سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رات کی نماز دو دو رکعت ہے۔ پھر جب خیال ہو کہ صبح ہو چلی تو ایک رکعت پڑھ لے کہ وہ (ایک رکعت) اس ساری نماز کو جو اس نے پڑھی، وتر کر دے گی۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کی نماز میں بیٹھ کر قرآت کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ پھر جب بوڑھے ہو گئے تو بیٹھے بیٹھے قرآت کرتے، یہاں تک کہ جب سورت کی تیس یا چالیس آیتیں رہ جاتیں تو کھڑے ہو کر پڑھتے، پھر رکوع کرتے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص کا ذکر کیا گیا کہ وہ صبح تک سوتا ہے (یعنی تہجد کو نہیں اٹھتا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے کان میں یا دونوں کانوں میں شیطان پیشاب کر جاتا ہے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو نماز میں اونگھ آ جائے تو چاہئے کہ سو رہے یہاں تک کہ اس کی نیند جاتی رہے۔ اس لئے کہ جب تم میں سے کوئی اونگھنے لگتا ہے تو گمان ہے کہ وہ مغفرت مانگنے کا ارادہ کرے اور اپنی جان کو گالیاں دینے لگے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ تم میں سے (جب کوئی سو جاتا ہے) تو شیطان ہر ایک کی گردن پر تین گرہیں لگاتا ہے۔ ہر گرہ پر پھونک دیتا ہے کہ ابھی رات بہت ہے۔ پھر جب کوئی جاگا اور اس نے اللہ کو یاد کیا تو ایک گرہ کھل گئی۔ اور جب وضو کیا تو دو گرہیں کھل گئیں۔ اور جب نماز پڑھی تو سب گرہیں کھل گئیں۔ پھر وہ صبح کو ہشاش بشاش خوش مزاج اٹھتا ہے اور نہیں تو گندہ دل سست ہو کر اٹھتا ہے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: رات میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ اس وقت جو مسلمان آدمی اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی بھلائی مانگے، اللہ تعالیٰ اس کو عطا کرتا ہے اور یہ (گھڑی) ہر رات میں ہوتی ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اول تہائی رات گزر جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ہر رات کو آسمان دنیا کی طرف اترتا ہے اور فرماتا: ”میں بادشاہ ہوں“”میں بادشاہ ہوں“، کون ہے جو مجھ سے دعا کرے کہ میں قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے کہ میں اسے دوں؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت مانگے کہ میں اسے بخش دوں؟ غرض کہ صبح روشن ہونے تک ایسا ہی فرماتا رہتا ہے۔
زرارہ سے روایت ہے کہ سیدنا سعد بن ہشام بن عامر نے چاہا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرے اور مدینہ کو آئے اور مدینہ میں اپنی زمین اور باغ وغیرہ فروخت کریں تاکہ اس سے ہتھیار اور گھوڑے خریدیں اور نصاریٰ سے مرتے دم تک لڑیں۔ پھر جب مدینہ آئے اور مدینہ والوں سے ملے تو انہوں نے ان کو منع کیا، (یعنی بالکل کاروبار دنیا اور ضروریات بشریٰ چھوڑ کر ایسا نہ کرنا چاہئے) اور خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں چھ آدمیوں نے اس کا ارادہ کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع کیا اور فرمایا کہ کیا تمہارے لئے میری راہ اچھی نہیں؟ پھر جب لوگوں نے ان سے یہ کہا تو انہوں نے اپنی بیوی سے جس کو طلاق دے چکے تھے، گواہوں کی موجودگی میں رجوع کر لیا۔ پھر وہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کا حال پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں تمہیں ایسا شخص نہ بتا دوں کہ جو ساری زمین کے لوگوں سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کا حال بہتر جانتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ کون ہے؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ وہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہیں، سو تم ان کے پاس جاؤ، ان سے پوچھو، اور پھر ان کے جواب سے مجھے بھی آ کر مطلع کر دینا۔ پھر میں (سعد بن ہشام) ان کے پاس سے چلا اور حکیم بن افلح کے پاس آیا اور ان سے چاہا کہ وہ مجھے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے چلیں۔ انہوں نے کہا کہ میں ان کے پاس نہیں جاتا اس لئے کہ میں نے انہیں ان دونوں گروہوں (یعنی صحابہ کی آپس کی لڑائیوں) میں بولنے سے منع کیا تھا مگر انہوں نے نہ مانا اور چلی گئیں۔ (سعد بن ہشام نے) کہا کہ میں نے حکیم کو قسم دی تو وہ تیار ہو گئے، اور ہم (دونوں) ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف چلے اور انہیں اطلاع کی تو انہوں نے اجازت دے دی اور ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تب انہوں نے کہا کہ کیا یہ حکیم ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں۔ غرض ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے انہیں پہچان لیا۔ (یعنی آواز وغیرہ سے پردہ کی آڑ سے) پھر انہوں نے فرمایا کہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ سیدنا حکیم نے کہا کہ میرے ساتھ سعد بن ہشام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہشام کون سے؟ حکیم نے کہا کہ عامر کے بیٹے۔ تب ان پر رحمت کی دعا کی اور قتادہ نے کہا کہ وہ جنگ احد میں شہید ہوئے تھے۔ پھر میں نے عرض کیا کہ اے ام المؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں بتلائیے؟ انہوں نے کہا کہ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟ میں (سعد) نے کہا کہ کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن تھا۔ انہوں نے کہا کہ پھر میں نے چلنے کا ارادہ کیا اور چاہا کہ موت کے وقت تک اب کسی چیز کے بارے میں نہ پوچھوں۔ پھر مجھے خیال آیا تو میں نے عرض کیا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رات کے وقت اٹھنے (اور نماز پڑھنے) کے بارے میں بتلائیے۔ تو ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ کیا تم نے یآایّھا المزمّل نہیں پڑھی؟ میں نے کہا کہ کیوں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے شروع میں رات کو کھڑے ہو کر (نماز) پڑھنے کو فرض کیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رات کو نماز پڑھتے رہے اور اللہ تعالیٰ نے اس سورت کا خاتمہ (آخری آیتیں) بارہ مہینے تک آسمان پر روکے رکھا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کا آخر اتارا اور اس میں تخفیف فرمائی۔ (یعنی تہجد کی فرضیت معاف کر دی اور مسنون ہونا باقی رہا) پھر رات کو نماز (تہجد) پڑھنا فرض ہونے کے بعد خوشی کا سودا ہو گیا (نفل ہو گیا)۔ پھر میں نے عرض کیا کہ اے ام المؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں بھی بتلائیے۔ تو انہوں نے کہا کہ ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مسواک اور وضو کا پانی تیار رکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کو جب چاہتا اٹھا دیتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے تھے اور وضو کرتے، پھر نو رکعت پڑھتے تھے۔ اس میں نہ بیٹھتے مگر آٹھویں رکعت میں بعد اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے اور اس کی حمد و ثناء کرتے اور دعا کرتے (یعنی تشہد پڑھتے) پھر سلام نہ پھیرتے اور کھڑے ہو جاتے اور نویں رکعت پڑھتے، پھر بیٹھتے اور اللہ کو یاد کرتے اور اس کی تعریف کرتے اور اس سے دعا کرتے اور اس طرح سلام پھیرتے کہ ہم کو سنا دیتے (تاکہ سوتے جاگ اٹھیں) پھر سلام کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعت پڑھتے، غرض یہ گیارہ رکعات ہوئیں۔ اے میرے بیٹے! پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سن (عمر مبارک) زیادہ ہو گیا اور بدن میں گوشت آ گیا تو سات رکعت وتر پڑھنے لگے اور رکعتیں ویسی ہی پڑھتے جیسی پہلے پڑھتے تھے۔ غرض یہ سب نو رکعتیں ہوئیں۔ اے میرے بیٹے (یعنی سات وتر اور تہجد اور دو رکعت وتر کے بعد) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب کوئی نماز پڑھتے تو اس پر ہمیشگی کرتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نیند یا کسی درد کا غلبہ ہوتا جس کی وجہ سے رات کو نہ اٹھ سکتے تو دن کو بارہ رکعات ادا کرتے (یعنی وتر نہ پڑھتے اس سے ثابت ہوا کہ وتر کی قضاء نہیں) اور میں نہیں جانتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی سارا قرآن ایک رات میں پڑھ لیا ہو (اس سے ایک شب میں قرآن ختم کرنا بدعت ثابت ہوا) نہ یہ جانتی ہوں کہ ساری رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح تک نماز پڑھی (یعنی ذرا بھی نہ سوئے نہ آرام لیا ہو) اور نہ یہ کہ رمضان کے سوا (کوئی اور) سارا مہینہ روزہ رکھا ہو۔ پھر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس گیا اور ان سے یہ ساری حدیث بیان کی تو انہوں نے کہا کہ بیشک ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے سچ فرمایا۔ اور کہا کہ اگر میں ان کے پاس ہوتا یا ان کے پاس جاتا تو یہ حدیث بالمشافہ سنتا۔ سعد نے کہا کہ اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ آپ ان کے پاس نہیں جاتے تو میں کبھی ان کی بات آپ سے نہ کہتا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر اول رات میں اور درمیان میں اور آخر رات میں سب وقتوں میں ادا کئے ہیں، یہاں تک کہ فجر کے وقت تک۔
سیدنا انس بن سیرین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ مجھے صبح کی نماز سے پہلے کی دو رکعتوں کے بارے میں بتلائیے، کیا میں ان میں طویل قرآت کروں؟ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو دو دو رکعت پڑھا کرتے تھے اور وتر ایک رکعت پڑھتے تھے۔ (ابن سیرین) کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں یہ نہیں پوچھتا۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم موٹے آدمی ہو (یعنی موٹی عقل والے ہو کہ بات کے درمیان ہی میں بول اٹھے) کیا تم مجھے (پوری) حدیث بیان کرنے کی فرصت نہیں دیتے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو دو دو رکعت پڑھتے تھے، اور ایک وتر ادا کرتے تھے اور دو رکعت صبح کی فرض نماز سے پہلے ایسے وقت پڑھتے کہ تکبیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کان میں ہوتی (یعنی تکبیر کے وقت پڑھتے اور ظاہر ہے کہ اس وقت جو نماز ہو گی نہایت خفیف ہو گی)۔