-" إنا كنا نهيناكم عن لحومها ان تاكلوها فوق ثلاث لكي تسعكم، (فقد) جاء الله بالسعة فكلوا وادخروا واتجروا، الا وإن هذه الايام ايام اكل وشرب وذكر الله عز وجل".-" إنا كنا نهيناكم عن لحومها أن تأكلوها فوق ثلاث لكي تسعكم، (فقد) جاء الله بالسعة فكلوا وادخروا واتجروا، ألا وإن هذه الأيام أيام أكل وشرب وذكر الله عز وجل".
سیدنا نبیثہ ہذلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم نے تم کو (قربانیوں کا) گوشت تین دنوں (سے زیادہ ذخیرہ کر کے) کھانے سے اس لیے منع کیا تھا، کہ وہ سب کو مل جائے۔ اب اللہ تعالیٰ نے خوشحالی اور آسودگی پیدا کر دی ہے، لہٰذا ذخیرہ بھی کر سکتے ہو اور فائدہ بھی اٹھا سکتے ہو۔ آگاہ ہو جاؤ! بیشک یہ ایام کھانے پینے اور اللہ عزوجل کا ذکر کرنے کے لیے ہیں۔
- (كلوه من ذي الحجة إلى ذي الحجة. يعني: لحم الاضاحي).- (كُلُوهُ من ذِي الحجَّةِ إلى ذي الحجَّةِ. يعني: لحمَ الأضاحي).
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت سے، (چار قسم کے) برتنوں (کے استعمال) سے اور تین دنوں کے بعد قربانیوں کا گوشت ذخیرہ کرنے سے منع فرمایا۔ لیکن (کچھ عرصہ کے بعد) فرمایا: ”بلاشبہ میں نے تم لوگوں کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، لیکن (اب حکم دیتا ہوں کہ) ان کی زیارت کیا کرو، کیونکہ یہ آخرت یاد دلاتی ہیں اور میں نے تم کو (کچھ) برتنوں سے منع کیا تھا، لیکن (اب حکم دیتا ہوں کہ) ان کو مشروبات کے لیے استعمال کیا کرو اور نشہ دینے والی ہر چیز سے اجتناب کرو اور میں نے تم کو قربانیوں کا گوشت تین ایام سے زیادہ ذخیرہ کرنے سے منع کیا تھا، لیکن (اب کہتا ہوں کہ) جب تک چاہو، اپنے پاس گوشت روکے رکھو۔“
-" كنت نهيتكم عن لحوم الاضاحي فوق ثلاث ليتسع ذو الطول على من لا طول له، فكلوا ما بدا لكم، واطعموا وادخروا".-" كنت نهيتكم عن لحوم الأضاحي فوق ثلاث ليتسع ذو الطول على من لا طول له، فكلوا ما بدا لكم، وأطعموا وادخروا".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کسی سفر سے واپسی پر ہمارے پاس آئے، ہم نے (قربانی سے بچا ہوا کچھ گوشت) ان کو پیش کیا تاکہ وہ کھائیں، لیکن انہوں نے کہا: میں اس وقت تک نہیں کھاؤں گا، جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی بابت سوال نہ کر لوں۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(قربانیوں کا گوشت) اس ذوالحجہ سے اگلے ذوالحجہ تک کھا سکتے ہو۔“
سلیمان بن بریدہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں قربانیوں کا گوشت تین ایام سے زیادہ رکھنے سے اس لیے منع کرتا تھا کہ دولت مند لوگ غریبوں کو فائدہ پہنچا سکیں۔ اب (چونکہ خوشحالی ہے اس لیے) جب تک چاہو کھاتے رہو، کھلاتے رہو اور ذخیرہ کرتے رہو۔“
-" إنه اعظم للبركة. يعني الطعام الذي ذهب فوره ودخانه".-" إنه أعظم للبركة. يعني الطعام الذي ذهب فوره ودخانه".
سیدنا ابوسعیدی خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تین ایام کے بعد قربانیوں کا گوشت کھانے سے منع کیا تھا۔ میں ایک سفر پر گیا اور پھر اپنے گھر واپس آ گیا۔ یہ عید الاضحیٰ سے کچھ دنوں کے بعد کی بات ہے۔ میری بیوی ایک قسم کی سبزی «سلق»(چقندر) لائی اور اس میں خشک گوشت ڈالا ہو تھا۔ میں پوچھا: یہ گوشت کے پارچے کہاں سے آ گئے؟ اس نے کہا: اپنی قربانی کے ہیں۔ میں نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (قربانیوں کا گوشت) تین دنوں کے بعد کھانے سے منع نہیں کیا تھا۔ اس نے کہا:لیکن بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو رخصت دے دی تھی۔ لیکن میں نے اپنی بیوی کی تصدیق نہ کی اور اپنے بھائی قتادہ بن نعمان، جو بدری تھے، کی طرف پیغام بھیجا اور اس کی بابت پوچھا:؟ انہوں نے جواباً یہ پیغام بھیجا کہ آپ اپنا (گوشت والا) کھانا کھائیں، آپ کی بیوی سچی ہے، واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اس کی رخصت دے دی ہے۔
سیدنا اسما بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جب میں ثرید بناتی تھی تو اسے کچھ دیر تک ڈھانپ دیتی تھی، تاکہ اس کی گرمی کی شدت اور دھواں جاتا رہے۔ پھر وہ کہتی تھیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”یہ برکت کے لیے بڑی عظیم چیز ہے۔“
-" بيت لا تمر فيه، كالبيت لا طعام فيه".-" بيت لا تمر فيه، كالبيت لا طعام فيه".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ صحابہ نے ایک بکری ذبح کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کتنا گوشت باقی بچا ہے؟“ میں (عائشہ رضی اللہ عنہا) نے کہا: ایک دستی کے علاوہ کچھ بھی نہیں بچا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اس کا مطلب یہ ہوا کہ) سارے کا سارا گوشت بچ گیا ہے، سوائے ایک دستی کے۔“
-" ما اقفر من ادم بيت فيه خل".-" ما أقفر من أدم بيت فيه خل".
سیدہ سیدہ سلمی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس گھر میں کھجور نہ ہو، وہ اس گھر کی مانند ہے جس میں کوئی کھانا نہ ہو۔“
-" خير تمراتكم البرني، يذهب بالداء ولا داء فيه".-" خير تمراتكم البرني، يذهب بالداء ولا داء فيه".
سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور پوچھا: ”تیرے پاس (کھانے کے لیے) کوئی چیز ہے؟ میں نے کہا: کچھ بھی نہیں، بس کچھ خشک ٹکڑے اور سرکہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس گھر میں سرکہ ہو اسے سالن سے خالی نہیں کہا جا سکتا۔“