1. اللہ تعالیٰ کا قول ”(اے محمد!) آپ (ان بیویوں) میں سے جسے چاہیں (اور جب تک چاہیں) دور رکھیں اور جسے چاہیں (اور جب تک چاہیں) اپنے پاس رکھیں“ (سورۃ الاحزاب: 51)۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں ان عورتوں پر جو اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کر دیتی تھیں، غیرت کرتی تھی اور میں کہتی کہ یہ کون سی بات ہے کہ عورت اپنے تیئں ہبہ کر دے؟ پھر جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ”آپ کو یہ اختیار ہے کہ آپ اپنی ان (بیویوں) میں سے جسے چاہیں (اور جب تک چاہیں) دور رکھیں اور جسے چاہیں اپنے پاس رکھیں اور اگر آپ ان میں سے بھی کسی کو اپنے پاس بلائیں جنہیں آپ نے الگ کر رکھا تھا تو بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں“ تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں دیکھتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ، آپ کی خواہش کے مطابق ہی حکم دیتا ہے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس آیت ”آپ کو یہ اختیار ہے کہ آپ اپنی ان (بیویوں) میں سے جسے چاہیں (اور جب تک چاہیں) دور رکھیں اور جسے چاہیں اپنے پاس رکھیں اور اگر آپ ان میں سے بھی کسی کو اپنے پاس بلا لیں جنہیں آپ نے الگ کر رکھا تھا تو پھر بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں“(الاحزاب: 51) کے اترنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اپنی ایک بیوی کی باری میں دوسری کے پاس جانا منظور ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس کی باری ہوتی اس سے (دوسری کے پاس جانے کی) اجازت لیا کرتے۔ پس میں کہا کرتی تھی کہ یا رسول اللہ اگر آپ مجھ سے پوچھتے ہیں تو میں بوجہ آپ کی محبت کے آپ کا کسی کے پاس جانا پسند نہیں کرتی۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ پردہ کا حکم اترنے کے بعد ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا (چادر وغیرہ اوڑھ کر) حاجت کے لیے باہر نکلیں، وہ بھاری جسامت کی عورت تھیں، جو کوئی انھیں پہلے سے پہچانتا ہوتا وہ اب بھی پہچان لیتا تھا۔ خیر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو دیکھ لیا اور کہا کہ اے سودہ! واللہ! تم تو اب بھی ہم سے چھپی ہوئی نہیں ہو، ذرا دیکھ لو کیسی حالت میں تم باہر نکلی ہو۔ یہ سن کر وہ لوٹ آئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں رات کا کھانا کھا رہے تھے اور ہاتھ میں ہڈی تھی۔ پس وہ اندر آئیں اور کہنے لگیں کہ یا رسول اللہ! میں ضرورت سے باہر نکلی تھی لیکن عمر (رضی اللہ عنہ) نے ایسی ایسی گفتگو کی (ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) کہتی ہیں کہ اسی وقت وحی آنا شروع ہوئی، پھر وحی کی حالت موقوف ہو گئی اور ہڈی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ہاتھ سے رکھا نہیں تھا، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک تم (عورتوں) کو ضرورت سے (کام کاج کے لیے) باہر نکلنے کی اجازت دی گئی ہے۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ پردہ کا حکم اترنے کے بعد ابوقعیس کے بھائی افلح نے میرے پاس آنے کی اجازت چاہی تو میں نے کہا کہ میں اجازت نہیں دیتی جب تک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ پوچھ لوں۔ کیونکہ افلح کے بھائی یا ابوقعیس نے (جو میرا رضاعی باپ تھا) تو مجھ کو دودھ نہیں پلایا تھا بلکہ ابوقعیس کی بیوی نے پلایا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ابوقعیس کے بھائی افلح نے مجھ سے اندر آنے کی اجازت مانگی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے بغیر اجازت نہیں دی (اب کیا حکم ہے؟) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے کیوں اجازت نہ دی، وہ تیرا چچا ہے؟“ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! اس مرد ابوقعیس نے تو مجھ کو دودھ نہیں پلایا تھا، مجھے تو ابوقعیس کی بیوی نے دودھ پلایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اجازت دیدے کیونکہ وہ تو تیرا چچا ہوتا ہے۔ تیرا ہاتھ خاک آلود ہو۔“
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہ! سلام تو ہمیں معلوم ہے لیکن آپ پر صلوٰۃ کس طرح پڑھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پڑھو ”یا الٰہی! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر جو تیرے بندے اور رسول ہیں، رحمت نازل فرما جیسے تو نے ابراہیم (علیہ السلام) پر رحمت نازل فرمائی اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کی آل پر برکت نازل فرما جیسے تو نے ابراہیم (علیہ السلام) پر برکت نازل فرمائی۔“
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ(صحابہ نے) کہا یا رسول اللہ! آپ پر سلام پڑھنا تو ہمیں معلوم ہو گیا (یعنی التحیات میں پڑھا جاتا ہے) لیکن آپ پر درود کیسے پڑھیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پڑھو ”اے اللہ! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم (علیہ السلام) کی آل پر رحمت نازل فرمائی بیشک تو تعریف والا اور بزرگی والا ہے۔ (اور) اے اللہ! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر اور ان کی آل پر بھی برکت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم (علیہ السلام) کی آل پر برکت نازل فرمائی، بیشک تو تعریف والا اور بزرگی والا ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”موسیٰ علیہ السلام بڑے شرم والے آدمی تھے (حیاء دار تھے کسی کے سامنے نہاتے نہ تھے تو لوگوں نے نامردی کی تہمت لگائی) اور اسی کا ذکر اس آیت میں ہے ”اے ایمان والو! ان لوگوں جیسے نہ بن جاؤ جنہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تکلیف دی، پس جو بات انھوں نے کہی تھی اللہ نے انھیں اس سے بری فرما دیا اور وہ اللہ کے نزدیک باعزت تھے۔“(الاحزاب: 69)