سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ زمین پر سب سے پہلی مسجد کون سی بنائی گئی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسجدالحرام (یعنی خانہ کعبہ)۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کون سی؟ (مسجد بنائی گئی تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسجدالاقصیٰ (یعنی بیت المقدس)۔ میں نے پھر عرض کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چالیس برس کا اور تو جہاں بھی نماز کا وقت پالے، وہیں نماز ادا کر لے پس وہ مسجد ہی ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو شہر کے بلند حصہ میں ایک محلہ میں اترے، جس کو بنی عمرو بن عوف کا محلہ کہتے ہیں وہاں چودہ دن رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نجار کے لوگوں کو بلایا تو وہ اپنی تلواریں لٹکائے ہوئے آئے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ گویا میں اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر تھے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے اور بنو نجار کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ کے مکان کے صحن میں اترے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جہاں نماز کا وقت آ جاتا، وہاں نماز پڑھ لیتے اور بکریوں کے رہنے کی جگہ میں بھی نماز پڑھ لیتے۔ (کیونکہ بکریاں غریب ہوتی ہیں ان سے اندیشہ نہیں ہے کہ وہ ستائیں) اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد بنانے کا حکم کیا اور بنو نجار کے لوگوں کو بلایا۔ وہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم اپنا باغ میرے ہاتھ بیچ ڈالو۔ انہوں نے کہا اللہ کی قسم ہم تو اس باغ کی قیمت نہ لیں گے ہم اللہ ہی سے اس کا بدلہ چاہتے ہیں (یعنی آخرت کا ثواب چاہتے ہیں ہمیں روپیہ درکار نہیں)۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس باغ میں جو چیزیں تھیں، ان کو میں کہتا ہوں، اس میں کھجور کے درخت تھے اور مشرکوں کی قبریں تھیں اور کھنڈر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم کیا تو درخت کاٹے گئے اور مشرکوں کی قبریں کھود کر پھینک دی گئیں اور کھنڈر برابر کئے گئے اور درختوں کی لکڑی قبلہ کی طرف رکھ دی گئی اور دروازہ کے دونوں طرف پتھر لگائے گئے۔ جب یہ کام شروع ہوا تو صحابہ رجز پڑھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ تھے وہ لوگ یہ کہتے تھے کہ اے اللہ! بہتری اور بھلائی تو آخرت کی بہتری اور بھلائی ہے تو انصار اور مہاجرین کی مدد فرما۔
ابوسلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ سیدنا عبدالرحمن بن ابی سعید رضی اللہ عنہ گزرے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ نے اپنے والد کو کیسے سنا کہ وہ بیان کرتے تھے کہ وہ کون سی مسجد ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میرے والد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں، آپ کی بیویوں میں سے کسی ایک کے گھر میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ مسجد کون سی ہے جس کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تقویٰ پر بنائی گئی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مٹھی کنکر لے کر زمین پر مارے اور فرمایا کہ وہ یہی تمہاری مسجد ہے یعنی مدینہ کی مسجد۔ (ابوسلمہ بن عبدالرحمن راوی حدیث کہتے ہیں) میں نے کہا کہ میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے بھی تمہارے والد سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ وہ اس مسجد کا ایسا ہی ذکر کیا کرتے تھے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت بیمار ہو گئی تو اس نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے شفاء دی تو میں بیت المقدس میں جا کر نماز پڑھوں گی۔ پھر وہ اچھی ہو گئی تو اس نے جانے کی تیاری کی اور ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس حاضر ہو کر ان کو سلام کیا اور اپنے ارادہ کی خبر دی تو انہوں نے فرمایا کہ تم نے جو زادراہ تیار کیا ہے وہ کھاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں نماز پڑھو، اس لئے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اس مسجد میں ایک نماز ادا کرنا اور مسجدوں میں ہزار نمازیں ادا کرنے سے افضل ہے سوائے مسجدالحرام کے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد قباء کی طرف سوار اور پیدل تشریف لے جاتے تھے اور اس میں دو رکعت نماز ادا کرتے تھے۔
سیدنا محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے مسجد بنانے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے اس بات کو برا سمجھا اور یہ چاہا کہ مسجد کو اپنے حال پر چھوڑ دیں (یعنی جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھی) تو عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ جو شخص اللہ کے لئے مسجد بنائے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک گھر ویسا ہی بنائے گا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شہروں میں سب سے پیاری جگہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسجدیں ہیں اور سب سے بری جگہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بازار ہیں۔
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص تھے کہ ان کا گھر مدینہ کے سب گھروں سے مسجد سے دور تھا اور ان کی کوئی جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانے نہ پاتی تھی (یعنی ہر نماز میں پہنچتے تھے) تو مجھے ان پر ترس آیا اور میں نے ان سے کہا کہ کاش تم ایک گدھا خرید لو کہ تمہیں گرمی سے اور راہ کے کیڑے مکوڑوں سے بچائے تو انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں نہیں چاہتا کہ میرا گھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے متصل ہو۔ مجھ پر اس کی یہ بات گراں گزری تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلایا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی وہی کہا جو مجھ سے کہا تھا اور کہا کہ میں اپنے قدموں کا اجر چاہتا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیشک تم کو اجر ہے جس کے تم امیدوار ہو۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی اپنے گھر میں وضو کرے، پھر اللہ کے کسی گھر میں جائے کہ اللہ کے فرضوں میں سے کسی فرض کو ادا کرے، تو اس کے قدم ایسے ہوں گے کہ ایک سے تو برائی گرے گی اور دوسرے سے درجہ بلند ہو گا۔
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے قدموں کی آواز سنی تو فرمایا (یعنی نماز کے بعد) تمہارا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے نماز کے لئے جلدی کی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو۔ جب تم نماز کے لئے آؤ تو آرام سے آؤ پھر جو ملے (امام کے ساتھ) پڑھ لو اور جو تم سے آگے ہو چکی اسے پوری کر لو۔