سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تو کسی کو اللہ کا شریک بنائے حالانکہ اس (اللہ) نے تجھے پیدا کیا ہے۔“ میں نے کہا بیشک یہ بڑا گناہ ہے۔ میں نے پوچھا پھر اس کے بعد کون سا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کرنا کہ اس کو کھلانا پڑے گا۔“(یہیں سے فیملی پلاننگ کا رد ہوتا ہے) میں نے پوچھا پھر اس کے بعد کون سا گناہ؟ فرمایا: ”اپنے پڑوسی کی بیوی سے بدکاری کرنا۔“
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھنبی (جو خود رو ہوتی ہے)”من“ کی قسم میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لیے دوا ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا گیا تھا ”اور شہر کے دروازے میں جھک کر سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوں اور زبان سے حطّۃ کہو“(یعنی گناہوں کی مغفرت چاہتے ہیں) تو وہ گھسٹ گھسٹ کر اور بجائے حطّۃ کے حنطۃ، حبّہ فی شعرۃٍ (دانہ بالی کے اندر) کہتے ہوئے داخل ہوئے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم سب میں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بڑے قاری ہیں اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سب سے عمدہ قاضی ہیں اور ہم سیدنا ابی رضی اللہ عنہ کی ایک بات نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں تو قرآن کی کسی آیت کی تلاوت نہ چھوڑوں گا جس کو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اور بیشک قرآن میں اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ ”جس آیت کو ہم منسوخ کر دیں یا بھلا دیں تو ....“(سورۃ البقرہ: 118)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ”بنی آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ اس کو یہ نہ چاہیے تھا اور بنی آدم نے مجھے گالی دی اور یہ بات اس کو زیب نہ دیتی تھی۔ جھوٹا تو یوں بنایا کہ وہ کہتا ہے کہ میں ان کو مرنے کے بعد قیامت کے دن اصلی حالت پر نہیں اٹھا سکتا اور گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میری اولاد ہے حالانکہ میں اس بات سے مبرا اور پاک ہوں کہ کسی کو اپنی بیوی یا اولاد بناؤں (سب میرے بندے اور غلام ہیں)۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ (میری رائے) تین باتوں میں اللہ کے حکم کے موافق ہوئی یا یوں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تین باتوں میں میرے ساتھ اتفاق کیا۔ (پہلے یہ کہ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی اگر آپ مقام ابراہیم پر (طواف کے بعد) نماز پڑھا کریں تو بہتر ہو، (اسی کے موافق اللہ نے یہ آیت ”تم مقام ابراہیم کو جائے نماز بناؤ۔“ اتاری) اور (دوسری یہ کہ) میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ کے پاس اچھے برے ہر قسم کے لوگ آتے جاتے ہیں، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم امہات المؤمنین (اپنی ازواج مطہرات) کو پردہ کا حکم دے دیں تو اچھا ہے تو اس کے موافق اللہ نے حجاب کی آیت ((یٰآیّھا النّبیّ قل لا زواجک .... الخ)) نازل کی۔ (تیسری یہ کہ) جب مجھے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعض ازواج پر غصہ ہو گئے تو میں ان کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ تم باز آ جاؤ، ورنہ اللہ اپنے رسول کو تم سے اچھی بیویاں تمہارے بدلہ میں عطا کر دے گا یہاں تک کہ جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیوی (ام سلمہ رضی اللہ عنہا) پاس آیا تو انھوں نے کہا ”اے عمر! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کو نصیحت نہیں کر سکتے جو تم نصیحت کرنے آئے ہو؟“ تو اس وقت (میرے کہنے کے موافق) اللہ نے یہ آیت اتاری ”اگر وہ (پیغمبر) تمہیں طلاق دے دیں تو بہت جلد انھیں ان کا رب! تمہارے بدلے تم سے بہتر بیویاں عنایت فرمائے گا جو اسلام والیاں ....۔“(سورۃ التحریم: 5)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اہل کتاب یعنی یہودی تورات کو عبرانی زبان میں پڑھا کرتے تھے اور اس کا ترجمعہ عربی زبان میں مسلمانوں کو سمجھاتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کی باتوں کو بالکل سچ بھی نہ مان لو (اس لیے کہ انھوں نے تورات میں تحریف کر لی ہے) اور بالکل جھوٹ بھی نہ کہو (اس لیے کہ شاید بعض آیات بلا تحریف بھی ہوں) بلکہ مجملاً یہ کہو کہ ”کہہ دو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر بھی جو ہماری طرف نازل کی گئی۔“
8. اللہ تعالیٰ کے قول ”اسی طرح ہم نے تمہیں عادل امت بنایا تاکہ تم قیامت کے دن دوسری امتوں پر گواہی دو اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تم پر گواہ ہو جائیں“ (سورۃ البقرہ: 143) کا بیان۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن نوح علیہ السلام بلائے جائیں گے، وہ عرض کریں گے ”میں حاضر ہوں اے پروردگار، جو حکم ہو بجا لاؤں“ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ”کیا تم نے لوگوں کو ہمارے احکام بتا دیے تھے؟“ وہ کہیں گے ”ہاں“ پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا کہ نوح (علیہ السلام) نے تم کو میرا حکم پہنچایا تھا (یا نہیں؟) تو وہ کہیں گے کہ ”ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا (پیغمبر) نہیں آیا۔ ”نوح علیہ السلام سے کہا جائے گا ”کوئی تیرا گواہ ہے؟“ وہ عرض کریں گے ”محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کی امت کے لوگ گواہ ہیں۔“ پھر اس امت کے لوگ گواہی دیں گے کہ نوح علیہ السلام نے اللہ کا پیغام اپنی امت کو پہنچا دیا تھا ”اور پیغمبر (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) تم پر گواہ بنیں گے۔“ پس اللہ تعالیٰ کے اس قول کا یہی مطلب ہے کہ ”ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم پر گواہ ہو جائیں۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ(دور جاہلیت میں) قریش اور جو لوگ ان کے طریقہ پر چلتے تھے، مزدلفہ میں ٹھہرا کرتے تھے اور ان لوگوں کو حمس کہتے (اپنے آپ کو معزز سمجھتے تھے) باقی تمام اہل عرب عرفات میں ٹھہرتے تھے۔ جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا: ”پہلے عرفات میں جائیں اور وہاں ٹھہریں پھر وہاں سے لوٹ کر (مزدلفہ میں) آئیں۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یوں دعا فرمایا کرتے تھے: ”اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں نیکی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات دے۔“