سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزہ (عذاب الٰہی کے لیے) ڈھال ہے پس روزہ دار کو چاہیے کہ فحش بات نہ کہے اور جہالت کی باتیں (مثلا مذاق، جھوٹ، چیخنا چلانا اور شوروغل مچانا وغیرہ) بھی نہ کرے اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو اسے چاہیے کہ دو مرتبہ کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ روزہ دار کے منہ کی خوشبو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ عمدہ ہے (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ) روزہ دار اپنا کھانا پینا اور اپنی خواہش و شہوت میرے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ (تو) روزہ میرے ہی لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور ہر نیکی کا ثواب دس گنا ملتا ہے (لیکن روزہ کا ثواب اس سے کہیں زیادہ ملے گا)۔“
سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ”ریان“ کہتے ہیں، اس دروازہ سے قیامت کے دن روزہ دار داخل ہوں گے، ان کے سوا کوئی (بھی اس دروازے سے) داخل نہ ہو گا۔ کہا جائے گا روزہ دار کہاں ہیں؟ پس وہ اٹھ کھڑے ہوں گے، ان کے سوا کوئی اس دروازہ سے داخل نہ ہو گا پھر جس وقت وہ داخل ہو جائیں گے تو دروازہ بند کر لیا جائے گا غرض اس دروازہ سے کوئی داخل نہ ہو گا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ کی راہ میں دو جوڑے (کپڑے یا کوئی سی بھی دو چیزیں) تقسیم کرے وہ جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا (فرشتے کہیں گے کہ) اے اللہ کے بندے! یہ دروازہ اچھا ہے (اس میں سے آ جا) پھر جو کوئی نماز قائم کرنے والوں میں سے ہو گا تو وہ نماز کے دروازے سے پکارا جائے گا اور جو کوئی جہاد کرنے والوں میں سے ہو گا تو وہ جہاد کے دروازے سے پکارا جائے گا اور جو کوئی روزہ داروں میں سے ہو گا تو وہ ”باب الریان (ریان)“ سے پکارا جائے گا اور جو کوئی صدقہ دینے والوں میں سے ہو گا وہ صدقہ کے دروازے سے پکارا جائے گا تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں جو شخص ان تمام دروازوں سے پکارا جائے تو اس کو پھر کوئی حاجت ہی نہ رہے گی تو کیا کوئی شخص ان تمام دروازوں سے بھی پکارا جائے گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! میں امید رکھتا ہوں کہ تم انھیں میں سے ہو گے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دوسری ایک روایت میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب رمضان آتا ہے تو آسمان (یعنی جنت) کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور شیاطین مضبوط ترین زنجیروں سے جکڑ دیے جاتے ہیں۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم (رمضان کا) چاند دیکھو تو روزے رکھنا شروع کر دو اور جب تم (عیدالفطر کا) چاند دیکھو تو روزہ رکھنا ترک کر دو پھر اگر تمہارا مطلع ابرآلود ہو (یعنی بادل چھا جائیں) تو تم اس کے لیے اندازہ کر لو (یعنی 30 پورے کر لو)۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص جھوٹ بولنا اور دغابازی کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کچھ پرواہ نہیں کہ وہ (روزہ کا نام کر کے) اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم کے تمام اعمال اسی کے لیے ہوتے ہیں سوائے روزہ کے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا۔“ اور (حدیث کے) آخر میں ارشاد فرمایا: ”روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوتی ہیں ایک اس وقت جب وہ افطار کرتا ہے (تو دلی) خوشی محسوس کرتا ہے اور دوسرے جب وہ اپنے پروردگار سے ملاقات کرے گا تو روزے کا ثواب دیکھ کر خوش ہو گا۔“
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص نکاح کی قدرت رکھتا ہو وہ تو نکاح کر لے اس لیے کہ نکاح اس کی نظر کو (غیر محرم پر پڑنے سے) خوب روکے گا اور اس کی شرمگاہ کی (زنا سے) حفاظت کرے گا اور جو شخص نکاح کرنے پر قدرت نہ رکھتا ہو اس پر روزے رکھنا لازم ہے کیونکہ روزے اس کی شہوت کو توڑ دیتے ہیں۔“(یہ روزے فرض نہیں البتہ مستحب ہیں اور حدیث میں اسی استحباب کی تاکید کی گئی ہے)۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہینہ (کم از کم) انتیس دن کا ہوتا ہے پس تم جب تک چاند نہ دیکھو لو روزہ نہ رکھو پھر اگر مطلع ابرآلود ہو جائے (یعنی آسمان پر بادل چھا جائیں اور تم چاند نہ دیکھ سکو) تو تیس دن کا شمار پورا کر لو۔“