سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ سے سامان کے ساتھ (یا یوں کہا کہ ضعیفوں کے ہمراہ) رات کو ہی بھیج دیا۔
سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ(ان کے والد) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے ساتھ کے ضعیف لوگوں کو آگے بھیج دیتے تھے کہ وہ المشعر الحرام میں، جو کہ مزدلفہ میں ہے، رات کو وقوف کر لیں اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے رہیں جب تک چاہیں۔ پھر امام کے وقوف کرنے سے پہلے لوٹ جائیں۔ سو ان میں سے کوئی تو صبح کی نماز کے وقت منیٰ پہنچ جاتا تھا اور کوئی اس کے بعد پہنچتا۔ اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ضعیفوں کو اس کی اجازت دی ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا فضل (بن عباس) رضی اللہ عنہ کو مزدلفہ سے اپنے پیچھے اونٹنی پر بٹھا لیا تھا۔ (راوی نے) کہا کہ مجھے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی اور انہیں سیدنا فضل رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کی رمی تک لبیک پکارتے رہے۔
عبدالرحمن بن یزید سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما جب مزدلفہ سے لوٹے تو لبیک پکاری، تو لوگوں نے کہا کہ شاید یہ گاؤں کا کوئی آدمی ہے؟ (یعنی جو اب لبیک پکارتا ہے) تو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا، کیا لوگ بھول گئے (یعنی سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) یا گمراہ ہو گئے؟ میں نے خود ان سے سنا ہے جن پر سورۃ البقرہ نازل ہوئی (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) کہ وہ اس جگہ میں لبیک پکارتے تھے۔
اعمش سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے حجاج بن یوسف سے خطبہ میں کہتے ہوئے سنا: قرآن شریف کی وہی ترتیب رکھو کہ جو جبرائیل علیہ السلام نے رکھی ہے۔ وہ سورت پہلے ہو جس میں بقرہ کا ذکر ہے پھر وہ سورت جس میں نساء کا ذکر ہے۔ پھر وہ سورت جس میں آل عمران کا ذکر ہے۔ اعمش نے کہا کہ پھر میں ابراہیم سے ملا تو ان کو اس بات کی خبر دی تو انہوں نے اس کو برا بھلا کہا اور پھر کہا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن یزید نے روایت کی کہ وہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھے اور وہ جمرہ عقبہ پر آئے اور بطن الوادی میں، جمرہ کو سامنے رکھتے ہوئے کھڑے ہوئے اور اس کو سات کنکریاں نالہ کے پیچھے سے ماریں اور ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے تھے۔ (راوی نے) کہا کہ میں نے ان سے کہا کہ اے ابوعبدالرحمن! (یہ کنیت ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی) لوگ تو اوپر سے کھڑے ہو کر کنکریاں مارتے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ اس معبود کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، یہ جگہ اس کی ہے جس پر سورۃ البقرہ اتری ہے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہیں سے کنکریاں ماری تھیں)۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ جمرہ عقبہ کو قربانی کے دن اپنی اونٹنی پر سے کنکر مارتے تھے اور فرماتے تھے کہ مجھ سے اپنے حج کے مناسک سیکھ لو، اس لئے کہ میں نہیں جانتا کہ اس کے بعد حج کروں۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ کو وہ کنکریاں ماریں جو چٹکی سے پھینکی جاتی ہیں۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نحر کے دن چاشت کے وقت جمرہ کو کنکریاں ماریں اور بعد کے دنوں میں جب آفتاب ڈھل گیا۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ استنجاء کے لئے ڈھیلے لینا طاق ہیں اور جمرہ کی کنکریاں طاق ہیں اور صفا اور مروہ کی سعی طاق ہے اور کعبہ کا طواف طاق ہے (یعنی آخری تینوں سات سات ہیں) اور ضرور ہے کہ جو استنجے کے لئے پتھر لے تو طاق لے (یعنی تین یا پانچ جس میں طہارت خوب ہو جائے۔ یعنی اگر طہارت چار میں ہو جائے تو بھی ایک اور لے تاکہ طاق ہو جائیں اور بعض بیوقوف فقہاء نے جو یہ لکھا ہے کہ ڈھیلے کے تئیں طہارت کے وقت تین بار ٹھونک لے کہ تسبیح سے باز رہے، یہ بدعت، بے اصل اور لغو حرکت ہے اور طاق ڈھیلے لینا جمہور علماء کے نزدیک مستحب ہے)۔