سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے میں اناج کا ایک ڈھیر دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس کے اندر ڈالا تو انگلیوں پر تری آ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اے اناج کے مالک یہ کیا ہے؟ وہ بولا یا رسول اللہ! یہ بارش سے بھیگ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تو نے اس بھیگے ہوئے اناج کو اوپر کیوں نہ رکھا کہ لوگ دیکھ لیتے؟ جو شخص دھوکہ دے وہ مجھ سے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔
مالک بن اوس بن حدثان سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں یہ کہتا ہوا آیا کہ سونے کے بدلے روپوں کو کون بیچتا ہے؟ سیدنا طلحہ بن عبیداللہ نے کہا اور وہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اپنا سونا مجھے دے پھر ٹھہر کر آنا۔ جب ہمارا نوکر آئے گا تو تیری قیمت دے دیں گے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہرگز نہیں، تو اس کے روپے اسی وقت دیدے یا اس کا سونا واپس کر دے۔ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: کہ چاندی کو سونے کے بدلے بیچنا سود ہے مگر (یہ کہ) دست بدست (ہو) اور گندم کا گندم کے بدلے بیچنا سود ہے مگر (یہ کہ) دست بدست (ہو) اور ”جو“ کا ”جو“ کے بدلے بیچنا سود ہے مگر (یہ کہ) دست بدست (ہو) اور کھجور کا کھجور کے بدلے بیچنا سود ہے مگر (یہ کہ) دست بدست (ہو)۔
39. سونے کی بیع سونے کے ساتھ، چاندی کی بیع چاندی کے ساتھ، گندم کی بیع گندم کے ساتھ اور ہر اس چیز کی بیع جس میں سود ہو برابر برابر اور دست بدست جائز ہے۔
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سونے کو سونے کے بدلے میں، چاندی کو چاندی کے بدلے میں، گندم کو گندم کے بدلے میں، ”جو“ کو ”جو“ کے بدلے میں، کھجور کو کھجور کے بدلے میں اور نمک کو نمک کے بدلے میں برابر برابر ٹھیک ٹھیک دست بدست (ہو تو جائز ہے) پھر جب قسم بدل جائے (مثلاً گندم کے بدلے جو) تو جس طرح چاہے (کم و بیش) بیچو مگر دست بدست ہونا ضروری ہے۔
ابوالمنہال کہتے ہیں کہ میرے ایک شریک نے چاندی حج کے موسم تک ادھار بیچی اور میرے پاس آ کر بتایا، تو میں نے کہا یہ تو درست نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ میں نے بازار میں بیچی ہے اور کسی نے منع نہیں کیا۔ پھر میں سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے اور ہم ایسی بیع کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر دست بدست (نقد) ہو تو قباحت نہیں اور اگر ادھار ہو تو سود ہے۔ تم سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے پاس جا کہ ان کی سوداگری مجھ سے زیادہ ہے (تو وہ اس مسئلہ سے بخوبی واقف ہوں گے) میں ان کے پاس گیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے بھی ایسا ہی کہا۔
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دینار کو دو دینار کے بدلے مت بیچو اور نہ ایک درہم کو دو درہم کے بدلے بیچو۔
سیدنا فضالہ بن عبید انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر میں تشریف فرما تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ہار لایا گیا کہ اس میں نگینے تھے اور سونا بھی تھا، وہ لوٹ (غنیمت) کا مال تھا جو بک رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا سونا الگ کرنے کا حکم دیا تو اس کا سونا جدا کیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب سونے کو سونے کے بدلے برابر تول کر بیچو۔
سیدنا عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ملے اور ان سے پوچھا کہ تم جو بیع صرف کے بارے میں کہتے ہو تو کیا تم نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے یا اللہ تعالیٰ کے کلام پاک میں پایا ہے؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہرگز نہیں میں ایسا کچھ نہیں کہتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تم مجھ سے زیادہ جانتے ہو اور اللہ تعالیٰ کی کتاب میں بھی (اس حکم کو) نہیں جانتا لیکن سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خبردار! کہ ادھار میں سود ہے۔ (لیکن حدیث اسامہ بن زید بعض علماء کے نزدیک منسوخ الحکم ہے اور بعض نے کہا کہ اس کی تاویل ہو گی اور وہ یہ کہ ان اموال پر محمول ہیں جو سودی نہیں وغیرہ۔ یا یہ حدیث مجمل ہے)۔
ابونضرہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے (بیع) صرف کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس میں کوئی قباحت نہیں دیکھی (اگرچہ کمی بیشی ہو بشرطیکہ نقد و نقد ہو) پھر میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو میں نے ان سے (بیع) صرف کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ جو زیادہ ہو وہ سود ہے میں نے سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے کہنے کی وجہ سے اس کا انکار کیا تو انہوں نے کہا کہ میں تجھ سے نہیں بیان کروں گا مگر (صرف) وہ جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ ایک کھجور والا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک صاع عمدہ کھجور لے کر آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھجور بھی اسی قسم کی تھی۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کھجور کہاں سے لایا؟ وہ بولا کہ میں دو صاع کھجور لے کر گیا اور ان کے بدلے ان کھجوروں کا ایک صاع خریدا ہے کیونکہ اس کا نرخ بازار میں ایسا ہے اور اس کا نرخ ایسا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیری خرابی ہو، تو نے سود دیا۔ جب تو ایسا کرنا چاہے تو اپنی کھجور کسی اور شے کے بدلے بیچ ڈال، پھر اس شے کے بدلے جو کھجور تو چاہے خرید لے۔ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پس جب کھجور کے بدلے کھجور دی جائے، اس میں سود ہو تو چاندی جب چاندی کے بدلے دی جائے (کم یا زیادہ) تو اس میں سود ضرور ہو گا (اگرچہ نقد و نقد ہو) ابونضرہ نے کہا کہ اس کے بعد پھر میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اس سے منع کیا (شاید ان کو سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کی حدیث پہنچ گئی ہو) اور میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس نہیں گیا، لیکن مجھ سے ابوالصہباء نے بیان کیا کہ انہوں نے اس کے بارے میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مکہ میں پوچھا تو انہوں نے مکروہ کہا۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، اور سود کھلانے والے، سود لکھنے والے اور سود کے گواہوں سب پر لعنت فرمائی ہے۔ اور فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے اور سیدنا نعمان نے اپنی انگلیوں سے دونوں کانوں کی طرف اشارہ کیا (یعنی یہ بتانے کے لئے کہ میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے) کہ یقیناً حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے لیکن حلال و حرام کے درمیان ایسی چیزیں ہیں جو دونوں سے ملتی ہیں، یعنی ان میں شبہہ ہے۔ اور ان کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ تو جو شبہات سے بچا، وہ اپنے دین اور آبرو کو سلامت لے گیا اور جو شبہات میں پڑا، وہ آخر حرام میں بھی پڑا اس چرواہے کی طرح جو حما (یعنی روکی ہوئی زمین) چراگاہ کے آس پاس چراتا ہے۔ قریب ہے کہ اس کے جانور حما کو بھی چر جائیں گے۔ خبردار! ہر بادشاہ کے لئے چراگاہ یا حدود ہوتی ہیں اور آگاہ رہو کہ اللہ تعالیٰ کی روکی ہوئی چیز اس کی حرام کی ہوئی چیزیں ہیں۔ جان رکھو بیشک بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اگر وہ سنور گیا تو سارا بدن سنور گیا اور جو وہ بگڑ گیا تو سارا بدن بگڑ گیا اور یاد رکھو کہ وہ ٹکڑا دل ہے۔