سیدنا ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کی اپنے آپ کو جھوٹا جان کر قسم کھائے مثلا یوں کہے کہ فلاں بات یوں ہوئی تو میں یہودی ہوں تو ویسا ہی ہو گا جیسا اس نے کہا ہے اور جو شخص اپنے آپ کو کسی ہتھیار سے قتل کرے اس کو اسی ہتھیار سے جہنم میں عذاب دیا جائے گا۔“
سیدنا جندب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص کے کچھ زخم لگ گیا تھا، اس نے اپنے آپ کو مار ڈالا پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”میرے بندے نے مجھ سے سبقت کی (یعنی اپنی جان خود دے دی) لہٰذا میں نے اس پر جنت حرام کر دی۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنی جان گلا گھونٹ کر دیتا ہے وہ اپنا گلا دوزخ میں برابر گھونٹا کرے گا اور جو شخص زخم لگا کر اپنے آپ کو ہلاک کر لیتا ہے وہ دوزخ میں برابر اپنے آپ کو زخم لگایا کرے گا۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ ایک جنازہ سامنے سے لے کر گزرے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کی تعریف کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واجب ہو گئی۔“ پھر لوگ دوسرا جنازہ لے کر گزرے تو انہوں نے اس کی برائی بیان کی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واجب ہو گئی۔“ تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ کیا چیز واجب ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کی تم نے تعریف کی اس کے لیے جنت اور جس کی تم لوگوں نے برائی بیان کی اس کے لیے دوزخ واجب ہو گئی اور تم لوگ زمین میں اللہ کی طرف سے گواہ ہو۔“
امیرالمؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس مسلمان کے نیک ہونے کی چار آدمی گواہی دیں تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کر دے گا۔“ ہم نے عرض کی اور تین آدمی جس کے اچھا ہونے کی گواہی دیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور تین آدمی جس کے نیک ہونے کی گواہی دیں، (اس کو بھی جنت ملے گی)۔“ پھر ہم نے عرض کی اور دو آدمی جس کے اچھا ہونے کی گواہی دیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور دو آدمی (جس کے اچھے ہونے کی گواہی دیں اس کو بھی جنت ملے گی)۔“ پھر ہم نے ایک کی گواہی کی بابت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں پوچھا۔
سیدنا براء بن عازب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مومن اپنی قبر میں اٹھا کر بٹھایا جاتا ہے اور اس کے فرشتے آتے ہیں پھر وہ شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں پس اللہ تعالیٰ نے (سورۃ ابراہیم کی آیت: 27 میں) جو فرمایا ہے کہ: ”اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو دنیا کی زندگی اور آخرت میں توحید پر مضبوط رکھتا ہے۔“ کا یہی مطلب ہے۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنویں میں جھانکا جہاں بدر کے مشرکین مقتولین مرے پڑے تھے اور فرمایا: ”کیا جو کچھ تم سے تمہارے پروردگار نے جو تم سے سچا وعدہ کیا تھا اسے تم نے پا لیا؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو پکارتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو، ہاں وہ لوگ جواب نہیں دے سکتے۔“
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ(بدر کے مقتولین کی نسبت) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف یہ فرمایا تھا: ”وہ اس وقت جانتے ہیں کہ جو کچھ میں ان سے کہتا تھا ٹھیک تھا۔“ اور بیشک اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ”اے نبی! آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔“(سورۃ النمل: 80)۔
سیدہ اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ(ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنہ قبر کا ذکر کیا جس سے آدمی کی آزمائش کی جائے گی تو اس کو سن کر مسلمان چیخیں مار مار کر روئے۔
سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن غروب آفتاب کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ہولناک) آواز سنی اور فرمایا: ”یہودیوں پر ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے۔“