سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں قبلے کی طرف تھوک دیکھا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ تمہارا کیا حال ہے کہ تم میں سے کوئی اپنے پروردگار کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوتا ہے، پھر اپنے سامنے تھوکتا ہے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ کوئی اس کی طرف منہ کرے اور پھر اس کے سامنے تھوک دے؟ جب تم میں سے کسی کو تھو آئے تو بائیں طرف قدم کے نیچے تھوکے اگر جگہ نہ ہو تو ایسا کرے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عمل کر کے دکھایا)۔ قاسم نے (جو کہ اس حدیث کا راوی ہے) یوں بیان کیا کہ اپنے کپڑے میں تھوکا پھر اسی کپڑے کو مل ڈالا۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو نماز میں جمائی آئے تو جہاں تک ہو سکے اس کو روکے۔ اس لئے کہ شیطان (دل میں وسوسہ ڈالنے اور نماز کو بھلانے کے لئے) اندر گھستا ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ (جمائی لیتے وقت) اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھے۔ اس لئے کہ شیطان (مکھی یا کیڑے وغیرہ کی شکل میں بعض اوقات) اندر گھس جاتا ہے (یا درحقیقت شیطان گھستا ہے اور یہی صحیح ہے)۔
سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی امامت کرتے ہوئے دیکھا اور امامہ بنت ابوالعاص رضی اللہ عنہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی آپ کے کندھے پر تھیں (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی بیٹی تھیں)، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرتے تو ان کو بٹھا دیتے اور جب سجدہ سے کھڑے ہوتے تو پھر ان کو کندھے پر بٹھا لیتے۔
سیدنا معیقب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کی جگہ پر موجود کنکریوں کو برابر کرنے کے بارے میں فرمایا کہ اگر ضرورت پڑے تو ایک بار کرے۔
سیدنا عبداللہ بن الشیخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوکا، پھر زمین پر اپنی جوتے سے مسل ڈالا۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا عبداللہ بن حارث کو دیکھا کہ وہ جوڑا باندھے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے تو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ان کے جوڑے کھولنے لگے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا کہ تم نے میرا سر کیوں چھوا؟ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جو شخص بالوں کا جوڑا باندھ کر نماز پڑھے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی ستر کھول کر نماز پڑھے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب نماز قریب آئے اور کھانا بھی سامنے آ جائے تو مغرب کی نماز سے پہلے کھانا کھا لو اور کھانا چھوڑ کر نماز کی طرف جلدی نہ کرو (اس لئے کہ کھانے کی طرف دل لگا رہے گا اور اس کے علاوہ اور بھی حکمتیں ہیں)۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی اپنی نماز میں شک کرے (کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں) اور معلوم نہ ہو سکے کہ تین پڑھی ہیں یا چار تو شک کو دور کرے اور جس قدر کا یقین ہو، اس کو قائم کرے۔ پھر سلام سے پہلے دو سجدے کر لے اب اگر اس نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں تو یہ دو سجدے مل کر چھ رکعتیں ہو جائیں گی اور اگر پوری چار پڑھی ہیں تو ان دونوں سجدوں سے شیطان کے منہ میں خاک پڑ جائے گی۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی اور دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا۔ پھر ایک لکڑی کے پاس آئے جو مسجد میں قبلہ کی طرف لگی ہوئی تھی اور اس پر ٹیک لگا کر غصہ میں کھڑے ہو گئے اس وقت جماعت میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ وہ دونوں ڈر کی وجہ سے بات نہ کر سکے اور جلدی والے لوگ یہ کہتے ہوئے نکلے کہ نماز کم ہو گئی۔ پھر ایک شخص جس کو ذوالیدین (دو ہاتھ والا، اگرچہ سب کے دو ہاتھ ہوتے ہیں لیکن اس کے ہاتھ لمبے تھے اس لئے یہ نام ہو گیا) کہتے تھے، کھڑا ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ! کیا نماز گھٹ (کم) گئی یا آپ بھول گئے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر دائیں اور بائیں دیکھا اور فرمایا کہ ذوالیدین کیا کہتا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ سچ کہتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ہی رکعتیں پڑھی ہیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں اور پڑھیں اور سلام پھیرا پھر تکبیر کہی اور سجدہ کیا، پھر تکبیر کہی اور سر اٹھایا، پھر تکبیر کہی اور سجدہ کیا پھر تکبیر کہی اور سر اٹھایا۔ (محمد بن سیرین) نے کہا کہ مجھے عمران بن حصین نے یہ بیان کیا اور کہا کہ اور (آخر میں) سلام پھیرا۔