سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کسی مومن پر ایک نیکی کیلئے بھی ظلم نہ کرے گا۔ اس کا بدلہ دنیا میں دے گا اور آخرت میں بھی دے گا اور کافر کو اس کی نیکیوں کا بدلہ دنیا میں دیا جاتا ہے یہاں تک کہ جب آخرت ہو گی تو اس کے پاس کوئی نیکی نہ رہے گی جس کا کہ اسے بدلہ دیا جائے۔
سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نجد والوں (نجد عرب میں ایک علاقہ ہے) میں سے ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور اس کی آواز کی گنگناہٹ سنی جاتی تھی لیکن سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کہتا ہے یہاں تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک آیا، تب معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے بارے میں پوچھتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ وہ بولا کہ ان کے سوا میرے اوپر کوئی اور نماز (فرض) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں مگر یہ کہ تو نفل پڑھنا چاہے اور رمضان کے روزے ہیں۔ وہ بولا کہ مجھ پر رمضان کے سوا اور کوئی روزہ (فرض) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں مگر یہ کہ تو نفل روزہ رکھنا چاہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زکوٰۃ کا بیان کیا تو وہ بولا کہ مجھ پر اس کے سوا اور کوئی زکوٰۃ (فرض) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں مگر یہ کہ تو نفل ثواب کیلئے صدقہ دینا چاہے۔ راوی نے کہا کہ پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا اور کہتا جاتا تھا کہ اللہ کی قسم میں نہ ان سے زیادہ کروں گا اور نہ ان میں کمی کروں کا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ اپنے اس (بات کے) کہنے میں سچا ہے تو بیشک یہ کامیاب ہو گیا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم اس کے باپ کی کہ اگر یہ سچا ہے تو اس نے نجات پائی یا (یہ فرمایا کہ) اس کے باپ کی قسم! اگر یہ (اپنی بات کے کہنے میں) سچا ہے تو یہ جنت میں داخل ہو گا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے ہے (یہ تشبیہ ہے کہ اسلام کو ایک گھر کی مانند سمجھو یا ایک چھت کی مانند کہ جس میں پانچ ستون ہوں) اللہ جل جلالہ کی توحید (وحدانیت کی گواہی دینا) نماز کو قائم کرنا، زکوٰۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا اور حج کرنا۔ ایک شخص بولا کہ حج اور رمضان کے روزے رکھنا (یعنی حج کو پہلے کیا اور روزوں کو بعد) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا رمضان کے روزے اور حج۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یوں ہی سنا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کہ تو (بھوکے شخص اور مہمان کو) کھانا کھلائے اور ہر شخص کو سلام کرے خواہ تو اس کو پہنچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو۔
عبدالرحمن بن شماسہ المہری کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور وہ اس وقت قریب المرگ تھے تو وہ (سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ) بہت دیر تک روئے اور اپنا منہ دیوار کی طرف پھیر لیا تو ان کے بیٹے کہنے لگے کہ اے ہمارے والد! آپ کیوں روتے ہیں؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو یہ خوشخبری نہیں دی، یہ خوشخبری نہیں دی؟ تب انہوں نے اپنا منہ سامنے کیا اور کہا کہ سب باتوں میں افضل ہم اس بات کی گواہی دینے کو سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بھیجے ہوئے ہیں اور میرے اوپر تین حال گزرے ہیں۔ ایک حال یہ تھا کہ جو میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ میں کسی کو برا نہیں جانتا تھا اور مجھے آرزو تھی کہ کسی طرح میں قابو پاؤں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (معاذاللہ) قتل کر دوں پھر اگر میں اسی حال میں مر جاتا تو جہنمی ہوتا۔ دوسرا حال یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈالی اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے کہا کہ اپنا داہنا ہاتھ بڑھائیے تاکہ میں آپ سے (اسلام پر) بیعت کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو میں نے اس وقت اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمرو! تجھے کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ میں ایک شرط کرنا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون سی شرط؟ میں نے کہا کہ یہ شرط کہ میرے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے (جو میں نے اب تک کئے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمرو! تو نہیں جانتا ہے اسلام پہلے تمام گناہوں کو گرا دیتا ہے اور اسی طرح ہجرت پہلے گناہوں کو گرا دیتی ہے۔ اسی طرح حج تمام پیشتر گناہوں کو گرا دیتا ہے۔ پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی سے محبت نہ تھی اور نہ میری نگاہ میں آپ سے زیادہ کسی کی شان تھی اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جلال کی وجہ سے آپ کو آنکھ بھر کر نہ دیکھ سکتا تھا۔ اور اگر کوئی مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت کے بارے میں پوچھے تو میں بیان نہیں کر سکتا کیونکہ میں آنکھ بھر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھ سکتا تھا اور اگر میں اس حال میں مر جاتا تو امید تھی کہ جنتی ہوتا اس کے بعد چند اور چیزوں میں ہمیں پھنسنا پڑا۔ میں نہیں جانتا کہ ان کی وجہ سے میرا کیا حال ہو گا۔ تو جب میں مر جاؤں تو میرے جنازے کے ساتھ کوئی رونے چلانے والی نہ ہو اور نہ آگ ہو اور جب مجھے دفن کرنا تو مجھ پر اچھی طرح مٹی ڈال دینا اور میری قبر کے اردگرد اتنی دیر تک کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ کاٹا جاتا ہے اور اس کا گوشت بانٹا جاتا ہے تاکہ تم سے میرا دل بہلے (اور میں تنہائی میں گھبرا نہ جاؤں) اور دیکھ لوں کہ میں پروردگار کے وکیلوں (فرشتوں) کو کیا جواب دیتا ہوں۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان کو گالی دینا (یا اس کا عیب بیان کرنا) فسق ہے (یعنی گناہ ہے اور ایسا کرنے والا فاسق ہو جاتا ہے) اور اس سے لڑنا کفر ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا ہم سے ان کاموں کی بھی پوچھ گچھ ہو گی جو ہم نے جاہلیت کے زمانے میں کئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جو اچھی طرح اسلام لایا (یعنی دل سے سچا مسلمان ہوا) اس سے تو جاہلیت کے کاموں کا مؤاخذہ نہ گا اور جو برا ہے (یعنی صرف ظاہر میں مسلمان ہوا اور اس کے دل میں کفر رہا) تو اس سے جاہلیت اور اسلام کے کاموں، دونوں کے بارے میں مؤاخذہ ہو گا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا کہ جب میرا بندہ دل میں نیک کام کرنے کی نیت کرتا ہے تو میں اس کیلئے ایک نیکی لکھ لیتا ہوں، جب تک کہ اس نے وہ نیکی نہیں کی۔ پھر اگر وہ نیکی کی تو اس کو میں اس کیلئے دس نیکیاں (ایک کے بدلے) لکھتا ہوں اور جب دل میں برائی کرنے کی نیت کرتا ہے تو میں اس کو بخش دیتا ہوں جب تک کہ وہ برائی (پر عمل) نہ کرے۔ اور پھر جب وہ برائی (پر عمل) کرے تو اس کیلئے ایک ہی برائی لکھتا ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے کہتے ہیں کہ اے پروردگار یہ تیرا بندہ ہے، برائی کرنا چاہتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ ان سے زیادہ اپنے بندے کو دیکھ رہا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھتے رہو! اگر وہ برائی کرے تو ایک برائی ویسی ہی لکھ لو اور اگر نہ کرے (اور اس برائی کے ارادے سے باز رہے) تو اس کیلئے ایک نیکی لکھ لو کیونکہ اس نے میرے ڈر سے اس برائی کو چھوڑ دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کا اسلام بہتر ہوتا ہے (یعنی خالص اور سچا، نفاق سے خالی) تو پھر وہ جو نیکی کرتا ہے اس کیلئے ایک کے بدلے دس نیکیاں سات سو گنا تک لکھی جاتی ہیں اور جو برائی کرتا ہے تو اس کیلئے ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مل جاتا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ نے میری امت سے (گناہ کے) ان خیالات سے درگزر کیا جو دل میں آئیں جب تک کہ ان کو زبان سے نہ نکالیں یا ان پر عمل نہ کریں۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا مسلمان بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ مسلمان جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان بچے رہیں (یعنی نہ زبان سے کسی مسلمان کی برائی کرے اور نہ ہاتھ سے کسی کو ایذا دے)۔