سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص لوگوں کا مال قرض لے اور وہ اس کے ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس سے ادا کرا دے گا اور جو شخص (لوگوں کا) مال لے اور وہ اس (مال) کو ضائع کر دینے کا ارادہ رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو ضائع کر دے گا۔“
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کو دیکھا تو فرمایا: ”میں نہیں چاہتا کہ یہ پہاڑ اگر میرے لیے سونا ہو جائے تو تین دن کے بعد ایک دینار بھی اس میں سے میرے پاس رہ جائے بجز اس دینار کے جو میں کسی قرض کے واسطے رکھ چھوڑوں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جن لوگوں کے پاس مال زیادہ ہے، ان کی نیکیاں بہت کم ہیں سوائے اس شخص کے جو مال کو اس طرح خرچ کرے مگر یہ لوگ کم ہیں۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے) فرمایا: ”تم اپنے مقام پر کھڑے رہنا یہاں تک کہ میں تمہارے پاس آ جاؤں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ آگے بڑھ گئے اور میں نے ایک (ہیبت ناک) آواز سنی تو میں نے ارادہ کیا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں پھر میں نے آپ کی یہ بات یاد کی کہ تم اپنی جگہ پر رہنا یہاں تک کہ میں تمہارے پاس آ جاؤں چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ آواز کیسی تھی جو میں نے سنی تھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے سنی تھی؟ میں نے عرض کی کہ ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے تھے اور انھوں نے کہا کہ میں آپ کی امت میں سے جو شخص اس حالت میں مر جائے کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتا ہو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ میں نے عرض کی کہ اگرچہ وہ شخص ایسے ایسے (بڑے گناہ کے) کام کرتا ہو؟ تو اس نے کہا ہاں۔“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے، چاشت کا وقت تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو رکعت نماز پڑھ لو۔“ اور میرا کچھ قرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا قرض ادا کر دیا اور مجھے زیادہ دیا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مومن ہے میں اس کا دنیا و آخرت میں سب سے زیادہ دوست ہوں، اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو ”پیغمبر ( صلی اللہ علیہ وسلم ) مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں“(الاحزاب: 6) لہٰذا جو مومن مر جائے اور کچھ مال چھوڑے تو اس مال کے وارث تو اس کے اعزہ ہیں جو کوئی ہوں اور جو شخص کچھ قرض، بچے یا کوئی ضائع ہو جانے والی چیز چھوڑے تو وہ میرے پاس آئے کیونکہ میں اس کا بندوبست کروں گا۔
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن) فرمایا: ”اللہ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی کرنا اور لڑکیوں کا زندہ درگور کرنا حرام کر دیا ہے اور حق نہ ادا کرنا اور ناحق چیز کا لینا (بھی حرام کر دیا ہے) اور تمہارے لیے قیل و قال (فضول بحث کرنے) اور کثرت سوال اور اضاعت مال (مال کے ضائع کرنے) کو ناپسند کیا ہے۔“