نافع سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجوع کرنے کا حکم دیا اور یہ کہا کہ اسے ایک حیض تک مہلت دو۔ پھر مہلت دو کہ (وہ اس حیض سے) پاک ہو جائے، پھر (اگر طلاق دینا چاہے تو) جماع کرنے سے پہلے طلاق دے۔ اور یہ وہ وقت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ راوی (نافع) نے کہا کہ پھر جب سیدنا ابن عمر سے ایسے آدمی کے بارہ میں پوچھا جاتا کہ جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی ہو، تو وہ یہی کہتے کہ اگر تو نے ایک یا دو طلاقیں (یعنی رجعی ہے) دی ہیں تو اس بارہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ کہ پھر اسے ایک حیض اور حیض سے پاکیزگی حاصل کرنے کی مہلت دے، اور پھر اسے (پاکیزگی کی حالت میں) جماع کرنے سے پہلے طلاق دے۔ اور اگر تم نے اسے تین طلاق (یعنی طلاق بائنہ جس میں رجوع نہیں) دی ہے تو تم نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کے معاملہ میں اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کا ارتکاب کیا ہے اور تمہاری بیوی تم سے (مطلقہ) بائنہ ہو گئی۔
ابن سیرین کہتے ہیں کہ بیس برس تک مجھ سے ایک شخص جس کو میں مہتم نہیں جانتا تھا روایت کرتا تھا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی عورت کو تین طلاق حالت حیض میں دیں تھیں اور ان کو رجوع کرنے کا حکم ہوا تھا۔ میں اس کی اس روایت کو مہتم نہ کرتا تھا اور نہ حدیث کو بخوبی جانتا تھا (کہ صحیح کیا ہے) یہاں تک کہ میں ابوغلاب یونس بن جبیر باہلی سے ملا اور وہ پکے آدمی تھے۔ پس انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں ایک طلاق دی تھی تو مجھے رجعت کا حکم دیا گیا۔ راوی نے کہا پھر میں نے پوچھا کہ وہ طلاق بھی ان پر شمار کی گئی تھی؟ (یعنی اگر دو طلاق دو تو وہ ملا کر تین پوری ہو جائیں) انہوں نے کہا کہ کیوں نہیں کیا اگر وہ عاجز ہو گیا یا احمق ہو گیا (یہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو خود کہا) یعنی اگر اس طلاق کو نہ گنوں تو حماقت ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اور سیدنا ابوبکر کے دور خلافت اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بھی (پہلے) دو برس تک ایسے تھا کہ جب کوئی یکبارگی تین طلاق دیتا تھا تو وہ ایک ہی شمار کی جاتی تھی۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگوں نے جلدی کرنا شروع کی اس بات میں جس میں انہیں مہلت ملی ہے، پس اگر ہم اس کو جاری کر دیں تو مناسب ہے۔ پھر انہوں نے جاری کر دیا (یعنی یہ حکم دیدیا کہ جو کوئی یکبارگی تین طلاق دے تو تینوں واقع ہو جائیں گی)۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رفاعہ القرضی نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ (یعنی بائنہ غیر رجعی طلاق) دے دی، تو اس نے (یعنی ان کی بیوی نے) عبدالرحمن بن زبیر رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر استفسار کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں رفاعہ (رضی اللہ عنہ) کے عقد میں تھی کہ اس نے مجھے تین میں سے آخری طلاق دے دی تو میں نے عبدالرحمن بن زبیر رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا۔ اور اپنی چادر کا ایک پلو پکڑ کر کہنے لگی کہ اللہ کی قسم ان کے پاس تو کپڑے اس پلو کی طرح ہی ہے۔ راوی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس کی بات سن کر) مسکرا دیئے اور فرمایا کہ شاید تم پھر رفاعہ (رضی اللہ عنہ) کے پاس لوٹنا چاہتی ہو، نہیں ایسا اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ تمہاری لذت نہ چکھ لے اور تم اس کی لذت نہ چکھ لو (یعنی جماع نہ کر لو)۔ (اس وقت) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور خالد بن سعید بن عامی رضی اللہ عنہ حجرے کے دروازے پر اجازت کے منتظر تھے۔ راوی کہتا ہے کہ خالد رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو آواز دی کہ آپ اس عورت کو ڈانتے کیوں نہیں ہو کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا کہہ رہی ہے؟
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب کوئی اپنی بیوی کو کہے تو مجھ پر حرام ہے، تو یہ قسم ہے اس میں کفارہ دینا ضروری ہے اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ بیشک تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ میں بہتر نمونہ ہے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کے پاس ٹھہرا کرتے اور ان کے پاس شہد پیا کرتے تھے۔ پس ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے اور ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے ایکا کیا کہ جس کے پاس بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرے کہ میں آپ کے پاس سے مغافیر کی بدبو پاتی ہوں، کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ (یہ ایک قسم کا گوند ہے جس کی بو ناپسندیدہ تھی)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک کے پاس آئے تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی کہا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلکہ میں نے تو زینب کے پاس شہد پیا ہے اور اب کبھی نہ پیوں گا۔ پھر یہ آیت اتری کہ ”اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے حلال کیا ہے.... اگر وہ دونوں توبہ کریں“ یعنی ام المؤمنین عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما اور اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ ”نبی نے ایک بات چپکے سے اپنی ایک بیوی سے کہی“(التحریم: 3-1) تو اس بات سے وہی بات مراد ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں نے شہد پیا ہے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شیرینی اور شہد بہت پسند تھا اور (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر پڑھ چکتے تو اپنی ازواج مطہرات کے پاس آتے اور ہر ایک سے قریب ہوتے۔ پس ایک دن حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور وہاں اور دنوں سے زیادہ ٹھہرے تو میرے اس کا سبب دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ان کی قوم کی ایک عورت کے پاس سے ان کے پاس شہد کی ایک کپی ہدیہ میں آئی تھی، اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد کا شربت پلایا ہے۔ پس میں نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم ان سے ایک تدبیر کریں گی۔ میں نے سودہ رضی اللہ عنہا سے ذکر کیا اور ان سے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس آئیں اور تم سے قریب ہوں تو تم کہنا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں گے نہیں، تو تم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنا کہ پھر یہ بدبو کیسی ہے؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے بہت نفرت تھی کہ آپ سے بدبو آئے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم سے کہیں گے کہ مجھے حفصہ نے شہد پلایا ہے، تب تم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنا کہ شاید اس کی مکھی نے عرفط کے درخت سے رس چوس لیا ہے (عرفط اسی درخت کا نام ہے جس کی گوند مغافیر ہے)۔ اور میں بھی ان سے ایسا ہی کہوں گی اور اے صفیہ (رضی اللہ عنہا) تم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی کہنا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سودہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو سودہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قسم ہے جس اللہ کی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں قریب تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے باہر نکل کر وہی بات کہوں جو تم نے (اے عائشہ) مجھ سے کہی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دروازے پر تھے اور میرا کہنے میں اس طرح جلدی کرنا تمہارے ڈر سے تھا، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزدیک ہوئے تو انہوں نے کہا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغافیر کھایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں پھر انہوں نے کہا کہ یہ بدبو کس کی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے حفصہ نے شہد کا شربت پلایا ہے۔ تب انہوں نے کہا کہ مکھی نے عرفط کا رس چوس لیا ہے (اس لئے اس کی بو شہد میں آ گئی ہے) پھر جب میرے پاس آئے تو میں (عائشہ رضی اللہ عنہا) نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی کہا پھر صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور انہوں نے بھی ایسا ہی کہا، تو جب دوبارہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں اس میں سے آپ کے لئے شہد لاؤں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سودہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ سبحان اللہ! ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد پینے سے روک دیا، تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ چپ رہو۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہونے کی اجازت چاہی اور لوگوں کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر جمع ہیں اور کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہوئی۔ راوی نے کہا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اجازت مل گئی تو اندر چلے گئے۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے اور اجازت چاہی تو انہیں بھی اجازت مل گئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ کے گرد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ہیں کہ غمگین چپکے بیٹھی ہوئی ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے (اپنے دل میں) کہا کہ میں ضرور کوئی ایسی بات کہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنساؤں۔ پس انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! کاش آپ دیکھتے کہ خارجہ کی بیٹی کو (یہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی زوجہ ہیں) کہ اس نے مجھ سے خرچ مانگا تو میں اس کے پاس کھڑا ہو کر اس کا گلا گھونٹنے لگا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دئیے اور فرمایا کہ یہ سب بھی میرے گرد ہیں جیسا کہ تم دیکھتے ہو اور مجھ سے خرچ مانگ رہی ہیں۔ پس سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر عائشہ رضی اللہ عنہا کا گلا گھونٹنے لگے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا اور دونوں (اپنی اپنی بیٹیوں سے) کہتے تھے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ چیز مانگتی ہو جو آپ کے پاس نہیں ہے؟ اور وہ کہنے لگیں کہ اللہ کی قسم ہم کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی چیز نہ مانگیں گی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ایک ماہ یا انتیس دن جدا رہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت اتری کہ ”اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی بیویوں سے کہہ دو .... سے .... اجر عظیم ہے“ تک (احزاب: 28,29)۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور ان سے فرمایا کہ اے عائشہ! میں تم پر ایک چیز پیش کر رہا ہوں ہوں اور چاہتا ہوں کہ تم اس میں جلدی نہ کرو جب تک اپنے ماں باپ سے مشورہ نہ لے لو۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! وہ کیا بات ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر یہ آیت پڑھی تو انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اپنے والدین سے مشورہ لوں؟ بلکہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کرتی ہوں۔ اور میں آپ سے یہ سوال کرتی ہوں کہ آپ اپنی ازواج میں سے کسی کو میرے اس جواب کی خبر نہ دیں جو میں نے دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان میں سے جو بیوی مجھ سے پوچھے گی میں اسے فوراً خبر کر دوں گا، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تنگی اور سختی کرنے والا نہیں بلکہ آسانی سے سکھانے والا بنا کر بھیجا ہے۔
مسروق کہتے ہیں کہ مجھے کچھ خوف نہیں اگر میں اختیار دوں اپنی بیوی کو ایک بار یا سو بار یا ہزار بار جب وہ مجھے پسند کر چکی ہے اور میں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دیا تھا تو کیا یہ طلاق ہو گئی؟ (یعنی نہیں ہوئی)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ میں ایک سال تک سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے پوچھنے کا ارادہ کرتا رہا لیکن ان کے رعب کی وجہ سے نہ پوچھ سکا، یہاں تک کہ وہ حج کو نکلے اور میں بھی ان کے ساتھ نکلا۔ پھر جب واپسی میں تھے کہ سیدنا عمر ایک بار پیلو کے درختوں کی طرف کسی حاجت کو جھکے اور میں ان کے لئے ٹھہرا رہا، یہاں تک کہ وہ اپنی حاجت سے فارغ ہوئے تو میں ان کے ساتھ چلا۔ اور میں نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! وہ دونوں عورتیں کون ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کی ازواج میں سے زور ڈالا، تو انہوں نے کہا کہ وہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ اللہ کی قسم میں آپ سے اس بارے میں ایک سال سے پوچھنا چاہتا تھا لیکن آپ کی ہیبت سے نہ پوچھ سکا تھا۔ تو انہوں نے کہا کہ نہیں ایسا مت کرو، جو بات تمہیں خیال آئے کہ مجھے معلوم ہے اس کو تم مجھ سے دریافت کر لو، اگر میں جانتا ہوں تو تمہیں بتا دوں گا۔ کہتے ہیں پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی قسم ہم پہلے جاہلیت میں گرفتار تھے اور عورتوں کو کچھ اہمیت نہیں دیتے تھے، یہاں تک کہ اللہ نے ان کے ادائے حقوق میں اتارا جو کہ اتارا اور ان کے لئے باری مقرر کی جو مقرر کی۔ چنانچہ ایک دن ایسا ہوا کہ میں کسی کام میں مشورہ کر رہا تھا کہ میری بیوی نے کہا کہ تم اس طرح کرتے تو خوب ہوتا، تو میں نے اس سے کہا کہ تجھے میرے کام میں کیا دخل؟ جس کا میں ارادہ کرتا ہوں تجھے اس سے کیا سروکار؟ تو اس نے مجھ سے کہا کہ اے ابن خطاب! تعجب ہے تم تو چاہتے ہو کہ کوئی تمہیں جواب ہی نہ دے حالانکہ تمہاری صاحبزادی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیتی ہے، یہاں تک کہ وہ دن بھر غصہ رہتے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں اپنی چادر لے کر گھر سے نکلا اور حفصہ پر داخل ہوا اور اس سے کہا کہ اے میری پیاری بیٹی! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیتی ہے یہاں تک کہ وہ دن بھر غصہ میں رہتے ہیں؟ تو حفصہ نے کہا کہ اللہ کی قسم میں تو ان کو جواب دیتی ہوں پس میں نے اس سے کہا کہ تو جان لے میں تجھ کو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سے ڈراتا ہوں اے میری بیٹی! تم اس بیوی کے دھوکے میں مت رہو جو اپنے حسن، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر ناز کرتی ہیں (یعنی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا)۔ پھر میں وہاں سے نکلا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے اس قرابت کے سبب جو مجھے ان کے ساتھ تھی داخل ہوا اور میں نے ان سے بات کی۔ ام اسلمہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے کہا کہ اے ابن خطاب! تم پر تعجب ہے کہ تم ہر چیز میں دخل دیتے ہو یہاں تک کہ تم چاہتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی ازواج کے معاملہ میں بھی دخل دو۔ مجھے ان کی اس بات سے بہت صدمہ پہنچا جس نے مجھے اس نصیحت سے باز رکھا جو میں کرنا چاہتا تھا۔ اور میں ان کے پاس سے چلا آیا۔ انصار میں سے میرا ایک دوست تھا کہ جب میں غائب ہوتا تو وہ مجھے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس اور احادیث کی) خبر دیتا اور جب وہ غائب ہوتا تو میں اس کو خبر دیتا تھا اور ہم ان دنوں غسان کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کا خوف رکھتے تھے اور ہم میں چرچا تھا کہ وہ ہماری طرف آنے کا ارادہ رکھتا ہے اور ہمارے سینے اس کے خیال سے بھرے ہوئے تھے۔ اس دوران میرے دوست نے آ کر دروازہ بجایا اور کہا کہ کھولو کھولو! میں نے کہا کہ کیا غسانی آ گئے؟ اس نے کہا کہ نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ پریشانی کی ایک بات ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات سے جدا ہو گئے ہیں۔ پس میں نے کہا کہ حفصہ اور عائشہ کی ناک خاک آلود ہو۔ پھر میں نے اپنے کپڑے لئے اور نکلا یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بالاخانے میں تھے کہ اس کے اوپر کھجور کی ایک جڑ سے چڑھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سیاہ فام غلام اس سیڑھی کے سرے پر تھا۔ پس میں نے کہا کہ یہ عمر ہے میرے لئے اجازت دی گئی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں نے یہ سب قصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا اور جب میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بات پر پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر تھے کہ ان کے اور چٹائی کے بیچ میں اور کوئی بچھونا نہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ تھا جس میں کھجور کا چھلکا بھرا ہوا تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروں کی طرف سلم کے کچھ پتے ڈھیر تھے (جس سے چمڑے کو رنگتے ہیں) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرہانے ایک کچا چمڑا لٹکا ہوا تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو پر چٹائی کا اثر اور نشان دیکھا تو رونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! تجھے کس بات نے رلایا؟ میں نے کہ کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! بیشک کسریٰ اور قیصر عیش میں ہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم راضی نہیں ہو کہ ان کیلئے دنیا ہو اور تمہارے لئے آخرت۔