ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد کی دو رکعتیں کبھی نہیں چھوڑیں۔ راوی کہتا ہے کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خاص کر اپنی نمازوں کو طلوع اور غروب آفتاب کے وقت پڑھنے کی عادت مت کرو کہ ہمیشہ اسی وقت ادا کیا کرو۔ (یعنی فجر اور عصر تاخیر سے نہیں بلکہ اول وقت میں پڑھو)۔
سیدنا خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (جھلسا دینے والی) سخت گرمی کی، شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہ فرمائی۔ زہیر نے کہا کہ میں نے ابواسحاق سے پوچھا کہ ظہر کی نماز کی شکایت کی تھی؟ انہوں نے کہا ہاں میں نے کہا کہ اول وقت نماز ادا کرنے کی؟ انہوں نے کہا ہاں۔ (یعنی کچھ تاخیر کرنے کا مطالبہ کیا تھا جو کہ ابتداء میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہ فرمایا اور بعد میں اس کی اجازت دے دی، جیسے اگلی حدیث میں ہے)۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن نے ظہر کی اذان کہنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ذرا ٹھنڈا ہونے دو، ذرا ٹھنڈا ہونے دو یا فرمایا کہ ذرا انتظار کرو ذرا انتظار کرو۔ اور فرمایا کہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے ہے۔ پھر جب گرمی شدت کی ہو تو نماز کو ٹھنڈے وقت ادا کرو۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہاں تک انتظار کیا کہ ہم نے ٹیلوں کے سائے دیکھ لئے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز پڑھتے تھے اور سورج بلند ہوتا تھا اور اس میں گرمی ہوتی تھی۔ اور جانے والا اونچے کناروں تک جاتا تھا اور وہاں پہنچ جاتا تھا اور آفتاب (ابھی) بلند رہتا تھا۔
علاء بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ وہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے ہاں بصرہ والے گھر ظہر پڑھ کر گئے اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا گھر مسجد کے پاس تھا۔ پھر جب ہم ان کے یہاں گئے تو انہوں نے کہا کہ تم عصر پڑھ چکے؟ ہم نے کہا کہ ہم تو ابھی ظہر پڑھ کر آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عصر پڑھ لو۔ پھر ہم نے عصر پڑھی۔ جب عصر پڑھ چکے تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ یہ نماز منافق کی ہے کہ بیٹھا سورج کو دیکھتا ہے، پھر جب وہ شیطان کے دونوں سینگوں میں ہو جاتا ہے تو اٹھ کر چار ٹھونگیں مارتا ہے اور اس میں اللہ کو یاد نہیں کرتا مگر تھوڑا۔
سیدنا ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ عصر کی نماز (مقام) مخمص میں پڑھی اور فرمایا کہ یہ نماز تم سے پہلوں کے سامنے پیش کی گئی اور انہوں نے اس کو ضائع کیا۔ پھر جو اس کی حفاظت کرے، اس کو دوگنا ثواب ہو گا اور اس کے بعد کوئی نماز نہیں جب تک کہ شاہد نہ نکلے۔ اور شاہد سے مراد ستارہ ہے (کہ ستارہ نکل آئے)۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کی عصر کی نماز فوت ہو جائے، گویا اس کا اہل اور مال ہلاک ہو گیا۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز عصر سے مشرکوں نے روک دیا، یہاں تک کہ سورج سرخ یا زرد ہو گیا پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر، نماز وسطیٰ سے روک دیا ہے، اللہ ان کے پیٹوں اور قبروں کو آگ سے بھر دے۔ (یا کہا: حشا اﷲ اجوافہم و قبورھم ناراً)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک اور صبح کی نماز کے بعد سورج طلوع ہونے تک (نفل) نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
علیٰ بن رباح کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تین اوقات میں نماز سے اور مردوں کو دفن کرنے سے روکتے تھے۔ ایک تو جب سورج طلوع ہو رہا ہو، یہاں تک کہ بلند ہو جائے، دوسرے جس وقت ٹھیک دوپہر ہو، جب تک کہ زوال نہ ہو جائے اور تیسرے جس وقت سورج ڈوبنے لگے، جب تک پورا ڈوب نہ جائے۔