سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ(سورۃ النجم آیت: 18 کہ)”بیشک انھوں نے اپنے پروردگار کی بڑی نشانیاں دیکھیں۔“(کا مطلب یہ ہے کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سبز بچھونا دیکھا جس نے آسمان کے کناروں کو ڈھانک دیا تھا۔“(اس پر جبرائیل علیہ السلام بیٹھے تھے یا ان کے پر تھے)۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جو شخص خیال کرتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار کو دیکھا تو اس نے برا خیال کیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو ان کی (اصلی) صورت و خلقت میں دیکھا تھا جنہوں نے آسمان کے کنارے بھر دیے تھے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب خاوند اپنی بیوی کو ہمبستری کے لیے بلائے اور وہ انکار کرے پھر وہ (خاوند) ناخوش ہو کر سو جائے تو فرشتے اس عورت پر صبح تک لعنت کرتے ہیں۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص مر جاتا ہے تو اسے (ہر روز) اس کا مقام صبح و شام دکھایا جاتا ہے، اگر وہ اہل جنت میں سے ہو تو جنت میں اسے اس کا مقام دکھایا جاتا ہے۔ اور اگر وہ اہل دوزخ میں سے ہو تو دوزخ میں اسے اس کا مقام دکھایا جاتا ہے۔“
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے جنت میں دیکھا تو وہاں کے لوگوں میں اکثر (وہ لوگ پائے جو دنیا میں غریب، محتاج اور) فقراء پائے اور میں نے دوزخ میں دیکھا تو دوزخ والوں میں عورتوں کی کثرت دیکھی۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس حالت میں کہ میں سو رہا تھا تو میں نے اپنے آپ کو جنت میں دیکھا، ایک عورت ایک محل کے گوشہ میں وضو کر رہی تھی، میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ کا ہے تو میں نے ان کی غیرت کا خیال کیا اور پیچھے ہٹ آیا۔“ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور کہا کہ یا رسول اللہ! (کیا) میں آپ پر غیرت کروں گا؟
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے پہلا گروہ جو جنت میں داخل ہو گا ان کی صورت چودھویں کے چاند کی طرح روشن ہو گی۔ ان لوگوں کو نہ تھوک آئے گا نہ ناک کا لعاب اور نہ وہ وہاں پاخانہ کریں گے، ان کے برتن وہاں سونے کے ہوں گے اور ان کی کنگھیاں سونے چاندی کی اور ان کی انگیٹھیوں میں عود سلگے گا اور ان کا پسینا مشک کا (یعنی کستوری جیسا خوشبودار) ہو گا، ان میں سے ہر ایک کے لیے ایسی حسین و جمیل اور نازک مزاج دو، دو بیویاں ہوں گی، جن کی پنڈلیوں کا گودا گوشت کے اندر سے دکھائی دے گا۔ اہل جنت میں نہ باہم اختلاف ہو گا اور نہ دشمنی، ان سب کے دل ایک ہوں گے وہ صبح و شام اللہ کی پاکی بیان کریں گے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے پہلا گروہ جو جنت میں داخل ہو گا ان کی صورت چودھویں کے چاند کی طرح روشن ہو گی اور جو ان کے بعد داخل ہوں گے وہ بہت روشن ستارے کی طرح ہوں گے، ان سب کے دل (بوجہ باہمی محبت کے) مثل ایک شخص کے دل کے ہوں گے نہ ان میں اختلاف ہو گا اور نہ دشمنی، ان میں سے ہر ایک کے لیے ایسی حسین و جمیل اور نازک مزاج دو، دو بیویاں ہوں گی، جن کی پنڈلیوں کا گودا گوشت کے اندر سے دکھائی دے گا، وہ صبح و شام اللہ کی پاکی بیان کریں گے نہ کبھی بیمار ہوں گے نہ کبھی ناک سے لعاب گرائیں گے نہ تھوکیں گے .... اور بقیہ حدیث بیان کی جو کہ گزر چکی ہے (دیکھئیے پچھلی حدیث)۔
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک میری امت میں ستر ہزار یا (یہ فرمایا کہ) سات لاکھ آدمی جنت میں ایک ساتھ داخل ہوں گے (آگے پیچھے نہ ہوں گے) جن کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتے ہوں گے۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جبہ سندس (ریشمی کپڑے) کا لایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ریشمی کپڑے کے استعمال سے منع فرمایا کرتے تھے تو لوگ اس کو دیکھ کر تعجب کرنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے کہ جنت میں سعد بن معاذ (رضی اللہ عنہ) کے رو مال اس سے کہیں بہتر ہیں۔“