سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور دریافت کیا کہ میری بھلائی اور حسن معاملہ کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیری ماں“۔ اس نے پھر پوچھا کہ اس کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر بھی تیری ماں“۔ اس نے چوتھی مرتبہ پوچھا کہ اس کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تیرا باپ۔“
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے بڑا کبیرہ گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ کو گالی دے۔“ لوگوں نے عرض کی کہ بھلا اپنے ماں باپ کو گالی کون دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس طرح کہ کوئی شخص کسی کے باپ کو گالی دے اور وہ شخص (جس کو گالی دی گئی ہو جواب میں) اس (گالی دینے والے) کے باپ کو گالی دے .... اور یہ کسی کی ماں کو گالی دے اور وہ اس کے بدلے میں اس کی ماں کو گالی دے۔“
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”رحم کا قطع کرنے والا (یعنی رشتے ناتے توڑنے والا) جنت میں داخل نہ ہو گا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رحم رحمن سے مشتق ہے (یعنی رحم رشتہ اللہ رحمن سے جڑا اور ملا ہوا ہے) اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے (رحم رشتہ سے) فرمایا ”جو تجھ کو ملائے گا میں اس کو ملاؤں گا اور جو تجھ کو توڑے گا میں اس کو توڑوں گا۔“
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بآواز بلند سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”فلاں شخص کی اولاد میرے دوستوں میں سے نہیں ہے اور میرا دوست تو اللہ اور مومن صالح لوگ ہیں۔ لیکن ان (لوگوں) کے ساتھ رشتہ داری ہے۔ اگر وہ تر رکھیں گے تو میں بھی تر رکھوں گا، وہ ناتا جوڑیں گے تو میں بھی جوڑوں گا۔“
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جو صرف بدلہ چکائے (یعنی احسان کے بدلے احسان کر دے) بلکہ صلہ رحمی کرنے والا (رشتہ ناتا جوڑنے والا) وہ ہے جو اپنے ٹوٹے ہوئے رشتہ کو جوڑے۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ایک گنوار، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ آپ تو بچوں کو بوسہ دیتے ہیں اور ہم نہیں دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں کیا کروں جب اللہ تعالیٰ نے تیرے دل میں رحمت ہی نہیں ڈالی (تو اب میں کس طرح ڈال سکتا ہوں؟)۔“
امیرالمؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے چند قیدی حاضر کیے گئے، ان میں ایک عورت (بھی) تھی اس کی چھاتیاں دودھ سے بھری ہوئی تھیں، دودھ ٹپکتا تھا اور جہاں بچہ اس کے پاس آتا اس کو پیٹ سے لگا کر دودھ پلا دیتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: ”کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال سکتی ہے؟“ ہم نے کہا کہ ہرگز نہیں جب تک اسے قدرت ہو گی وہ اپنے بچے کو آگ میں نہ ڈالے گی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس عورت سے بھی زیادہ اپنے بندوں پر مہربان ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: ”اللہ تعالیٰ نے رحمت کے سو حصے کیے، ننانوے حصے اپنے پاس رکھے اور ایک حصہ زمین پر اتارا اور اسی ایک حصہ کی وجہ سے تمام مخلوقات ایک دوسرے پر رحم کرتی ہیں۔ حتیٰ کہ گھوڑی بھی اپنے بچے کے اوپر سے پاؤں اٹھا لیتی ہے کہ کہیں اس کو تکلیف نہ ہو۔“
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا(جب میں بچہ تھا تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو پکڑ کر ایک ران پر بٹھاتے اور دوسری پر حسن رضی اللہ عنہ کو۔ پھر دونوں کو (اپنے ساتھ) چمٹا لیتے اور یہ دعا فرماتے: ”اے اللہ! تو ان پر رحم و کرم فرما کیونکہ میں بھی ان پر مہربانی کرتا ہوں۔“