سیدہ ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کروانے کے لیے کسی اچھی بات کی چغلی کھائے یا اسی سلسلہ کی اور کوئی اچھی بات کہہ دے وہ جھوٹا نہیں ہے۔“
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قباء والوں نے (ایک دفعہ) باہم جنگ کی یہاں تک کہ باہم پتھر مارے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمیں لے چلو، ہم ان کے درمیان صلح کرا دیں۔“
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذیقعدہ میں عمرہ کیا تو اہل مکہ نے اس بات کو نہ مانا کہ آپ کو مکہ میں داخل ہونے دیں حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس بات پر فیصلہ کر لیا کہ تین دن مکہ میں قیام کریں پھر جب ان لوگوں نے تحریر لکھی تو یہ لکھوایا کہ ”یہ صلح نامہ ہے جس پر محمد اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) راضی ہوئے۔“ تو مشرکوں نے کہا کہ ہم اس بات کا اقرار نہیں کرتے کیونکہ اگر ہم جانتے کہ آپ اللہ کے پیغمبر ہیں تو ہم آپ کو (عمرے سے ہرگز) نہ روکتے بلکہ (ہم یہ جانتے ہیں کہ) آپ محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اللہ کا رسول ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔“ اس کے بعد آپ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”تم رسول اللہ (کے لفظ) کو مٹا دو۔ تو انھوں نے عرض کی کہ نہیں اللہ کی قسم! میں آپ (کے نام) کو ہرگز نہ مٹاؤں گا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تحریر خود لے لی اور لکھ (لکھوا) دیا کہ ”یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فیصلہ کیا، وہ مکہ میں ہتھیار غلاف میں رکھ کر داخل ہوں گے اور مکہ والوں میں جو کوئی ان کے ساتھ جانا چاہے گا اس کو ساتھ نہیں لے جائیں گے اور اپنے ساتھ والوں میں سے اگر کوئی مکہ میں رہ جانا چاہے گا تو اس کو منع نہیں کریں گے۔“ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے اور مدت گزر گئی تو لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ تم اپنے صاحب ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کہو کہ اب ہمارے پاس سے چلے جائیں کیونکہ (مقررہ) وقت گزر گیا پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے باہر آ گئے پھر سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی ان کے پیچھے اے چچا! اے چچا! کہتی ہوئی دوڑی تو اس کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے لے لیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کے سیدہ فاطمۃالزہراء (رضی اللہ عنہا کے پاس لائے اور) کہا کہ اپنے چچا کی بیٹی کو لے لو، میں اس کو اٹھا لایا ہوں پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا زید رضی اللہ عنہ اور سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے باہم اختلاف کیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ میں اس لڑکی کا زیادہ مستحق ہوں، یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ وہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میرے نکاح میں ہے اور سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ میرے بھائی کی بیٹی ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کو اس کی خالہ کو دلوا دیا اور فرمایا: ”خالہ ماں کی طرح ہے۔“ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔“ اور سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میری صورت اور سیرت (دونوں) کے مشابہ ہو۔“ اور سیدنا زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”تم میرے بھائی ہو اور میرے مولا ہو۔“
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر دیکھا اور سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھے۔ آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے تھے اور کبھی ان کی طرف اور فرماتے تھے: ”یہ میرا بیٹا سردار ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرا دے گا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ(ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جھگڑنے والوں کی بلند آوازیں (مسجد کے) دروازے سے سنیں اور یکایک (آپ کو یہ معلوم ہوا کہ) ان میں سے ایک دوسرے سے (قرض میں) کمی کرنے کی گزارش کر رہا ہے اور نرمی طلب کرتا ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ اللہ کی قسم! میں ایسا نہ کروں گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: ”اس امر پر اللہ کی قسم کھانے والا کہ وہ اچھی بات پر عمل نہ کرے گا کہاں ہے؟“ تو اس شخص نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں یہ ہوں (اچھا اب میں راضی ہوں کہ) جو کچھ میرا حریف چاہے گا وہ اسے دے دوں گا۔