سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک سفر میں تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے مغیرہ! پانی کا برتن اٹھا لو۔“ تو میں نے اٹھا لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے یہاں تک کہ مجھ سے چھپ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ضرورت رفع کی اور (اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کے جسم اطہر) پر جبہ شامیہ تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ہاتھ اس کی آستین سے نکالنے لگے تو وہ تنگ ہوا، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کو اس کے نیچے سے نکالا، پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضائے شریفہ پر پانی ڈالا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو نماز کے لیے ہوتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کیا پھر نماز پڑھی۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ (کی تعمیر) کے لیے قریش کے ہمراہ پتھر اٹھاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کے جسم اطہر) پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تہبند (بندھی ہوئی) تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے میرے بھتیجے! کاش تم اپنی تہبند اتار ڈالتے اور اسے اپنے شانوں پر پتھر کے نیچے رکھ لیتے۔ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازار کھول ڈالی اور اسے اپنے شانوں پر رکھ لیا، تو بیہوش ہو کر گر پڑے پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کبھی) برہنہ نہیں دیکھے گئے۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت بکل مارنے سے اور اس بات سے کہ آدمی ایک کپڑے میں گوٹھ مار کر بیٹھے اس طرح کہ اس کی شرمگاہ پر اس کا کوئی حصہ نہ ہو، منع فرمایا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو (قسم کی) بیع سے منع فرمایا ہے: لماس (چھونے کی) اور نباذ (پھینکنے کی) اور اس بات سے کہ کوئی اشتمال صماء (سخت بکل مارنا) کرے اور اس بات سے کہ کوئی شخص ایک کپڑے میں گوٹھ مار کر بیٹھے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مجھے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس حج میں (جو حجتہ الوداع سے پہلے کیا گیا تھا اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اس میں سب کے امیر تھے) قربانی کے دن منادی کرنے والوں کے ساتھ بھیجا تاکہ ہم منیٰ میں یہ اعلان کریں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی برہنہ (ہو کر) کعبہ کا طواف کرے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور ان کو حکم دیا کہ وہ سورۃ برات کا اعلان کریں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پس سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے قربانی کے دن ہمارے ساتھ منیٰ کے لوگوں میں اعلان کیا: ”اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی برہنہ (ہو کر) طواف کرے۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر میں جہاد کیا تو ہم نے صبح کی نماز خیبر کے قریب اندھیرے میں پڑھی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ (بھی) سوار ہوئے اور میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے سوار تھا، پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کی گلیوں میں چلے اور میرا گھٹنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے مس کرتا جاتا تھا۔ پھر آپ نے اپنی ازار اپنی ران سے ہٹا دی یہاں تک کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کی سپیدی کو دیکھنے لگا۔ پھر آپ وادی کے اندر داخل ہو گئے تو فرمایا: ”اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے، خیبر کی خرابی آ گئی، بیشک ہم جس قوم کے میدان میں (بقصد جنگ) اترے ہوں تو ان ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری (حالت میں) ہوتی ہے۔“ اسے تین بار فرمایا: سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں (خیبر کے) لوگ اپنے کاموں کے لیے نکلے تو انھوں نے کہا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے) اور خمیس یعنی لشکر (بھی آ گیا) پس ہم نے خیبر کو بزور شمشیر حاصل کیا۔ پھر قیدی جمع کیے گئے تو سیدنا دحیہ رضی اللہ عنہ آئے اور انھوں نے کہا کہ اے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے ان قیدیوں میں سے کوئی لونڈی دے دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اور کوئی لونڈی لے لو۔“ انھوں نے صفیہ بنت حیی کو لے لیا۔ پھر ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے صفیہ حیی (قبیلہ) قریظہ اور نضیر کی سردار دحیہ رضی اللہ عنہ کو دے دی، وہ سوائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی کے قابل نہیں ہیں۔ تو آپ نے فرمایا: ”ان کو صفیہ کے ساتھ لے آؤ۔“ پس جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ کی طرف نظر کی تو (دحیہ سے) فرمایا کہ: ”ان کے کوئی علاوہ اور لونڈی قیدیوں میں سے لو۔“(سیدنا انس رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ کو آزاد کر دیا اور ان سے نکاح کر لیا۔ یہاں تک کہ جب راہ میں (چلے) تو ام سلیم نے ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آراستہ کیا اور شب کو آپ کے پاس بھیجا تو صبح کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بحیثیت دولہا فرمایا: ”جس کے پاس جو کچھ ہو وہ اسے لے آئے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چمڑے کا ایک دسترخوان بچھا دیا، پس کوئی کھجوریں لایا اور کوئی گھی لانے لگا۔ (راوی حدیث) کہتے ہیں میں خیال کرتا ہوں کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے ستو کا بھی ذکر کیا (پھر) کہتے ہیں پھر انھوں نے سب کو ملا کر ملیدہ بنایا تو یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولیمہ تھا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھتے تھے تو آپ کے ہمراہ کئی مسلمان عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی حاضر ہوتی تھیں، پھر وہ اپنے گھروں کی طرف ایسے وقت لوٹ جاتی تھیں کہ (اندھیرے کے سبب سے) کوئی انھیں پہچانتا نہ تھا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی منقش چادر میں نماز پڑھی جس میں نقش تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر اس کے نقوش کی طرف پڑی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو فرمایا: ”میری اس چادر کو ابوجہم کے پاس لے جاؤ اور مجھے ابوجہم کی سادہ چادر لا دو کیونکہ اس (منقش چادر) نے ابھی مجھے میری نماز سے غافل کر دیا تھا۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک پردہ تھا کہ انھوں نے اس سے اپنے گھر کے ایک گوشے کو ڈھانپا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے پاس سے اپنا یہ پردہ ہٹا دو اس لیے کہ نماز میں اس کی تصویریں برابر میرے سامنے آتی ہیں۔“
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ریشمی جبہ (کوٹ، ایک قسم کا لباس جو کپڑوں کے اوپر سے پہنا جاتا ہے) ہدیہ کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہن لیا اور اس میں نماز پڑھی، پھر جب فارغ ہوئے تو اسے زور سے کھینچ کر اتار ڈالا، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے برا جانا اور فرمایا کہ پرہیزگاروں کو یہ زیبا نہیں ہے۔