سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا موجود تھیں، وہ (جبرائیل، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے) باتیں کرنے لگے پھر اٹھ (کر چلے) گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ (کیا تم جانتی ہو) یہ کون تھے؟ (یا اسی طرح کا سوال کیا) تو انھوں نے کہا کہ یہ دحیہ کلبی تھے (جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے)۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اللہ کی قسم! میں تو انھیں دحیہ ہی سمجھتی تھی یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا اور جبرائیل علیہ السلام کا حوالہ دے رہے تھے (اور) خطبہ میں وہ باتیں سنائیں جو جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی تھیں۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے (خواب میں) لوگوں کو دیکھا کہ ایک میدان میں جمع ہیں، پس ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کنویں سے ایک یا دو ڈول نکالے مگر ناتوانی کے ساتھ، اللہ ان کو بخشے۔ پھر عمر (بن خطاب) نے وہ ڈول سنبھالا تو ان کے ہاتھ میں جاتے ہی وہ (ڈول) ایک بڑا (موٹھ کا) ڈول ہو گیا۔ میں نے ایسا شہ زور پہلوان، ان کی طرح کام کرنے والا نہیں دیکھا، اتنا پانی نکالا کہ لوگ اپنے اونٹوں کو بھی پلا پلا کر ان کے ٹھکانوں میں لے گئے۔“
18. اللہ تعالیٰ کے قول ”(جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ تو) اسے ایسا پہچانتے ہیں جیسے کوئی اپنے بیٹوں کو پہچانے، ان کی ایک جماعت حق کو پہچان کر پھر چھپاتی ہے“ کا بیان۔ (سورۃ البقرہ 146)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہی سے روایت ہے کہ یہودی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بیان کیا اور ان میں سے ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کیا ہے (آپ کیا حکم دیتے ہیں؟) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم تورات میں سنگسار کرنے کے بارے میں کیا (لکھا ہوا) پاتے ہو؟“ انھوں نے کہا کہ ہم زانی اور زانیہ کو فضیحت (منہ کالا کر کے رسوا کرنا) کرتے ہیں اور ان کو کوڑے لگاتے ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ تورات میں سنگسار کرنے کا حکم ہے۔ وہ تورات لائے، اسے کھولا تو ایک یہودی نے اپنا ہاتھ رجم کی آیت پر رکھ دیا اور اس کے آگے اور پیچھے والی عبارت پڑھنے لگا تو سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اسے کہا کہ اپنا ہاتھ اٹھا اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو وہاں رجم کی آیت تھی۔ (یہودی) کہنے لگے کہ اے محمد! اس نے سچ کہا، بیشک تورات میں رجم کا حکم ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو وہ دونوں (زانی مرد، عورت) رجم کیے گئے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ چاند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں پھٹ کر دو ٹکڑے ہو گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(لوگو!) گواہ رہنا۔“
سیدنا عروہ البارقی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایک دینار دیا کہ ایک بکری خرید لاؤ۔ وہ گئے اور ایک دینار میں دو بکریاں خریدیں پھر ان میں سے ایک (بکری) ایک دینار میں بیچ ڈالی اور ایک بکری اور ایک دینار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تجارت میں برکت کی دعا کی (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے عروہ کا یہ حال ہو گیا) کہ اگر وہ مٹی خریدتے تو اس میں بھی فائدہ ہوتا۔“