شمائل ترمذي کل احادیث 417 :حدیث نمبر
شمائل ترمذي
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانے کے وقت وضوء کے طریقے کا بیان
1. کھانے سے پہلے کونسا وضو مستحب ہے؟
حدیث نمبر: 184
Save to word مکررات اعراب
حدثنا احمد بن منيع قال: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن ايوب، عن ابن ابي مليكة، عن ابن عباس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج من الخلاء فقرب إليه الطعام فقالوا: الا ناتيك بوضوء؟ قال: «إنما امرت بالوضوء إذا قمت إلى الصلاة» حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنَ الْخَلَاءِ فَقُرِّبَ إِلَيْهِ الطَّعَامُ فَقَالُوا: أَلَا نَأْتِيكَ بِوَضُوءٍ؟ قَالَ: «إِنَّمَا أُمِرْتُ بِالْوُضُوءِ إِذَا قُمْتُ إِلَى الصَّلَاةِ»
‏‏‏‏‏‏‏‏سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ‏‏‏‏وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے باہر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا پیش کیا گیا، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین عرض کرنے لگے: کیا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وضو کاپانی نہ لے آئیں؟ (تا کہ آپ وضو کر لیں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے وضو کرنے کا حکم اس وقت دیا گیا ہے جب میں نماز کے لیے اٹھوں۔

تخریج الحدیث: «سندہ صحیح» :
«سنن ترمذي:1847، وقال:حسن. سنن ابي داود: 3760، سنن النسائي: 132، صحيح ابن خزيمه: 35 و حسنه البغوي فى شرح السنة: 2835. نيز ديكهئے آنے والي حديث: 185»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح
2. کھانے کے لیے شرعی وضو ضروری نہیں
حدیث نمبر: 185
Save to word مکررات اعراب
حدثنا سعيد بن عبد الرحمن المخزومي قال: حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو بن دينار، عن سعيد بن الحويرث، عن ابن عباس قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم من الغائط فاتي بطعام، فقيل له: الا تتوضا؟ فقال: «ااصلي فاتوضا» حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْغَائِطِ فَأُتِيَ بِطَعَامٍ، فَقِيلَ لَهُ: أَلَا تَتَوَضَّأُ؟ فَقَالَ: «أَأُصَلِّي فَأَتَوَضَّأُ»
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ انہوں نے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کی جگہ نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانا لایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا آپ وضو فرمائیں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں نماز پڑھنے لگا ہوں جو وضو کروں۔

تخریج الحدیث: «سنده صحيح» :
«سنن ترمذي: 1847، تعليقا مختصرا. صحيح مسلم: 374، (دارالسلام:827)»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح
3. کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا باعث برکت ہے
حدیث نمبر: 186
Save to word مکررات اعراب
حدثنا يحيى بن موسى قال: حدثنا عبد الله بن نمير قال: حدثنا قيس بن الربيع، (ح) وحدثنا قتيبة قال: حدثنا عبد الكريم الجرجاني، عن قيس بن الربيع، عن ابي هاشم، عن زاذان، عن سلمان قال: قرات في التوراة ان بركة الطعام الوضوء بعده، فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، واخبرته بما قرات في التوراة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «بركة الطعام الوضوء قبله والوضوء بعده» حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ، (ح) وَحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْكَرِيمِ الْجُرْجَانِيُّ، عَنْ قَيْسِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ، عَنْ زَاذَانَ، عَنْ سَلْمَانَ قَالَ: قَرَأْتُ فِي التَّوْرَاةِ أَنَّ بَرَكَةَ الطَّعَامِ الْوُضُوءُ بَعْدَهُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَرَأْتُ فِي التَّوْرَاةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَرَكَةُ الطَّعَامِ الْوُضُوءُ قَبْلَهُ وَالْوُضُوءُ بَعْدَهُ»
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: میں نے توراۃ میں پڑھا کہ کھانا کھانے کے بعد وضو کرنا (اصطلاحی وضو مراد نہیں بلکہ ہاتھ دھونا اور کلی کرنا مراد ہے) برکت کا سبب ہے، یہ بات میں نے نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیان کی، تو رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد وضو کرنا برکت کا باعث ہے۔ یہ حدیث صرف قیس بن ربیع کے طریق سے پہچانی جاتی ہے اور وہ حدیث میں ضعیف ہے۔

تخریج الحدیث: «سنده ضعيف» :
«سنن ترمذي: 1846. وقال: وقيس يضعف فى الحديث. سنن ابي داود: 3761 وقال ابوداود: وهو ضعيف.» اس روایت کا راوی قیس بن الربیع جمہور محدثین کے نزدیک بُرے حافظے کی وجہ سے ضعیف تھا، لہٰذا یہ سند ضعیف ہے۔ نیز دیکھئے: [انوار الصحيفه ص 123]

قال الشيخ زبير على زئي: سنده ضعيف


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.