ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جب کسی بندے کو تکلیف پہنچے اور وہ یہ دعا پڑھے ”اناللہ وانا الیہ راجعون .... واخلف لی خیرا منہا“ یعنی یقیناً ہم بھی اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں اور یقیناً ہم (بھی) اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ اے اللہ مجھے میری اس مصیبت میں اجر دے اور اس کے بعد مجھے (ضائع شدہ چیز سے) بہتر چیز عطا فرما۔ (اس دعا کے پڑھتے رہنے سے) اللہ تعالیٰ اس کو اس مصیبت کا ثواب دیتا ہے اور (ضائع شدہ چیز سے) بہتر چیز بھی عطا فرماتا ہے۔ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب (میرا پہلا خاوند سیدنا) ابوسلمہ رضی اللہ عنہ فوت ہو گیا تو میں نے (مذکورہ دعا) پڑھی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تھا، تو (اس دعا کی برکت سے) اللہ تعالیٰ نے مجھے (پہلے خاوند) سے اچھے خاوند (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) عطا فرما دیئے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کو آئے اور سیدنا عبدالرحمن بن عوف، سعد اور عبداللہ رضی اللہ عنہما ان کے ساتھ تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے تو انہیں بیہوش پایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا انتقال ہو گیا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم رونے لگے۔ لوگوں نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے دیکھا تو سب رونے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سنتے ہو، اللہ تعالیٰ آنکھوں کے آنسوؤں پر اور دل کے غم پر عذاب نہیں کرتا، وہ تو اس (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان کی طرف اشارہ کیا) کی بنا پر عذاب کرتا ہے یا رحمت کرتا ہے۔ (یعنی جب کلمہ خیر منہ سے نکالے تو رحم کرتا ہے اور جب کلمہ شر نکالے تو عذاب کرتا ہے)۔
سیدنا ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں جاہلیت (یعنی زمانہ کفر) کی چار چیزیں ہیں کہ لوگ ان کو نہ چھوڑیں گے۔ ایک اپنے حسب پر فخر کرنا۔ دوسرا ایک دوسرے کے نسب پر طعن کرنا۔ تیسرے تاروں سے بارش کی امید رکھنا اور چوتھے یہ کہ بین کر کے رونا۔ اور بین کرنے والی اگر اپنے مرنے سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اس پر گندھک اور خارش (لگانے) والی قمیض ہو گی۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں، جو گالوں کو پیٹے اور گریبانوں کو پھاڑے یا جاہلیت (کفر) کے زمانے کی باتیں کرے۔ ایک اور روایت میں (او) کی جگہ (و) کا لفظ ہے۔
سیدہ عمرہ بنت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سنا (اور ان کے سامنے اس بات کا ذکر ہوا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مردے پر زندہ کے رونے سے عذاب ہوتا ہے تو) ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ ابوعبدالرحمن رضی اللہ عنہ کو بخشے، انہوں نے جھوٹ نہیں کہا مگر بھول ہو گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی عورت پر گزرے کہ لوگ اس پر رو رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو اس پر روتے ہیں اور اس کو قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔
سیدنا ابوقتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ نے فرمایا: خود آرام پانے والا ہے اور اس کے جانے سے اور لوگوں نے آرام پایا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ خود آرام پانے والا ہے اور لوگوں کو اس سے آرام ہو گا، کا مطلب کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن دنیا کی تکلیفوں سے آرام پاتا ہے (یعنی موت کے وقت) اور بد آدمی کے جانے سے بندے، شہر، درخت اور جانور آرام پاتے ہیں۔
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ اس کو طاق مرتبہ تین یا پانچ مرتبہ غسل دو۔ اور پانچویں بار کافور یا (فرمایا کہ) تھوڑا سا کافور ڈال دو۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سحول کی بنی ہوئی تین سفید روئی کی بنی ہوئی چادروں میں کفن دیا گیا۔ ان میں نہ کرتہ تھا، نہ عمامہ اور حلہ کا لوگوں کو شبہ ہو گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خریدا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں کفن دیا جائے، پھر نہ دیا گیا اور تین چادروں میں دیا گیا جو سفید سحول کی بنی ہوئی تھیں۔ اور حلہ کو عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے لیا اور کہا کہ میں اسے رکھ چھوڑوں گا اور میں اپنا کفن اسی سے کروں گا۔ پھر کہا کہ اگر اللہ کو یہ پسند ہوتا تو اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن کے کام آتا سو اس کو بیچ ڈالا اور اس کی قیمت خیرات کر دی۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ ارشاد فرمایا اور اپنے اصحاب میں سے ایک شخص کا ذکر کیا جن کا انتقال ہو چکا تھا اور ان کو ایسا کفن دیا گیا تھا جس سے ستر نہیں ڈھانپا جاتا تھا اور شب کو دفن کر دیا گیا تھا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رات میں دفن کرنے پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ نہ پڑھی۔ مگر جب انسان لاچار ہو جائے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کفن دے تو اچھا کفن دے (تاکہ اس کے تمام بدن کو خوب اچھی طرح ڈھانپ لینے والا ہو)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنازہ لے جانے میں جلدی کرو۔ اس لئے کہ اگر نیک ہے تو اسے خیر کی طرف لے جاتے ہو اور اگر بد ہے تو اسے اپنی گردن سے اتارتے ہو۔