سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مرض الموت میں) پردہ اٹھایا اور لوگ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے صف باندھے کھڑے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے لوگو! اب نبوت کی خوشخبری دینے والی چیزوں میں کچھ نہیں رہا (کیونکہ مجھ پر نبوت کا خاتمہ ہو گیا) مگر نیک خواب جس کو مسلمان دیکھے یا اسے دکھایا جائے اور تمہیں معلوم رہے کہ مجھے رکوع اور سجدہ میں قرآن پڑھنے سے منع کیا گیا ہے رکوع میں تو اپنے رب کی بڑائی بیان کرو اور سجدہ کے اندر دعا میں کوشش کرو، یہ زیادہ لائق اور ممکن ہے کہ تمہاری دعا قبول ہو گی۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع سے سر اٹھاتے تو فرماتے کہ ”اے ہمارے رب تمام تعریفیں تیرے ہی لئے خاص ہیں، آسمانوں بھر اور زمین بھر اور پھر جو چیز تو چاہے، اس کے بعد (اس کی بھرائی کے برابر تعریف)، تو ہی بزرگی والا اور تعریف کے لائق ہے۔ بہت سچی بات جو بندے نے کہی اور ہم سب تیرے بندے ہیں (وہ بات یہ ہے کہ) اے ہمارے اللہ! جو تو دے، اس کا کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روکے اس کا دینے والا کوئی نہیں، کوشش کرنے والے کی کوشش تیرے سامنے فائدہ نہیں دیتی (بلکہ جو تو چاہے وہی ہوتا ہے)۔
معدان بن ابی طلحہ الیعمری کہتے ہیں کہ میں ثوبان رضی اللہ عنہ مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور میں نے کہا کہ مجھے ایسا کام بتلاؤ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں لے جائے، یا یوں کہا کہ مجھے وہ کام بتاؤ جو سب کاموں سے زیادہ اللہ کو پسند ہو۔ یہ سن کر سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ چپ ہو رہے پھر میں نے ان سے پوچھا تو چپ رہے۔ پھر تیسری بار پوچھا تو کہا کہ میں نے بھی یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تو سجدے بہت کیا کر، اس واسطے کہ ہر ایک سجدہ سے اللہ تعالیٰ تیرا ایک درجہ بلند کرے گا اور تیرا ایک گناہ معاف کرے گا۔ معدان نے کہا کہ پھر میں سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے بھی یہ پوچھا تو انہوں نے بھی ایسا ہی کہا جیسا سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ نے کہا تھا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ اپنے رب سے زیادہ قریب سجدہ کی حالت میں ہوتا ہے، اس لئے سجدہ میں بہت دعا کیا کرو۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم ہوا ہے۔ پیشانی پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے ناک کی طرف اشارہ کیا اور دونوں ہاتھوں پر اور دونوں گھٹنوں پر اور دونوں قدموں کی انگلیوں پر اور کپڑے اور بال نہ سمیٹنے کا حکم ہوا ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سجدہ میں اعضاء کو برابر رکھو اور کوئی تم میں سے اپنے بازو کتے کی طرح نہ بچھائے۔
سیدنا عبداللہ بن مالک ابن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تو دونوں ہاتھوں کو (پہلوؤں سے) اتنا جدا رکھتے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دیکھ لیتا۔
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں بیٹھتے تو بائیں پاؤں کو ران اور پنڈلی کے بیچ میں کر لیتے اور داہنا پاؤں بچھاتے اور بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھتے اور داہنا ہاتھ اپنی داہنی ران پر رکھتے اور انگلی سے اشارہ کرتے۔
طاؤس کہتے ہیں کہ ہم نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ اقعاء کی بیٹھک کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ سنت ہے۔ ہم نے کہا کہ ہم تو اس بیٹھک کو آدمی پر (یا پاؤں پر) ستم سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا (نہیں) بلکہ وہ تو تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ (”اقعاء“ یہ ہے کہ دونوں پاؤں کھڑے کر کے ایڑیوں پر بیٹھنا)۔
حطان بن عبداللہ الرقاشی کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا۔ جب ہم لوگ تشہد میں بیٹھے تھے تو پیچھے سے کسی آدمی نے کہا کہ نماز نیکی اور زکوٰۃ کے ساتھ فرض کی گئی ہے۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے نماز ختم ہونے کے بعد پوچھا کہ یہ بات تم میں سے کس نے کہی ہے؟ سب لوگ خاموش ہو رہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ (تم لوگ سن رہے ہو)، بتاؤ یہ بات تم میں سے کس نے کہی ہے؟ جب سب لوگ چپ رہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا کہ اے حطان! شاید تم نے یہ کلمے کہے ہیں؟ میں نے کہا کہ نہیں، میں نے نہیں کہے، مجھے تو خوف تھا کہ کہیں آپ خفا نہ ہو جائیں۔ اتنے میں ایک شخص نے کہا کہ یہ کلمات میں نے کہے ہیں اور اس میں میری نیت صرف بھلائی اور نیکی کی تھی۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ تم لوگ نہیں جانتے کہ تم کو اپنی نماز میں کیا پڑھنا چاہئے۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دوران خطبہ تمام امور بتلائے اور نماز پڑھنا سکھائی ہے۔ وہ اس طرح کہ تم لوگ نماز پڑھنے سے پہلے صفیں سیدھی کر لو۔ پھر تم میں سے کوئی امام بنے اور جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی کہو اور جب وہ ولا الضّآلّین کہہ چکے تو تم آمین کہو تاکہ اللہ تعالیٰ تم سے خوش رہے۔ امام کی تکبیر و رکوع کے ساتھ تم بھی تکبیر کہو اور رکوع کرو، امام کی تکبیر اور رکوع کے بعد تم تکبیر و رکوع ادا کرو۔ اور امام سے پہلے تکبیر و رکوع ادا نہ کرو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تمہارا ایک لمحہ تاخیر کرنا امام کے رکوع و تکبیرات کے برابر ہی شمار کیا جاتا ہے پھر جب امام سمع اﷲ لمن حمدہ کہے تو تم اللّٰہمّ ربّنا ولک الحمد کہو اور اللہ تعالیٰ تمہاری دعاؤں کو سنتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبانی کہا ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو سنتا ہے۔ امام جب تکبیر کہے اور سجدہ کرے تو تم بھی تکبیر اور سجدہ کرو کیونکہ تم سے ایک لمحہ پہلے امام تکبیر کہتا اور سجدہ و رفع کرتا ہے اور تم ایک لمحہ بعد یہ اعمال کرو تو تم اس کے ساتھ رہو گے۔ اور امام جب تشہد میں بیٹھے تو تم میں سے ہر ایک یہ دعا پڑھے ”زبانی، بدنی اور مالی عبادتیں تمام کی تمام اللہ کے لئے ہیں۔ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت ہو اور اس کی برکتیں ہوں، ہم پر بھی سلام ہو اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی سلام ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں“( صلی اللہ علیہ وسلم )۔