سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ پاجامہ اس (محرم) کے لئے ہے جو تہبند نہ پائے اور موزہ اس (محرم) کے لئے ہے جو نعلین نہ پائے۔
سیدنا صعب بن جثامہ اللیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک جنگلی گدھے کا گوشت ہدیہ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مقام) ابواء یا دوّان میں تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس کر دیا۔ کہتے ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے چہرے پر ملال دیکھا تو فرمایا: ہم نے کسی اور وجہ سے واپس نہیں کیا، فقط اتنا ہے کہ ہم لوگ احرام باندھے ہوئے ہیں۔
طاؤس سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ آئے تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان کو یاد دلا کر کہا کہ تم نے شکار کے گوشت کی خبر کیسے دی تھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ دیا گیا تھا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام باندھے ہوئے تھے؟ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک عضو شکار کے گوشت کا ہدیہ دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس کر دیا اور فرمایا کہ ہم لوگ احرام باندھے ہوئے ہیں، اس لئے ہم نہیں کھاتے۔
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لئے نکلے اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض اصحاب سے فرمایا، جن میں ابوقتادہ بھی تھے کہ تم ساحل بحر کی راہ لو یہاں تک کہ مجھ سے ملو۔ پھر ان لوگوں نے ساحل بحر کی راہ لی۔ پھر جب وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھرے تو ان تمام لوگوں نے احرام باندھ لیا سوائے سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے کہ انہوں نے احرام نہیں باندھا۔ غرض وہ راہ میں چلے جاتے تھے کہ انہوں نے چند وحشی گدھوں کو دیکھا اور سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے ان پر حملہ کیا اور ان میں سے ایک گدھی کی کونچیں کاٹ ڈالیں۔ پھر ان کے سب ساتھی اترے اور اس کا گوشت کھایا۔ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے (شکار کا) گوشت کھایا اور ہم محرم تھے۔ کہتے ہیں پھر باقی کا گوشت ساتھ لے لیا اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم نے احرام باندھ لیا تھا، اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے احرام نہیں باندھا تھا پھر ہم نے چند وحشی گدھے دیکھے اور ابوقتادہ نے ان پر حملہ کر کے ان میں سے ایک کی کونچیں کاٹ ڈالیں تو ہم اترے اور ہم سب نے اس کا گوشت کھایا اور پھر خیال آیا کہ ہم شکار کا گوشت کھا رہے ہیں اور احرام باندھے ہوئے ہیں؟ تو اس کا باقی گوشت ہم لیتے آئے ہیں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم میں سے کسی نے اس کا حکم کیا تھا یا اس کی طرف اشارہ کیا تھا؟ ابوقتادہ کہتے ہیں! تو انہوں نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پس اس کا جو گوشت باقی ہے وہ کھاؤ (اور کچھ حرج نہیں)۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ جانور موذی ہیں کہ حرم کی حدود سے باہر اور حرم کی حدود کے اندر مار دیئے جائیں۔ ان میں سانپ، چتکبرا کوّا، چوہا، پاگل کتا اور چیل شامل ہیں۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ جانور ایسے ہیں کہ ان کو حرم میں اور احرام کی حالت میں قتل کرنے والے پر کوئی گناہ نہیں ہے، وہ جانور یہ ہیں: 1۔ چوہا۔ 2۔ بچھو۔ 3۔ کوّا۔ 4۔ چیل۔ 5۔ پاگل کتا۔
سیدنا ابن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کی راہ میں اپنے سر کے درمیانی حصہ میں پچھنے لگوائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام کی حالت میں تھے۔
نبیہ بن وھب کہتے ہیں کہ ہم ابان بن عثمان کے ساتھ نکلے اور جب (مقام) ملل (جو کہ مکہ کی راہ میں مدینہ سے اٹھائیس میل پر ہے) میں پہنچے تو عمر بن عبیداللہ کی آنکھیں دکھنے لگیں۔ اور جب روحاء (مقام) پر پہنچے اور درد شدید ہو گیا تو انہوں نے ابان بن عثمان سے (علاج کا) پوچھنے کے لئے آدمی بھیجا۔ انہوں نے کہا ایلوے کا لیپ کرو، اس لئے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جب مرد کی آنکھیں دکھنے لگیں اور وہ احرام باندھے ہوئے ہو تو ان پر ایلوے کا لیپ کرے۔
سیدنا عبداللہ بن حنین نے سیدنا عبداللہ بن عباس اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ان دونوں میں (مقام) ابواء میں تکرار ہوئی۔ (اس بات میں کہ) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ محرم سر دھو سکتا ہے اور سیدنا مسور رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں (دھو سکتا) چنانچہ عبداللہ بن حنین نے کہا کہ مجھے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ کے پاس یہ پوچھنے کیلئے بھیجا تو میں نے ان کو پایا کہ وہ کنوئیں کی دو لکڑیوں کے بیچ میں نہا رہے تھے اور وہ ایک کپڑے کی آڑ میں تھے۔ میں نے ان کو سلام کیا تو انہوں نے پوچھا کہ کون ہے؟ میں نے کہا کہ میں عبداللہ بن حنین ہوں اور مجھے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے تمہاری طرف یہ پوچھنے کے لئے بھیجا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرام میں سر کیسے دھوتے تھے۔ پس سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ کپڑے پر رکھے اور اسے تھوڑا سا جھکا دیا یہاں تک کہ مجھے ان کا سر نظر آنے لگا۔ اور اس آدمی سے، جو ان کے سر پر پانی ڈال رہا تھا، پانی ڈالنے کا حکم دیا تو اس نے آپ (کے سر) پر پانی ڈالا۔ پھر وہ اپنے سر کو ہلاتے تھے اور اپنے ہاتھ سے آگے اور پیچھے ملتے تھے۔ پھر کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی (سر دھوتے) دیکھا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن معقل کہتے ہیں کہ میں سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کے پاس مسجد میں بیٹھا تھا۔ میں اس آیت ((ففدیۃ من صیام او صدقۃ اونسک)) کے متعلق پوچھا تو سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ میرے بارے میں اتری تھی۔ (پھر سارا قصہ بیان کیا کہ) میرے سر میں تکلیف تھی تو مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس حال میں لے جایا گیا کہ میرے سر سے میرے چہرے پر جوئیں گر رہی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے یہ گمان تک نہ تھا کہ تجھے اتنی تکلیف ہو گی۔ اچھا! تمہارے پاس بکری ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ تو یہ آیت نازل ہوئی ((ففدیۃ من صیام او صدقۃ اونسک))(یعنی حج کے موقعہ پر احرام کی حالت میں اپنے بال اس وقت تک نہ منڈواؤ جب تک قربانی نہ کر لو، البتہ کسی کو سر میں تکلیف ہو تو وہ سر منڈوا لے لیکن اس کے ساتھ کفارہ ادا کرے یا تو روزے رکھے یا صدقہ یا قربانی کرے)۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا کہ یا تو تین روزے رکھنے ہوں گے یا چھ مساکین کو کھانا کھلانا ہو گا، یا نصف صاع (یعنی سوا کلو کھانا) گندم وغیرہ فی کس چھ مساکین کو دینی ہو گی۔ اور (کعب رضی اللہ عنہ نے) فرمایا کہ یہ آیت نزول کے لحاظ سے تو میرے ساتھ خاص ہے لیکن عمل کے لحاظ سے تمام لوگوں کے لئے عام ہے۔