سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فطرت پانچ ہیں یا پانچ چیزیں فطرت سے ہیں۔ 1۔ ختنہ کرنا۔ 2۔ زیر ناف بال مونڈنا۔ 3۔ ناخن کاٹنا۔ 4۔ بغل کے بال اکھیڑنا۔ 5۔ مونچھیں کترانا (کترنا)۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دس باتیں پیدائشی سنت ہیں۔ 1: مونچھیں کترنا۔ 2: داڑھی چھوڑ دینا۔ 3: مسواک کرنا۔ 4: ناک میں پانی ڈالنا۔ 5: ناخن کاٹنا۔ 6: پوروں کا دھونا (کانوں کے اندر اور ناک اور بغل اور رانوں کا دھونا) 7: بغل کے بال اکھیڑنا۔ 8: زیر ناف بال لینا۔ 9: پانی سے استنجاء کرنا (یا شرمگاہ پر وضو کے بعد تھوڑا سا پانی چھڑک لینا)۔ مصعب نے کہا کہ میں دسویں بات بھول گیا۔ شاید کلی کرنا ہو۔ وکیع رحمہ اللہ نے کہا: انتقاص المآء (جو حدیث میں وارد ہے) اس سے استنجاء مراد ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے اپنے آپ کو خواب میں مسواک کرتے دیکھا۔ پھر وہ مسواک مجھ سے دو آدمیوں نے مانگا، ان دونوں میں سے ایک بڑا تھا۔ میں نے مسواک چھوٹے کو دے دی، تو مجھے حکم ہوا کہ بڑے کو دیں، تو میں نے بڑے کو دے دی۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تمام اقوال و افعال میں) مشرکوں کے خلاف (کرو) مونچھوں کو کترواؤ اور داڑھیوں کو پورا رکھو (یعنی داڑھیوں کو چھوڑ دو اور ان میں کانٹ چھانٹ نہ کرو)۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے لئے مونچھ کترنے، ناخن کاٹنے، بغل کے بال نوچنے اور زیر ناف بال مونڈنے کی میعاد مقرر ہوئی کہ ان کو چالیس دن سے زیادہ تک نہ چھوڑیں۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک اعرابی آیا اور کھڑے ہو کر پیشاب کرنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے اسے ایسا نہ کرنے کے لئے آواز لگائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا پیشاب مت روکو، اس کو چھوڑ دو۔ لوگوں نے چھوڑ دیا، یہاں تک کہ وہ پیشاب کر چکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور فرمایا کہ مسجدیں پیشاب اور نجاست کے لائق نہیں ہیں۔ یہ تو اللہ کی یاد کے لئے اور نماز اور قرآن پڑھنے کے لئے بنائی گئی ہیں یا ایسا ہی کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ پھر ایک شخص کو حکم کیا، وہ ایک ڈول پانی کا لایا اور اس پر بہا دیا۔
ام قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے ایک بچے کو لے کر آئیں جو کھانا نہیں کھاتا تھا۔ عبیداللہ (راوی حدیث) نے کہا کہ ام قیس رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ اس بچے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پیشاب کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم نے پانی منگوایا اور کپڑے پر چھڑک لیا اور اس کو دھویا نہیں۔
سیدنا عبداللہ بن شہاب خولانی بیان کرتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ہاں مہمان ٹھہرا۔ مجھے اپنے کپڑوں میں احتلام ہو گیا، تو میں نے ان کو پانی میں ڈبو دیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کی لونڈی نے مجھے دیکھ لیا، تو اس نے انہیں جا کر بتایا۔ ام المؤمنین نے میری طرف پیغام بھیجا کہ تم نے ایسا کیوں کیا ہے؟ میں نے کہا کہ خواب میں میں نے وہ دیکھا ہے جو سونے والا دیکھتا ہے (یعنی احتلام)۔ ام المؤمنین نے کہا کہ کپڑوں میں تم نے (منی کا) کچھ اثر دیکھا؟ میں نے کہا نہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر کپڑوں میں تو کچھ دیکھتا تو بھی اس کا دھونا ہی کافی تھا۔ میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے خشک منی کو اپنے ناخنوں سے کھرچ دیا کرتی تھی۔
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے پوچھا کہ ہم میں سے کسی کے کپڑے میں حیض کا خون لگ جائے تو وہ کیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلے اس کو کھرچ ڈالے، پھر پانی ڈال کر مل کر دھو ڈالے اور پھر اسی کپڑے میں نماز پڑھ لے۔