سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر روز دو فرشتے اترتے ہیں۔ ایک تو یہ کہتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اور دے اور دوسرا یہ کہتا ہے کہ اے اللہ! بخیل کے مال کو تباہ کر۔
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان امانت دار خزانچی، جو خرچ کرتا ہو۔ اور کبھی فرماتے کہ وہ دیتا ہو جس کا (اسے) حکم ہوا ہو اور پوری رقم دیتا ہو (یعنی تحریر بٹہ رشوت نہ کاٹتا ہو) اور پوری خیرات دیتا ہو، اپنے دل کی خوشی کے ساتھ۔ اور جس کو حکم ہوا ہو اس کو پہنچائے (تو) وہ بھی ایک صدقہ دینے والا ہے۔
سیدہ اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس کچھ ہے ہی نہیں ماسوا اس کے جو زبیر رضی اللہ عنہ مجھے دیتے ہیں۔ اگر میں اس میں سے کچھ صدقہ کر دوں تو مجھے گناہ تو نہیں ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جتنا تم دے سکو دیدو، سینت کر نہ رکھو اور دے کر یاد نہ رکھو ورنہ اللہ بھی سینت کر رکھے گا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت اپنے گھر کے اناج سے بغیر فساد کے خرچ کرے (یعنی جتنا دستور ہے جیسے فقیر کو ٹکڑا یا سائل کو ایک مٹھی جس میں شوہر کی رضا عادت سے معلوم ہوتی ہے) تو اس کو اس کے خرچ کرنے کا ثواب ہوتا ہے، اور شوہر کو اس کے کمانے کا۔ اور خزانچی کو بھی اسی کی مثل کہ ایک کے ثواب سے دوسرے کا ثواب نہ گھٹے گا (یعنی ہر ایک کو اللہ تعالیٰ ایک ثواب دے گا نہ کہ ایک کے ثواب میں دوسرے کو شریک کر دےگا)۔
سیدنا عمیر جو سیدنا ابی اللحم رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ہیں، کہتے ہیں کہ مجھے میرے مالک (ابی اللحم) نے گوشت سکھانے کا حکم دیا۔ ایک فقیر آ گیا تو میں نے اسے کھانے کے موافق دے دیا۔ جب مالک کو خبر ہوئی تو انہوں نے مجھے مارا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا (سبحان اللہ آپ یتیموں اور بیواؤں اور مظلوموں کی امان تھے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور فرمایا کہ تو نے اسے کیوں مارا؟ انہوں نے کہا کہ یہ میرا کھانا میرے حکم کے بغیر دے دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (اس خیرات کا) تم دونوں کو ثواب ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی عورت (نفل) روزہ نہ رکھے جبکہ اس کا شوہر گھر میں موجود ہو مگر اس کی اجازت سے (رکھے) اور نہ اس کے گھر میں کسی (اپنے محرم) کو آنے دے جب وہ گھر پر ہو مگر اس کی اجازت سے (پھر جب وہ حاضر نہ ہو تو بدرجہ اولیٰ اس کے حکم اور رضا کے جو پہلے سے معلوم ہو چکی ہو، کسی کو آنے نہ دینا چاہئیے) اور اس کی کمائی سے اس کی اجازت کے بغیر جو کچھ خرچ کرتی ہے تو اس میں بھی اس کے مرد کو آدھا ثواب ہے (یعنی مرد کو کمانے کا اور عورت کو دینے کا)۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار کے چند لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیا۔ انہوں نے پھر مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دیا یہاں تک کہ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا، جب ختم ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جو مال ہوتا ہے تو میں تم سے بچا کر نہیں رکھتا۔ اور جو شخص سوال سے بچے اللہ تعالیٰ اسے بچاتا ہے اور جو اپنے دل کو مستغنی بےپرواہ رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کو مستغنی (بےپرواہ) کر دیتا ہے۔ اور جو صبر کی عادت ڈالے، اللہ تعالیٰ اس پر صبر آسان کر دیتا ہے۔ اور کوئی عطائے الٰہی صبر سے زیادہ بہتر اور کشادگی والی نہیں ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک (دنیا و آخرت میں) کامیاب ہو گیا وہ شخص جو اسلام لایا اور ضرورت کے موافق رزق دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ اسے دیا اس پر قانع کر دیا
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سوال میں چمٹنے سے بچو۔ اس لئے کہ اللہ کی قسم جو مجھ سے کوئی چیز مانگتا ہے اور اس کے سوال کے سبب سے میرے پاس سے چیز خرچ ہوتی ہے اور میں اس کو برا جانتا ہوں (یعنی ناخوشی سے دوں) تو اس میں برکت کیسے ہو گی؟
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہمیشہ ایک آدمی مانگتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ سے ملے گا اور اس کے منہ پر گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہیں ہو گا۔