہی فوت ہو۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص جنت میں چلا جائے گا، پھر اس کو دنیا میں آنے کی آرزو نہ رہے گی اگرچہ اس کو ساری زمین کی چیزیں دی جائیں، لیکن شہید پھر آنے کی اور دس بار قتل ہونے کی آرزو کرے گا اس وجہ سے کہ جو انعام و اکرام (شہادت کی وجہ سے) دیکھے گا۔ (یعنی اس کو باربار حاصل کرنا چاہے گا)۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اعمال کا اعتبار نیت سے ہے اور آدمی کے واسطے وہی ہے جو اس نے نیت کی۔ پھر جس کی ہجرت اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے ہے، تو اس کی ہجرت اللہ اور رسول کے لئے ہی ہے اور جس نے ہجرت دنیا کمانے یا کسی عورت سے نکاح کے لئے کی، تو اس کی ہجرت اسی کے لئے جس مقصد کے لئے اس نے ہجرت کی ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ ہمارے ساتھ کچھ آدمی بھیجیں جو ہمیں قرآن و سنت سکھائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف ستر آدمی انصار میں سے بھیجے ان کو قراء (قاری حافظ لوگ) کہا جاتا تھا اور ان میں میرے ماموں حرام رضی اللہ عنہ بھی تھے وہ (قراء) قرآن پڑتے تھے اور اکٹھے بیٹھ کر رات کو ایک دوسرے کو پڑھاتے اور پڑھتے تھے اور دن کو پانی لا کر مسجد میں رکھ دیتے اور لکڑیاں (جنگل سے) لا کر بیچتے تھے اور (اس قیمت کا) کھانا خریدتے اور اہل صفہ کو کھلاتے تھے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو لوگوں کے پاس بھیج دیا (جو تعلیم کے لئے کچھ آدمی مانگتے تھے)۔ لیکن انہوں نے ان قراء کو اس سے پہلے کہ وہ اس علاقے میں جاتے (جس میں ان کو بلایا گیا تھا) شہید کر دیا۔ ان قراء نے کہا ”اللھم بلغ عنا نبینا“ الخ یعنی اے اللہ ہماری طرف سے ہمارے نبی کو یہ پیغام پہنچا دے کہ ہم اللہ کو مل گئے ہیں اور ہم اللہ سے راضی ہو گئے اور اللہ ہم سے راضی ہو گیا ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے ماموں حرام رضی اللہ عنہ کے پاس ایک کافر آیا اور اس نے پیچھے سے ایک نیزہ مارا اور پار کر دیا تو سیدنا حرام رضی اللہ عنہ نے کہا ”فزت ورب الکعبۃ“ یعنی کعبہ کے رب کی قسم میں تو کامیاب ہو گیا۔ پھر (جب یہ واقعہ ہو چکا تو) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے (مسلمان) بھائی شہید ہو گئے ہیں اور انھوں نے یہ پیغام بھیجا ہے کہ ہم اللہ کو مل گئے ہم اللہ سے راضی ہو گئے اور وہ ہم سے راضی ہو گیا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص جا رہا تھا کہ اس نے راستے میں ایک کانٹے دار شاخ دیکھی تو (راستے سے) ہٹا دی۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے اس کا بدلہ دیتے ہوئے اس کو بخش دیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شہید پانچ ہیں۔ جو طاعون (وبا یعنی جو مرض عام ہو جائے اس زمانہ میں طاعون قے و دست سے ہوتا ہے) سے فوت ہو جائے جو پیٹ کے عارضے سے مرے (جیسے اسہال یا پیچش یا استسقاء سے) اور جو پانی میں ڈوب کر مرے اور جو دب کر مرے اور جو اللہ کی راہ میں مارا جائے۔
سیدہ حفصہ بنت سیرین کہتی ہیں کہ مجھ سے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یحییٰ بن ابی عمرہ کس عارضے میں فوت ہوئے؟ میں نے کہا کہ طاعون سے فوت ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طاعون ہر مسلمان کے لئے شہادت ہے۔
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ میں (خطبہ پڑھنے کو) کھڑے ہوئے اور ان سے بیان کیا کہ تمام اعمال میں افضل (عمل) اللہ کی راہ میں جہاد اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا ہے۔ ایک شخص کھڑا ہوا اور بولا کہ یا رسول اللہ! اگر میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں مارا جاؤں، تو میرے گناہ مجھ سے مٹا دیئے جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اگر تو اللہ کی راہ میں مارا جائے، صبر کے ساتھ اور تیری نیت اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہو اور تو (دشمن کے) سامنے رہے پیٹھ نہ موڑے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو نے کیا کہا؟ وہ بولا کہ اگر میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں مارا جاؤں تو میرے گناہ معاف ہو جائیں گے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اگر تو صبر کے ساتھ مارا جائے، خالص نیت سے اور تیرا منہ سامنے ہو پیٹھ نہ موڑے مگر قرض معاف نہ ہو گا، کیونکہ جبرائیل علیہ السلام نے مجھ سے اس بات کو بیان کیا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص میرا مال (ناحق) لینے کو آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنا مال اس کو نہ دے۔ پھر اس نے کہا کہ اگر وہ مجھ سے لڑے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو بھی اس سے لڑ۔ پھر اس نے کہا کہ اگر وہ مجھ کو مار ڈالے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو شہید ہے۔ پھر اس نے کہا کہ اگر میں اس کو مار ڈالوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جہنم میں جائے گا۔
ثابت کہتے ہیں کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے چچا جن کے نام پر میرا نام رکھا گیا ہے (یعنی ان کا نام بھی انس تھا)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر کی لڑائی میں شریک نہیں ہو سکے تھے۔ اور یہ امر ان پر بہت مشکل گزرا اور انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی لڑائی میں غائب رہا اب اگر اللہ تعالیٰ دوسری کسی لڑائی میں مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کر دے، تو اللہ تعالیٰ دیکھ لے گا کہ میں کیا کرتا ہوں اور اس کے سوا کچھ اور کہنے سے ڈرے (یعنی کچھ اور دعویٰ کرنے سے کہ میں ایسا کروں گا ویسا کروں گا کیونکہ شاید نہ ہو سکے اور جھوٹے ہوں)۔ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احد کی لڑائی میں گئے۔ راوی کہتا ہے کہ سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ان کے سامنے آئے (اور بخاری کی روایت میں ہے کہ شکست خورد ہو کر)، تو انس رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا اے ابوعمرو (یہ کنیت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی ہے) کہاں جاتے ہو؟ پھر (ان کا جواب سنے بغیر خود ہی) کہا میں تو احد پہاڑ کے پیچھے سے جنت کی خوشبو پا رہا ہوں۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر وہ کافروں سے لڑے یہاں تک کہ شہید ہو گئے (لڑائی کے بعد) دیکھا تو ان کے بدن پر اسی (80) سے زائد تلوار، برچھی اور تیر کے زخم تھے۔ ان کی بہن یعنی میری پھوپھی ربیع بنت نضر نے کہا کہ میں نے اپنے بھائی کو نہیں پہچانا مگر ان کی انگلیوں کی پوریں دیکھ کر (کیونکہ سارا بدن زخموں سے چور چور ہو گیا تھا)۔ اور یہ آیت ”وہ مرد جنہوں نے اپنا اقرار اللہ تعالیٰ سے پورا کیا .... بعض تو اپنا کام کر چکے اور بعض انتظار کر رہے ہیں اور نہیں بدلا انہوں نے کچھ بھی بدلنا“ نازل ہوئی۔ صحابہ کہتے تھے کہ یہ آیت ان کے اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں اتری۔