163- مالك عن ربيعة عن يزيد مولى المنبعث عن زيد بن خالد الجهني انه قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فساله عن اللقطة، فقال: ”اعرف عفاصها ووكاءها ثم عرفها سنة، فإن جاء صاحبها وإلا فشانك بها.“ قال: فضالة الغنم؟ قال: لك او لاخيك او للذئب. قال: فضالة الإبل؟ قال: ”ما لك ولها، معها سقاؤها وحذاؤها، ترد الماء وتاكل الشجر حتى يلقاها ربها.“163- مالك عن ربيعة عن يزيد مولى المنبعث عن زيد بن خالد الجهني أنه قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فسأله عن اللقطة، فقال: ”اعرف عفاصها ووكاءها ثم عرفها سنة، فإن جاء صاحبها وإلا فشأنك بها.“ قال: فضالة الغنم؟ قال: لك أو لأخيك أو للذئب. قال: فضالة الإبل؟ قال: ”ما لك ولها، معها سقاؤها وحذاؤها، ترد الماء وتأكل الشجر حتى يلقاها ربها.“
سیدنا زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور لقطے (گمشدہ چیز) کے بارے میں پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی تھیلی وغیرہ اور اس کے بندھے ہوئے دھاگے کو (اچھی طرح) پہچان لو، پھر ایک سال تک اس کا اعلان کرو، پھر جب اس کا مالک آ جائے تو دے دو ورنہ اسے خود استعمال کر لو۔“ اس نے پوچھا: اگر گمشدہ بکری مل جائے تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تیرے لئے اور تیرے بھائی کے لئے ہے یا پھر اسے بھیڑیا کھا جائے گا۔“ اس نے پوچھا: اگر گمشدہ اونٹ مل جائے تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے بارے میں تجھے کیا ہے؟ اس کا پانی اور چلنے والے جوتے اس کے پاس ہیں، وہ پانی پئے گا اور درختوں سے کھائے گا حتیٰ کہ اس کا مالک اسے مل جائے۔“
تخریج الحدیث: «163- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 757/2 ح 1520، ك 36 ب 38 ح 46) التمهيد 106/3، 107، الاستذكار:1449، و أخرجه البخاري (2429) ومسلم (1722) من حديث مالك به.»