سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے طائف سے لوٹنے کے بعد جعرانہ مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میں نے جاہلیت میں ایک دن مسجدالحرام میں اعتکاف کرنے کی نذر کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جا اور ایک دن کا اعتکاف کر۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس میں سے ایک لونڈی ان کو عنایت کی تھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب قیدیوں کو آزاد کر دیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی آوازیں سنیں، وہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کر دیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہ کیا (کہہ رہے) ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کو آزاد کر دیا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے (اپنے بیٹے سے) کہا کہ اے عبداللہ! اس لونڈی کے پاس جا اور اس کو بھی چھوڑ دے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا کہ میری ماں پر نذر تھی اور وہ اس کے ادا کرنے سے پہلے ہی فوت ہو گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی طرف سے تو ادا کر دے۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری بہن نے نذر مانی کہ بیت اللہ تک ننگے پاؤں پیدل جائے گی، تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے کا کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پیدل بھی چلے اور سوار بھی ہو جائے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھے کو دیکھا جو اپنے دونوں بیٹوں کے درمیان (ان پر) ٹیک لگائے جا رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اس کو کیا ہوا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ اس نے پیدل چلنے کی نذر مانی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کے اپنے نفس کو عذاب میں مبتلا کرنے سے بےپرواہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سوار ہونے کا حکم کیا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر سے منع فرمایا اور فرمایا کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا (یعنی کوئی آنے والی بلا نہیں رکتی اور تقدیر نہیں بدلتی) یہ صرف بلکہ بخیل سے مال نکلوانے کا ذریعہ ہے (یعنی بخیل یوں تو خیرات نہیں کرتا اور جب آفت آتی ہے تو نذر ہی کے بہانے روپیہ دیتا ہے اور مسکینوں کو فائدہ ہوتا ہے)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نذر کسی ایسی چیز کو آدمی سے نزدیک نہیں کرتی جو اللہ تعالیٰ نے اس کی تقدیر میں نہیں لکھی لیکن نذر تقدیر کے موافق ہوتی ہے۔ نذر کی وجہ سے بخیل کے پاس سے وہ مال نکلتا ہے جس کو وہ نکالنا نہیں چاہتا۔
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ثقیف اور بنی عقیل ایک دوسرے کے حلیف تھے۔ ثقیف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے دو شخصوں کو قید کر لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے بنی عقیل میں سے ایک شخص کو گرفتار کر لیا اور عضباء (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی) کو بھی اس کے ساتھ پکڑا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور وہ بندھا ہوا تھا۔ اس نے کہا یا محمد! یا محمد! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے اور پوچھا کہ کیا کہتا ہے؟ وہ بولا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کس قصور میں پکڑا اور حاجیوں کی اونٹنیوں پر سبقت لے جانے والی (یعنی عضباء کو) کس قصور میں پکڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بڑا قصور ہے اور میں نے تجھے تیرے دوست ثقیف کے قصور کے بدلے میں پکڑا ہے۔ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے تو اس نے پھر پکارا یا محمد، یا محمد! اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت رحمدل اور مہربان تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر اس کی طرف لوٹے اور پوچھا کہ کیا کہتا ہے؟ وہ بولا کہ میں مسلمان ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بات اگر تو اس وقت کہتا جب تو اپنے کام کا مختار تھا (یعنی گرفتار نہیں ہوا تھا) تو بالکل نجات پاتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے تو اس نے پھر پکارا یا محمد، یا محمد! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر آئے اور پوچھا کہ کیا کہتا ہے؟ وہ بولا کہ میں بھوکا ہوں مجھے کھانا کھلائیے اور میں پیاسا ہوں مجھے پانی پلائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ لے (یعنی کھانا پانی اس کو دیا)۔ پھر وہ ان دو شخصوں کے بدلے چھوڑا گیا جن کو ثقیف نے قید کر لیا تھا۔ راوی نے کہا کہ انصار کی ایک عورت قید ہو گئی اور عضباء بھی قید ہو گئی۔ پھر وہ عورت بندھی ہوئی تھی اور کافر اپنے گھروں کے سامنے اپنے جانوروں کو آرام دے رہے تھے کہ اس نے اپنے آپ کو بندھنوں سے آزاد کر لیا اور اونٹوں کے پاس آئی، جس اونٹ کے پاس جاتی وہ آواز کرتا تو وہ اس کو چھوڑ دیتی، یہاں تک کہ عضباء کے پاس آئی تو اس نے آواز نہیں کی اور وہ بڑی مسکین (شریف) اونٹنی تھی۔ عورت نے اس کی پیٹھ پر بیٹھ کر اس کو ڈانٹا تو وہ چلی۔ کافروں کو خبر ہو گئی تو وہ عضباء کے پیچھے چلے (اپنی اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر) لیکن عضباء نے ان کو تھکا دیا (یعنی کوئی پکڑ نہ سکا کہ عضباء اتنی تیزرو تھی) اس عورت نے نذر مانی کہ اے اللہ! اگر عضباء مجھے بچا لے جائے تو میں اس کی قربانی کروں گی۔ جب وہ عورت مدینہ میں آئی اور لوگوں نے دیکھا تو کہا کہ یہ تو عضباء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی ہے۔ وہ عورت بولی کہ میں نے نذر کی ہے کہ اگر عضباء پر اللہ تعالیٰ مجھے نجات دے تو اس کو نحر کروں گی۔ یہ سن کر صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (تعجب سے) فرمایا کہ سبحان اللہ! اس عورت نے عضباء کو کیا برا بدلہ دیا (یعنی عضباء نے تو اس کی جان بچائی اور وہ عضباء کی جان لینا چاہتی ہے) اس نے نذر مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ عضباء کی پیٹھ پر اس کو نجات دے تو وہ عضباء ہی کی قربانی کرے گی۔ جو نذر گناہ کے لئے کی جائے وہ پوری نہ کی جائے اور نہ وہ نذر پوری کی جائے جس کا انسان مالک نہیں۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے۔ (یعنی دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا دس مسکینوں کو لباس پہنانا یا غلام آزاد کرنا۔ اگر ان کاموں کی طاقت نہ ہو تو ہر تین دن کے روزے رکھنا)۔