سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوطیبہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پچھنے لگائے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک صاع کھجوریں دلوا دیں اور اس کے مالک کو حکم دیا تھا کہ ان کے خراج میں تخفیف کر دیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ) پچھنے لگوائے اور جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پچھنے لگائے تھے اس کو اجرت دی اور اگر یہ اجرت حرام ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ہرگز نہ دیتے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک مسند خریدی جس میں تصویریں تھیں پھر جب اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہو گئے گھر کے اندر نہ گئے (تو عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں) جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک میں ناراضگی (کی کیفیت) دیکھی تو میں نے کہا یا رسول اللہ! میں اللہ اور اس کے رسول کے سامنے توبہ کرتی ہوں، میں نے کیا گناہ کیا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“ یہ مسند کیسی ہے؟“ میں نے عرض کی کہ یہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خریدی ہے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بیٹھیں اور اس پر تکیہ لگائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان تصویروں کے بنانے والوں پر قیامت کے روز عذاب کیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ جو صورتیں تم نے بنائی ہیں ان کو زندہ کرو۔“ مزید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس گھر میں تصویریں ہوتی ہیں وہاں فرشتے نہیں جاتے۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم کسی سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے اور میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ایک تند مزاج اونٹ پر سوار تھا، وہ اونٹ میرے قابو میں نہ آتا تھا اور سب لوگوں سے آگے بڑھ جاتا تھا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اسے ڈانٹتے تھے اور پیچھے کر دیتے تھے، پھر وہ آگے بڑھ جاتا تھا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پھر اسے ڈانٹ کر پیچھے کر دیتے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”تم یہ اونٹ میرے ہاتھ فروخت کر دو۔“ تو انھوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! وہ آپ ہی کا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”’ (یہ نہیں) تم اسے میرے ہاتھ فروخت کر دو۔“ چنانچہ انھوں نے وہ اونٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فروخت کر دیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عبداللہ! وہ اونٹ تمہارا ہی ہے، تم اس کے ساتھ جو چاہو سو کرو۔ (یعنی ان کو بطور تحفہ دے دیا)۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ مجھے خریدوفروخت میں اکثر نقصان رہتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم خریدوفروخت کیا کرو تو کہہ دیا کرو کہ (یعنی خریدوفروخت میں) دھوکا یا نقصان نہیں دینا چاہیے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دن کے وقت نکلے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے باتیں کر رہے تھے اور نہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کر رہا تھا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی قینقاع کے بازار میں تشریف لے گئے۔ پھر سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کے مکان کے صحن میں تشریف فرما ہو گئے اور فرمایا: ”بچہ کہاں ہے، بچہ کہاں ہے؟“ مگر سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو تھوڑی دیر روکے رکھا۔ میں نے سمجھا کہ وہ انھیں کچھ پہنا رہی ہیں یا غسل کروا رہی ہیں۔ اس کے بعد وہ دوڑتے ہوئے آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں لپٹا لیا اور بوسہ دیا اور دعا فرمائی: ”اے اللہ! تو اس سے محبت فرما اور جو اس سے محبت کرے اس سے بھی محبت فرما۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک لشکر کعبہ پر چڑھائی کے ارادہ سے آئے گا پھر جب وہ مقام بیداء میں پہنچے گا تو سب لوگ زمین پر دھنس جائیں گے۔“(ام المؤمنین) کہتی ہیں کہ میں نے عرض کی، یا رسول اللہ! سب لوگ کیونکر دھنس جائیں گے حالانکہ ان میں ان کے بازار بھی ہوں گے اور بعض لوگ ایسے ہوں گے جو ان میں سے نہ ہوں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب لوگ دھنس جائیں گے مگر ان کا حشر ان کی نیت کے موافق ہو گا۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ایک دن) بازار میں تھے کہ اتنے میں ایک شخص نے کہا اے ابوالقاسم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف دیکھنے لگے، اس نے عرض کی کہ میں نے فلاں شخص کو پکارا ہے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز نہیں دی) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا نام رکھ لو مگر میری کنیت نہ رکھو۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں لوگ اہل قافلہ سے غلہ خرید لیتے تھے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کو ان کے پاس روانہ کرتے جو ان کو اسی جگہ وہ غلہ فروخت کرنے سے منع کرتا جب تک اس کو جہاں اناج بکتا ہے (یعنی منڈی میں) اٹھا نہ لائیں۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ بھی کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا تھا کہ اناج یا غلہ جس وقت خریدا جائے اسی وقت فروخت کر دیا جائے، اس پر قبضہ (اور جگہ تبدیل) کیے بغیر۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس صفت کے بارے میں پوچھا گیا جو تورات میں مذکور ہے تو انہوں نے کہا، اچھا! اللہ کی قسم جو ان کی تعریف قرآن میں ہے اسی قسم کی بعض تعریفیں تورات میں بھی ہیں (تورات میں اس قسم کا مضمون ہے): ”اے نبی! ہم نے تجھ کو دین حق کا گواہ اور مومنوں کو بشارت دینے والا اور کافروں کو ڈرانے والا اور امیوں کا نگہبان بنا کر بھیجا ہے تو میرا بندہ اور میرا رسول ہے، میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے رکھا ہے۔ نہ تو وہ بدخلق ہے اور نہ بازاروں میں شور کرنے والا اور نہ وہ برائی کے بدلہ میں برائی کرتا ہے بلکہ درگزر اور مہربانی کرتا ہے۔ اللہ اسے ہرگز موت نہ دے گا یہاں تک کہ اس کے ذریعہ سے ایک کج مذہب کو سیدھا کر دے اس طرح کو وہ (یقین کے ساتھ) لا الہٰ الا اللہ کہنے لگیں اور اس (ذات) کے ذریعہ سے اندھی آنکھیں، بہرے کان اور غافل دل کھول دے۔“