سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا اور وہ صادق و مصدوق تھے: ”تم میں سے ہر شخص کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں تمام کی جاتی ہے۔ چالیس دن تک نطفہ رہتا ہے پھر اتنے ہی عرصے تک منجمد خون رہتا ہے پھر اتنے ہی دنوں تک مضغہ گوشت (لوتھڑا) کا رہتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ، فرشتہ بھیجتا ہے۔ اور اسے چار باتوں (کے لکھنے) کا حکم دیا جاتا ہے (1) اسے کہا جاتا ہے کہ اس کا عمل (2) اس کا رزق (3) اس کی عمر (4) اور (یہ لکھ دے کہ) شقی ہے یا سعید (یعنی خوش بخت ہے یا بدبخت) پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ پس بیشک تم میں سے کوئی شخص (ایسا) عمل کرتا ہے کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک گز (کا فاصلہ) رہ جاتا ہے پھر اس پر (اللہ کا) نوشتہ (لکھی ہوئی تقدیر) غالب آ جاتا ہے اور وہ دوزخیوں والے عمل کرنے لگتا ہے اور کوئی شخص ایسا عمل کرتا ہے کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک گز (کا فاصلہ) باقی رہ جاتا ہے پھر اس پر اللہ کا نوشتہ (تقدیر) غالب آ جاتا ہے اور وہ اہل جنت کے کام کرنے لگتا ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل (علیہ السلام) کو آواز دیتا ہے کہ اللہ فلاں شخص کو دوست رکھتا ہے لہٰذا تم بھی اس کو دوست رکھو۔ پس جبرائیل (علیہ السلام) اس کو دوست رکھنے لگتے ہیں۔ پھر جبرائیل علیہ السلام تمام آسمان والوں میں اعلان کر دیتے ہیں کہ اللہ فلاں شخص کو دوست رکھتا ہے لہٰذا تم بھی اس کو دوست رکھو چنانچہ اس کو تمام آسمان والے دوست رکھتے ہیں پھر زمین (والوں) میں اس کی قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”فرشتے بادل میں اترتے ہیں اور آسمان پر، اللہ تعالیٰ کے جو حکم احکام (اس دن ہوئے) ان کا ذکر کرتے ہیں۔ پس شیاطین چھپ کر اسے سن لیتے ہیں اور کاہنوں سے آ کر بیان کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کچھ جھوٹ بھی اپنی طرف سے ملا لیتے ہیں۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو مسجد کے دروازوں میں سے ہر دروازے پر فرشتے (متعین) ہوتے ہیں اور وہ سب سے پہلے جو آیا اس کا، پھر اس کے بعد جو آیا اس کا (اسی طرح برابر سب کے نام) لکھتے ہیں۔ پھر جب امام (منبر پر) بیٹھ جاتا ہے تو وہ صحیفوں کو لپیٹ دیتے ہیں اور خطبہ سننے کے لیے آ جاتے ہیں۔“
سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان (بن ثابت) رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: ”تم مشرکوں کی ہجو کرو اور جبرائیل علیہ السلام تمہارے ساتھ ہیں۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اے عائشہ! یہ جبرائیل علیہ السلام تم کو سلام کہتے ہیں۔“ تو انھوں نے کہا وعلیہ السلام رحمتہ اللہ وبرکاتہ، آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) وہ دیکھتے ہیں جو میں نہیں دیکھتی۔ ”ترٰی“ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مراد رکھا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام سے کہا: ”جس قدر اب تم ہمارے پاس آتے ہو اس سے زیادہ کیوں نہیں آتے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں پس یہ آیت نازل ہوئی ”اور ہم نہیں نازل ہوتے مگر تمہارے پروردگار کے حکم سے، اسی کا ہے جو کچھ ہمارے سامنے ہے اور ہمارے پیچھے ہے“(سورۃ مریم: 64)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے جبرائیل علیہ السلام نے ایک قرآت میں قرآن پڑھایا تھا پھر میں برابر ان سے زیادہ چاہتا رہا یہاں تک کہ سات قراتوں تک پہنچ گیا۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا احد سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تمہاری قوم (قریش) سے جو جو تکالیف اٹھائی ہیں وہ میرا ہی دل جانتا ہے اور سب سے زیادہ سخت دن مجھ پر مقام عقبہ (جو طائف کی طرف ہے) کا دن گزرا ہے جب میں نے اپنے آپ کو ابن عبد یا لیل بن عبد کلال (جو طائف کا رئیس تھا) کے سامنے پیش کیا اور اس نے میری خواہش پوری نہ کی پس میں نہایت رنج میں چلا، میں اپنے ہوش میں نہ آیا تھا کہ قرن الثعالب (مقام) میں پہنچا۔ اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ابر کے ٹکڑے نے مجھ پر سایہ کر لیا ہے پھر میں نے دیکھا تو اس میں جبرائیل (علیہ السلام) تھے۔ انھوں نے مجھے آواز دی کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کی گفتگو سن لی اور وہ جواب جو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا اور اللہ نے آپ کے پاس پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو کافروں کی نسبت جو چاہیں حکم دیں۔ پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی، مجھے سلام کیا، اس کے بعد کہا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! جو تم چاہو موجود ہے، اگر تم چاہو تو میں اخشبین (نامی دونوں پہاڑ) ان پر رکھ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں! میں یہ نہیں چاہتا بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ ان کی پشت سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اللہ عزوجل کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما اس آیت ”پس دو کمانوں کے بقدر فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی کم، پس اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی پہنچائی“ کا مطلب بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو (ان کی اصلی شکل میں) دیکھا تھا ان کے چھ سو پر تھے۔ (سورۃ النجم: 9 - 10)