سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی اونٹ سے گر پڑا اور اس کی گردن ٹوٹ گئی جس سے وہ فوت ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور اس کو اسی کے دو کپڑوں (یعنی احرام کی چادروں) میں کفن دو اور اس کا سر نہ ڈھانپو، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن لبیک پکارتا ہوا اٹھائے گا۔
نافع کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما مکہ میں جاتے ہوئے ذی طویٰ میں رات گزارتے، پھر صبح غسل کرتے اور پھر دن کے وقت مکہ میں داخل ہوتے تھے اور ذکر کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (مدینہ سے) نکلتے تو شجرہ کی راہ سے نکلتے اور معرس کی راہ سے داخل ہوتے (معرس مدینہ سے چھ میل پر ایک مقام ہے) اور جب مکہ میں داخل ہوتے تو اوپر کے ٹیلے سے داخل ہوتے اور جب نکلتے تو نیچے کے ٹیلے سے نکلتے۔
سیدنا اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ مکہ میں اپنے گھر رہائش فرمائیں گے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا عقیل نے ہمارے لئے کوئی گھر یا چار دیورای چھوڑی ہے؟ (کہ وہاں رہائش کریں گے) کیونکہ ابوطالب کے وارث تو عقیل اور طالب ہوئے تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کسی چیز کے وارث نہیں ہوئے تھے۔ کیونکہ یہ دونوں مسلمان ہو گئے تھے اور عقیل اور طالب مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ (اس وجہ سے مسلمان اور کافر ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے)۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حج یا عمرہ میں پہلے پہل طواف کرتے تو تین بار دوڑتے، پھر چار بار چلتے، پھر دو رکعت نماز پڑھتے پھر صفا اور مروہ کی سعی کرتے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ حجراسود سے حجراسود تک تین چکروں میں دوڑتے ہوئے طواف کیا۔
سیدنا ابوالطفیل کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے طواف میں تین بار رمل کرنا اور چار بار چلنا سنت ہے؟ اس لئے کہ تمہارے لوگ کہتے ہیں کہ وہ سنت ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ سچے بھی جھوٹے بھی ہیں۔ میں نے پوچھا اس کا کیا مطلب کہ انہوں نے سچ بولا اور جھوٹ کہا؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں تشریف لائے تو مشرکوں نے کہا، کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب بیت اللہ شریف کا طواف ضعف اور لاغری و کمزوری کے سبب نہیں کر سکتے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسد رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ تین بار رمل کریں اور چار بار عادت کے موافق چلیں (غرض یہ ہے کہ انہوں نے اس فعل کو جو سنت مؤکدہ مقصودہ سمجھا، یہ ان کا جھوٹ تھا باقی بات سچ تھی) پھر میں نے کہا کہ ہمیں صفا اور مروہ کے درمیان میں سوار ہو کر سعی کرنے کے بارے میں بتائیے کہ کیا یہ سنت ہے؟ کیونکہ آپ کے لوگ اسے سنت کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ سچے بھی ہیں اور جھوٹے بھی۔ میں نے کہا کہ اس کا کیا مطلب؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں تشریف لائے تو لوگوں کی بھیڑ ایسی ہوئی کہ کنواری عورتیں تک باہر نکل آئیں اور لوگ کہنے لگے کہ یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی خوش خلقی ایسی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے آگے لوگ مارے نہ جاتے تھے (یعنی ہٹو بچو، جیسے امرائے دنیا کے واسطے ہوتی ہے، ویسی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہ ہوتی تھی) پھر جب لوگوں کی بڑی بھیڑ ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو گئے اور پیدل سعی کرنا افضل ہے (یعنی اتنا جھوٹ ہوا کہ جو چیز بضرورت ہوتی تھی اس کو بلا ضرورت سنت کہا باقی سچ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوار ہو کر سعی کی)۔
عبداللہ بن سرجس کہتے ہیں کہ میں نے اصلع (یعنی جس کے سر پر بال نہ ہوں، اس سے مراد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہیں) کو دیکھا (اس سے معلوم ہوا کہ کسی کا لقب اگر مشہور ہو جائے اور وہ اس سے برا نہ مانے تو اس لقب سے اسے یاد کرنا درست ہے اگرچہ دوسرا شخص برا مانے) اور وہ حجراسود کو بوسہ دیتے ہوئے کہتے تھے کہ قسم ہے اللہ تعالیٰ کی کہ میں تجھے بوسہ دیتا ہوں اور جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے کہ نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا ہوتا کہ وہ تجھے بوسہ دیتے تھے تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا (اس قول سے بت پرستوں اور گور (قبر) پرستوں اور چلہ پرستوں کی نانی مر گئی جو قبروں وغیرہ کو اس خیال سے بوسہ دیتے ہیں کہ ہماری مراد دیں گے اس لئے کہ جب حجراسود جو یمن اللہ ہے اس کا بوسہ بھی اتباع رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سبب سے ہے نہ اس خیال سے کہ ضرر رساں یا نفع دہندہ ہے تو پھر اور چیزیں جن کا بوسہ کہیں ثابت نہیں بلکہ منع ہے اس خیال ناپاک کے ساتھ کیونکر جائز ہو گا؟)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجراسود اور رکن یمانی کو استلام کرتے ہوئے دیکھا ہے، تب سے میں نے (بھی ان کا استلام) نہیں چھوڑا نہ سختی میں نہ آرام میں (یعنی کتنی ہی بھیڑ بھاڑ ہو میں استلام نہیں چھوڑتا)۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رکنین یمانیین (حجراسود اور رکن یمانی) کے علاوہ استلام کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (یعنی دوسرے دو ارکان کا استلام نہیں کیا)۔