سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے (1) صحت و تندرستی (2) فارغ البالی (یعنی کام کاج سے فراغت اور فرصت کے لمحات)۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کندھے پکڑ کر فرمایا: ”دنیا اس طرح بسر کرو جیسے کوئی پردیسی ہو یا راہ چلتا مسافر۔“ اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ جب صبح ہو تو شام کے منتظر مت رہو اور شام ہو تو صبح کے منتظر نہ ہو (اور جو نیک کام کرنا ہے وہ کر لو۔ شاید صبح آئی ہے تو شام نہ آئے) اور اپنی صحت میں بیماری کا سامان تیار کر لے اور زندگی میں موت کا کچھ سامان تیار کر لے۔“
سیدنا عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مربع شکل بنائی اور اس میں ایک خط اس شکل سے باہر نکلتا ہوا کھینچا اور اس خط پر دونوں طرف سے چھوٹے چھوٹے خط بنائے اور فرمایا: ”(مربع کے اندر) آدمی ہے اور مربع اس کی موت ہے جو چاروں طرف سے انسان کو گھیرے ہوئے ہے اور لمبا خط جو مربع سے باہر نکل گیا ہے، یہ انسان کی آرزو (امید) ہے اور یہ چھوٹے خطوط آفات اور عوارض (بیماریاں) ہیں، اگر ایک آفت سے بچ گیا تو دوسری میں پھنس گیا اور اگر اس آفت سے بھی بچ گیا تو تیسری میں مبتلا ہو گیا۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند خطوط (مثل شکل حدیث اول) کھینچے اور فرمایا: ”یہ (دائرہ سے نکلتا ہوا خط انسان کی) آرزو کی مثال ہے، وہ اسی آرزو میں سرگرداں رہتا ہے کہ موت آ جاتی ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کو اللہ نے لمبی عمر عطا کی حتیٰ کہ ساٹھ برس کو پہنچ گیا، پھر اللہ اس کے عذر کو قبول نہیں کرتا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بوڑھے شخص کا دل دو چیزوں (کی خواہش) سے جوان ہوتا ہے (1) حب دنیا (2) اور درازی عمر۔“
سیدنا عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ایسا ہو گا کہ اس نے خالصتاً اللہ کے لیے ”لا الہٰ الا اللہ“ کہا ہو تو قیامت کے دن اس پر دوزخ کی آگ حرام ہو گی۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”جس مومن بندے کی محبوب چیز میں نے دنیا سے اٹھا لی (جیسے بیٹا، بھائی وغیرہ) اور اس نے اس پر صبر کیا تو اس کی جزا میرے یہاں جنت کے سوا اور کچھ نہیں (یعنی اس کو جنت ملے گی)۔“
سیدنا مرداس اسلمی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے پہلے صالح لوگ فوت ہو جائیں گے، ان کے بعد جو ان سے کم نیک ہیں، یہاں تک کہ ”جو“ کے بھوسے یا کھجور کے کچرے کی طرح کچھ لوگ رہ جائیں گے جن کی اللہ کو کچھ پروا نہیں ہے۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: ”اگر بنی آدم کو دو اور وادیاں مال و دولت سے بھری ہوئی بھی مل جائیں تو یہ تیسری کی تلاش (حرص) میں رہے گا اور اولاد آدم کا پیٹ تو مٹی ہی بھرتی ہے اور جو اللہ کی طرف جھکتا ہے تو اللہ بھی اس پر مہربان ہوتا ہے۔“