قال: و اخبرني محمد بن إسماعيل، حدثني يحيى بن معين، حدثنا عفان، عن ابي عوانة، قال: لما مات الحسن البصري اشتهيت كلامه؛ فتتبعته عن اصحاب الحسن؛ فاتيت به ابان بن ابي عياش؛ فقراه علي كله عن الحسن فما استحل ان اروي عنه شيئا.قَالَ: و أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، قَالَ: لَمَّا مَاتَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ اشْتَهَيْتُ كَلَامَهُ؛ فَتَتَبَّعْتُهُ عَنْ أَصْحَابِ الْحَسَنِ؛ فَأَتَيْتُ بِهِ أَبَانَ بْنَ أَبِي عَيَّاشٍ؛ فَقَرَأَهُ عَلَيَّ كُلَّهُ عَنْ الْحَسَنِ فَمَا أَسْتَحِلُّ أَنْ أَرْوِيَ عَنْهُ شَيْئًا.
ابوعوانہ کہتے ہیں: جب حسن بصری کا انتقال ہو گیا تو مجھے ان کے اقوال جاننے کی خواہش ہوئی، میں نے اصحاب حسن بصری کی تلاش کی، ابان بن ابی عیاش کے پاس آیا تو اس نے ہم پر احادیث پڑھیں سب کی سب حسن بصری سے تھیں، میں ان میں سے کچھ بھی روایت کرنا حلال نہیں سمجھتا۔
قال ابو عيسى: قد روى عن ابان بن ابي عياش غير واحد من الائمة، وإن كان فيه من الضعف والغفلة ما وصفه ابو عوانة وغيره فلا يغتر برواية الثقات عن الناس لانه يروى عن ابن سيرين انه قال: إن الرجل يحدثني فما اتهمه، ولكن اتهم من فوقه.قَالَ أَبُو عِيسَى: قَدْ رَوَى عَنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ، وَإِنْ كَانَ فِيهِ مِنْ الضَّعْفِ وَالْغَفْلَةِ مَا وَصَفَهُ أَبُو عَوَانَةَ وَغَيْرُهُ فَلا يُغْتَرُّ بِرِوَايَةِ الثِّقَاتِ عَنْ النَّاسِ لأَنَّهُ يُرْوَى عَنْ ابْنِ سِيرِينَ أنَّه قَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ يُحَدِّثُنِي فَمَا أَتَّهِمُهُ، وَلَكِنْ أَتَّهِمُ مَنْ فَوْقَهُ.
امام ترمذی کہتے ہیں: ابان بن ابی عیاش سے غفلت اور ضعف کے باوجود کئی ائمہ نے روایت کی ہے، جیسا کہ ابوعوانہ وغیرہ نے کہا ہے، پس اگر ثقات لوگوں سے روایت کریں تو اس سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیئے اس لیے کہ ابن سیرین سے مروی ہے کہ آدمی مجھ سے حدیث بیان کرتا ہے، تو میں اسے متہم نہیں کرتا، بلکہ اس سے اوپر کے راوی کو متہم کرتا ہوں۔
وقد روى غير واحد عن إبراهيم النخعي، عن علقمة، عن عبد الله بن مسعود ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يقنت في وتره قبل الركوع.وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْنُتُ فِي وِتْرِهِ قَبْلَ الرُّكُوعِ.
کئی لوگوں سے سے روایت ہے کہ ابراہیم نخعی علقمہ سے روایت کرتے ہیں اور علقمہ، عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے پہلے وتر میں قنوت پڑھتے تھے۔
وروى ابان بن ابي عياش، عن إبراهيم النخعي، عن علقمة، عن عبد الله بن مسعود ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يقنت في وتره قبل الركوع. هكذا روى سفيان الثوري عن ابان بن ابي عياش.وَرَوَى أَبَانُ بْنُ أَبِي عَيَّاشٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْنُتُ فِي وِتْرِهِ قَبْلَ الرُّكُوعِ. هَكَذَا رَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ.
اور ابان ابن ابی عیاش سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے پہلے وتر میں قنوت پڑھتے تھے، سفیان ثوری نے ابان بن ابی عیاش سے ایسے ہی روایت کی ہے۔
قال ابو عيسى: وابان بن ابي عياش، وإن كان قد وصف بالعبادة والاجتهاد؛ فهذه حاله في الحديث؛ والقوم كانوا اصحاب حفظ فرب رجل وإن كان صالحا لا يقيم الشهادة، ولا يحفظها؛ فكل من كان متهما في الحديث بالكذب او كان مغفلا يخطئ الكثير؛ فالذي اختاره اكثر اهل الحديث من الائمة ان لا يشتغل بالرواية عنه، الا ترى ان عبد الله بن المبارك حدث عن قوم من اهل العلم؛ فلما تبين له امرهم ترك الرواية عنهم.قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبَانُ بْنُ أَبِي عَيَّاشٍ، وَإِنْ كَانَ قَدْ وُصِفَ بِالْعِبَادَةِ وَالاجْتِهَادِ؛ فَهَذِهِ حَالُهُ فِي الْحَدِيثِ؛ وَالْقَوْمُ كَانُوا أَصْحَابَ حِفْظٍ فَرُبَّ رَجُلٍ وَإِنْ كَانَ صَالِحًا لا يُقِيمُ الشَّهَادَةَ، وَلا يَحْفَظُهَا؛ فَكُلُّ مَنْ كَانَ مُتَّهَمًا فِي الْحَدِيثِ بِالْكَذِبِ أَوْ كَانَ مُغَفَّلا يُخْطِئُ الْكَثِيرَ؛ فَالَّذِي اخْتَارَهُ أَكْثَرُ أَهْلِ الْحَدِيثِ مِنْ الأَئِمَّةِ أَنْ لا يُشْتَغَلَ بِالرِّوَايَةِ عَنْهُ، أَلا تَرَى أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْمُبَارَكِ حَدَّثَ عَنْ قَوْمٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ؛ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَمْرُهُمْ تَرَكَ الرِّوَايَةَ عَنْهُمْ.
ترمذی کہتے ہیں: ابان بن ابی عیاش اگرچہ عبادت اور زہد و ریاضت کے وصف سے متصف ہیں، لیکن حدیث میں ان کا یہ حال ہے اور محدثین کی جماعت حفظ والی تھی، تو کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی نیک اور صالح ہوتا ہے، لیکن نہ وہ شہادت دے سکتا ہے، اور نہ اسے یاد رکھتا ہے تو ہر متہم بالکذب راوی یا مغفل راوی جو کثرت سے غلطیاں کرتا ہے، اہل حدیث کی اکثریت کے مختار مذہب میں ایسے راویوں سے حدیث نہیں روایت کی جائے گی۔ کیا یہ نہیں دیکھتے ہو کہ عبداللہ بن المبارک نے اہل علم کی ایک جماعت سے حدیث روایت کی تھی لیکن ان کے حالات کے واضح ہونے جانے پر ان سے روایت ترک کر دی۔
اخبرني موسى بن حزام قال: سمعت صالح بن عبدالله يقول: كنا عند ابي مقاتل السمرقندي؛ فجعل يروي عن عون بن ابي شداد الاحاديث الطوال التي كان يروي في وصية لقمان، وقتل سعيد بن جبير وما اشبه هذه الاحاديث؛ فقال له ابن اخي ابي مقاتل: يا عم! لا تقل: حدثنا عون؛ فإنك لم تسمع هذه الاشيائ. قال: يا بني! هو كلام حسن.أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ حِزَامٍ قَال: سَمِعْتُ صَالِحَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ يَقُولُ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي مُقَاتِلٍ السَّمَرْقَنْدِيِّ؛ فَجَعَلَ يَرْوِي عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي شَدَّادٍ الأَحَادِيثَ الطِّوَالَ الَّتِي كَانَ يَرْوِي فِي وَصِيَّةِ لُقْمَانَ، وَقَتْلِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَمَا أَشْبَهَ هَذِهِ الأَحَادِيثَ؛ فَقَالَ لَهُ ابْنُ أَخٍي أَبِي مُقَاتِلٍ: يَا عَمِّ! لا تَقُلْ: حَدَّثَنَا عَوْنٌ؛ فَإِنَّكَ لَمْ تَسْمَعْ هَذِهِ الأَشْيَائَ. قَالَ: يَا بُنَيَّ! هُوَ كَلامٌ حَسَنٌ.
صالح بن عبداللہ ترمذی کہتے ہیں: ہم ابومقاتل سمرقندی کے پاس تھے، تو وہ لقمان کی وصیت، اور سعید بن جبیر کے قتل سے متعلق لمبی لمبی احادیث اور اس طرح کی چیزیں عون بن ابی شداد سے روایت کرنے لگے، ابومقاتل کے بھتیجے نے ان سے کہا: چچا! یہ نہ کہیں کہ ہم سے عون نے حدیث بیان کی ہے، کیونکہ واقعہ یہ ہے آپ نے ان سے کچھ بھی نہیں سنا ہے، کہا: بیٹے! یہ اچھا کلام ہے۔
وسمعت الجارود يقول: كنا عند ابي معاوية فذكر له حديث ابي مقاتل، عن سفيان الثوري، عن الاعمش، عن ابي ظبيان، قال: سئل علي عن كور الزنابير، قال: لا باس به هو بمنزلة صيد البحر. فقال ابو معاوية: ما اقول: إن صاحبكم كذاب، ولكن هذا الحديث كذب.وسمعتُ الجارودَ يقولُ: كنَّا عندَ أبي معاويةَ فذُكِرَ له حديث أبي مقاتلٍ، عن سفيانَ الثوريِّ، عن الأعمشِ، عن أبي ظبيانَ، قالَ: سُئلَ علي عن كور الزنابيرِ، قالَ: لا بأسَ به هو بمنزلةِ صيدِ البحرِ. فقال أبو معاوية: ما أقولُ: إن صاحبَكم كذاب، ولكن هذا الحديث كذبٌ.
ترمذی کہتے ہیں: میں نے جارود کو کہتے سنا: ہم ابومعاویہ کے پاس تھے تو ان سے ابومقاتل کی حدیث کا ذکر کیا گیا کہ ابومقاتل نے سفیان ثوری سے روایت کی ہے اور ثوری نے اعمش سے اور اعمش نے ابوظبیان سے، ابوظبیان کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ سے بھڑوں کے چھتے کے بارے میں سوال گیا تو آپ نے کہا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ سمندری شکار کی طرح ہے، ابومعاویہ نے کہا: میں یہ نہیں کہوں گا کہ تمہارے ساتھی (یعنی ابومقاتل) کذاب ہیں، لیکن یہ حدیث جھوٹ ہے۔
وقد تكلم بعض اهل الحديث في قوم من اجلة اهل العلم، وضعفوهم من قبل حفظهم، ووثقهم آخرون من الائمة لجلالتهم وصدقهم وإن كانوا قد وهموا في بعض ما رووا.وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ فِي قَوْمٍ مِنْ أَجِلَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَضَعَّفُوهُمْ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِمْ، وَوَثَّقَهُمْ آخَرُونَ مِنْ الأَئِمَّةِ لجَلالَتِهِمْ وَصِدْقِهِمْ وَإِنْ كَانُوا قَدْ وَهِمُوا فِي بَعْضِ مَا رَوَوْا.
بعض اہل حدیث نے جلیل القدر اہل علم کی ایک جماعت پر جرح کی، حافظہ کی خرابی کی وجہ سے ان کو ضعیف قرار دیا، جب کہ دوسرے ائمہ نے ان کے صدق اور جلالت شان کی وجہ سے ان کی توثیق کی گرچہ ان کی بعض روایات میں اوہام ہیں۔
وقد تكلم يحيى بن سعيد القطان في محمد بن عمرو، ثم روى عنه.وقَدْ تَكَلَّمَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ فِي مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، ثُمَّ رَوَى عَنْهُ.
یحیی بن سعید القطان نے محمد بن عمرو پر کلام کیا، پھر ان سے روایت کی۔