سیدنا یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ ”کچھ گناہ نہیں اگر تم قصر کرو نماز میں اگر تمہیں خوف ہو کہ کافر لوگ تمہیں ستائیں گے“(النساء: 101) اور اب تو لوگ امن میں ہو گئے (یعنی اب قصر جائز ہے یا نہیں؟) تو انہوں نے کہا کہ مجھے بھی یہی تعجب ہوا، جیسے تمہیں تعجب ہوا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کو پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اللہ نے تمہیں صدقہ دیا ہے تو اس کا صدقہ قبول کرو (یعنی بغیر خوف کے بھی سفر میں قصر کرو)۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر حضر میں چار رکعتیں مقرر کیں اور سفر میں دو اور خوف میں ایک رکعت۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی ذوالحلیفہ میں عصر کی دو رکعتیں پڑھیں۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے مکہ کو نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو دو رکعت پڑھتے رہے یہاں تک کہ واپس لوٹے۔ میں نے پوچھا کہ مکہ میں کتنے دن قیام کیا؟ انہوں نے کہا کہ دس روز۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ہم مدینہ سے حج کے لئے (مکہ کو) نکلے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں مسافر کی نماز پڑھی اور سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے بھی اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی آٹھ برس تک (یا کہا کہ چھ برس تک) مسافر کی نماز ہی پڑھی۔ حفص (یعنی ابن عاصم) نے کہا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما منیٰ میں دو رکعتیں پڑھتے اور اپنے بچھونے پر آ جاتے تو میں نے کہا کہ اے میرے چچا! کاش آپ فرض کے بعد دو رکعت اور پڑھتے؟ (یعنی سنت) تو انہوں نے کہا کہ اگر مجھے ایسا کرنا ہوتا تو میں اپنے فرض پورے کرتا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں جلدی ہوتی تو ظہر میں اتنی دیر کرتے کہ عصر کا اول وقت آ جاتا، پھر دونوں کو جمع کرتے۔ اور مغرب میں دیر کرتے یہاں تک کہ جب شفق ڈوب جاتی تو اس کو عشاء کے ساتھ جمع کرتے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کو اور مغرب اور عشاء کو مدینہ میں بغیر خوف اور بارش کے جمع کیا۔ وکیع کی روایت میں ہے کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیوں کیا؟ انہوں نے کہا کہ تاکہ آپ کی امت کو حرج نہ ہو۔ اور ابومعاویہ کی حدیث میں ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس ارادہ سے یہ کیا تو انہوں نے کہا کہ اس ارادہ سے کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر تکلیف نہ ہو۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے نمازی سردی، آندھی اور بارش کی رات میں اذان دی اور پھر اذان کے آخر میں کہہ دیا کہ اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو۔ پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر میں سردی کی اور بارش کی رات ہو تو مؤذن کو یہ کہنے کا حکم دیتے کہ لوگوں میں پکار دے کہ اپنے خیموں میں نماز پڑھ لو۔
حفص بن عاصم نے کہا کہ میں مکہ کی راہ میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا تو انہوں نے ہمیں ظہر کی دو رکعتیں پڑھائیں پھر آئے اور ہم بھی ان کے ساتھ آئے یہاں تک کہ اپنے اترنے کی جگہ پہنچے اور بیٹھ گئے اور ہم بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔ اچانک ان کی نگاہ اس طرف پڑی جہاں نماز پڑھی تھی، تو کچھ لوگوں کو کھڑے دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا کہ سنتیں پڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے سنت پڑھنی ہوتی تو میں نماز ہی پوری پڑھتا (یعنی فرض پورے چار رکعت پڑھتا)۔ پھر کہا کہ اے بھتیجے! میں سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاحیات دو رکعت سے زیادہ نہیں پڑھیں۔ اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا تو انہوں نے بھی تاحیات دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھیں۔ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا تو انہوں نے بھی تاحیات دو سے زیادہ نہ پڑھیں۔ اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا تو انہوں نے بھی تاحیات دو سے زیادہ نہ پڑھیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اسوہ حسنہ ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر نفل پڑھا کرتے تھے خواہ اس کا منہ کسی طرف ہو (ابتداء میں سواری قبلہ رخ ہو تو مستحسن ہے)۔