كل حديث يروى لا يكون في إسناده من يتهم بالكذب، ولا يكون الحديث شاذا، ويروى من غير وجه نحو ذاك؛ فهو عندنا حديث حسن.كُلُّ حَدِيثٍ يُرْوَى لا يَكُونُ فِي إِسْنَادِهِ مَنْ يُتَّهَمُ بِالْكَذِبِ، وَلا يَكُونُ الْحَدِيثُ شَاذًّا، وَيُرْوَى مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ نَحْوَ ذَاكَ؛ فَهُوَ عِنْدَنَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ہر وہ حدیث جس کی سند میں متہم بالکذب راوی نہ ہو اور نہ وہ شاذ ہو اور وہ دوسرے طرق سے مروی ہو تو یہ ہمارے نزدیک ”حسن“ ہے ۱؎۔
وما ذكرنا في هذا الكتاب"حديث غريب" فإن اهل الحديث يستغربون الحديث لمعان:وَمَا ذَكَرْنَا فِي هَذَا الْكِتَابِ"حَدِيثٌ غَرِيبٌ" فَإِنَّ أَهْلَ الْحَدِيثِ يَسْتَغْرِبُونَ الْحَدِيثَ لِمَعَانٍ:
اور ہم نے اس کتاب میں جن احادیث کو ”غریب“ کہا ہے تو اہل حدیث کے نزدیک ”غریب حدیث“ کے مختلف معانی ہیں:
1- رب حديث يكون غريبا لا يروى إلا من وجه واحد مثل حديث حماد بن سلمة عن ابي العشرائ عن ابيه قال: قلت يا رسول الله! اما تكون الذكاة إلا في الحلق واللبة؟ فقال:"لو طعنت في فخذها اجزا عنك".1- رُبَّ حَدِيثٍ يَكُونُ غَرِيبًا لا يُرْوَى إِلا مِنْ وَجْهٍ وَاحِدٍ مِثْلُ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي الْعُشَرَائِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَمَا تَكُونُ الذَّكَاةُ إِلا فِي الْحَلْقِ وَاللِّبَّةِ؟ فَقَالَ:"لَوْ طَعَنْتَ فِي فَخِذِهَا أَجْزَأَ عَنْكَ".
۱- کبھی حدیث کی غرابت یہ ہوتی ہے کہ وہ صرف ایک سند سے مروی ہوتی ہے جیسے حماد بن سلمہ کی حدیث جس کو وہ ابوالعشرا ء سے روایت کرتے ہیں، اور وہ اپنے باپ سے، عشراء کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول: کیا ذبح کی جگہ صرف حلق اور گردن ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ”اگر تم اس کی ران میں زخم لگاؤ گے تو یہ بھی کافی ہو گا۔“
فهذا حديث تفرد به حماد بن سلمة، عن ابي العشرائ، ولا يعرف لابي العشرائ، عن ابيه إلا هذا الحديث، وإن كان هذا الحديث مشهورا عند اهل العلم؛ وإنما اشتهر من حديث حماد بن سلمة، لا نعرفه إلا من حديثه.فَهَذَا حَدِيثٌ تَفَرَّدَ بِهِ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الْعُشَرَائِ، وَلا يُعْرَفُ لأَبِي الْعُشَرَائِ، عَنْ أَبِيهِ إِلا هَذَا الْحَدِيثُ، وَإِنْ كَانَ هَذَا الْحَدِيثُ مَشْهُورًا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ؛ وَإِنَّمَا اشْتُهِرَ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِهِ.
حماد بن سلمہ اس حدیث کی ابوالعشراء سے روایت میں منفرد ہیں، ابوالعشراء کی اپنے والد سے صرف یہی ایک حدیث معروف ہے، گرچہ اہل علم کے نزدیک یہ حدیث مشہور ہے، اور یہ صرف حماد بن سلمہ کی حدیث سے مشہور ہے، ہمیں اس کا علم صرف انہیں کی حدیث سے ہے۔
2-ورب رجل من الائمة يحدث بالحديث لا يعرف إلا من حديثه، فيشتهر الحديث لكثرة من روى عنه مثل ما روى عبد الله بن دينار، عن ابن عمر"ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الولائ وعن هبته". وهذا حديث لا نعرفه إلا من حديث عبدالله بن دينار، رواه عنه عبيد الله بن عمر، وشعبة، وسفيان الثوري، ومالك بن انس، وابن عيينة، وغير واحد من الائمة.2-وَرُبَّ رَجُلٍ مِنْ الأَئِمَّةِ يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ لا يُعْرَفُ إِلا مِنْ حَدِيثِهِ، فَيَشْتَهِرُ الْحَدِيثُ لِكَثْرَةِ مَنْ رَوَى عَنْهُ مِثْلُ مَا رَوَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعِ الْوَلائِ وَعَنْ هِبَتِهِ". وَهَذَا حَدِيثٌ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، رَوَاهُ عَنْهُ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَشُعْبَةُ، وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ.
۲- اور کبھی کوئی امام حدیث ایک حدیث روایت کرتا ہے، جو صرف اسی امام کی حدیث سے معروف ہوتی ہے، اور حدیث کی شہرت اس سے روایت کرنے والوں کی کثرت کی وجہ سے ہوتی ہے، جیسے عبداللہ بن دینار کی روایت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاء کی خرید و فروخت اور ہبہ سے منع کیا ہے، اس حدیث کو ہم صرف عبداللہ بن دینار ہی کی روایت سے جانتے ہیں، اور ان سے روایت عبیداللہ بن عمر، شعبہ، سفیان ثوری، مالک بن انس، سفیان بن عیینہ اور دوسرے کئی ائمہ نے کی ہے۔
وروى يحيى بن سليم هذا الحديث عن عبيدالله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر؛ فوهم فيه يحيى بن سليم، والصحيح هو"عن عبيدالله بن عمر، عن عبدالله بن دينار، عن ابن عمر". هكذا روى عبد الوهاب الثقفي، وعبدالله بن نمير، عن عبيدالله بن عمر عن عبدالله بن دينار، عن ابن عمر، وروى المؤمل هذا الحديث عن شعبة فقال شعبة: لوددت ان عبد الله بن دينار اذن لي حتى كنت اقوم إليه فاقبل راسه.وَرَوَى يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ؛ فَوَهِمَ فِيهِ يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، وَالصَّحِيحُ هُوَ"عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ". هَكَذَا رَوَى عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَرَوَى الْمُؤَمِّلُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ شُعْبَةَ فَقَالَ شُعْبَةُ: لَوَدِدْتُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ دِينَارٍ أَذِنَ لِي حَتَّى كُنْتُ أَقُومُ إِلَيْهِ فَأُقَبِّلُ رَأْسَهُ.
یحیی بن سلیم نے اس حدیث کی روایت بسند «عبیداللہ بن عمر عن نافع عن ابن عمر» کی ہے، یحییٰ بن سلیم کو اس روایت میں وہم ہو گیا ہے، صحیح بسند «عبیداللہ بن عمر عن عبداللہ بن دینار عن ابن عمر» ہی ہے۔ ایسے ہی اس حدیث کی روایت عبدالوہاب ثقفی اور عبداللہ بن نمیر نے بسند «عبیداللہ بن عمر عن عبداللہ بن دینار عن ابن عمر» کی ہے۔ مؤمل نے اس حدیث کی روایت شعبہ سے کی ہے، شعبہ کہتے ہیں: مجھے یہ پسند ہے کہ عبداللہ بن دینار مجھے اجازت دیں کہ میں ان کے پاس اٹھ کر آؤں اور ان کا سر چوم لوں۔
وإنما يصح إذا كانت الزيادة ممن يعتمد على حفظه مثل ما روى مالك بن انس، عن نافع، عن ابن عمر قال:"فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر من رمضان على كل حر او عبد ذكر او انثى من المسلمين صاعا من تمر او صاعا من شعير".وَإِنَّمَا يَصِحُّ إِذَا كَانَتْ الزِّيَادَةُ مِمَّنْ يُعْتَمَدُ عَلَى حِفْظِهِ مِثْلُ مَا رَوَى مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ:"فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ عَلَى كُلِّ حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى مِنْ الْمُسْلِمِينَ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ".
الفاظ کی زیادتی اس وقت صحیح ہو گی جب یہ حفظ کے اعتبار سے قابل اعتماد راوی کی روایت سے ہو جیسے مالک بن انس کی بسند «نافع عن ابن عمر» روایت کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں زکاۃ فطر ہر مسلمان آزاد اور غلام مرد اور عورت سب پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض ہے۔
وروى ايوب السختياني، وعبيد الله بن عمر، وغير واحد من الائمة هذا الحديث عن نافع، عن ابن عمر. ولم يذكروا فيه:"من المسلمين".وَرَوَى أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ. وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ:"مِنْ الْمُسْلِمِينَ".
ایوب سختیانی، عبیداللہ بن عمر اور کئی ائمہ حدیث نے اس حدیث کو بسند «نافع عن ابن عمر» روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے اس میں «من المسلمین» کا لفظ نہیں ذکر کیا۔