سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: فضائل و مناقب
Chapters on Virtues
حدیث نمبر: 3878
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن زنجويه، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن قتادة، عن انس رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " حسبك من نساء العالمين: مريم ابنة عمران، وخديجة بنت خويلد، وفاطمة بنت محمد، وآسية امراة فرعون ". قال ابو عيسى: هذا حديث صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ زَنْجُوَيْهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " حَسْبُكَ مِنْ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ: مَرْيَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ، وَخَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ، وَآسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ساری دنیا کی عورتوں میں سے تمہیں مریم بنت عمران، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد، اور فرعون کی بیوی آسیہ کافی ہیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1346) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی یہ چاروں عورتیں ساری دنیا کی عورتوں سے افضل ہیں اور پیروی و اقتداء کے لائق ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (6181)
63. باب فَضْلِ عَائِشَةَ رضى الله عنها
63. باب: ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کی فضیلت کا بیان
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3879
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا يحيى بن درست بصري، حدثنا حماد بن زيد، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: كان الناس يتحرون بهداياهم يوم عائشة، قالت: فاجتمع صواحباتي إلى ام سلمة، فقلن: يا ام سلمة إن الناس يتحرون بهداياهم يوم عائشة , وإنا نريد الخير كما تريد عائشة فقولي لرسول الله صلى الله عليه وسلم يامر الناس يهدون إليه اينما كان، فذكرت ذلك ام سلمة , فاعرض عنها ثم عاد إليها , فاعادت الكلام , فقالت: يا رسول الله إن صواحباتي قد ذكرن ان الناس يتحرون بهداياهم يوم عائشة , فامر الناس يهدون اينما كنت، فلما كانت الثالثة قالت ذلك، قال: " يا ام سلمة لا تؤذيني في عائشة , فإنه ما انزل علي الوحي وانا في لحاف امراة منكن غيرها ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وقد روى بعضهم هذا الحديث عن حماد بن زيد، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا، وقد روي عن هشام بن عروة هذا الحديث، عن عوف بن الحارث، عن رميثة، عن ام سلمة شيئا من هذا، وهذا حديث قد روي عن هشام بن عروة على روايات مختلفة، وقد روى سليمان بن بلال، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة نحو حديث حماد بن زيد.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ دُرُسْتَ بَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ النَّاسُ يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَاجْتَمَعَ صَوَاحِبَاتِي إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَقُلْنَ: يَا أُمَّ سَلَمَةَ إِنَّ النَّاسَ يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ , وَإِنَّا نُرِيدُ الْخَيْرَ كَمَا تُرِيدُ عَائِشَةُ فَقُولِي لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرِ النَّاسَ يُهْدُونَ إِلَيْهِ أَيْنَمَا كَانَ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ أُمُّ سَلَمَةَ , فَأَعْرَضَ عَنْهَا ثُمَّ عَادَ إِلَيْهَا , فَأَعَادَتِ الْكَلَامَ , فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ صَوَاحِبَاتِي قَدْ ذَكَرْنَ أَنَّ النَّاسَ يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ , فَأْمُرِ النَّاسَ يُهْدُونَ أَيْنَمَا كُنْتَ، فَلَمَّا كَانَتِ الثَّالِثَةُ قَالَتْ ذَلِكَ، قَالَ: " يَا أُمَّ سَلَمَةَ لَا تُؤْذِينِي فِي عَائِشَةَ , فَإِنَّهُ مَا أُنْزِلَ عَلَيَّ الْوَحْيُ وَأَنَا فِي لِحَافِ امْرَأَةٍ مِنْكُنَّ غَيْرِهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ هَذَا الْحَدِيثُ، عَنْ عَوْفِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ رُمَيْثَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ شَيْئًا مِنْ هَذَا، وَهَذَا حَدِيثٌ قَدْ رُوِيَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَلَى رِوَايَاتٍ مُخْتَلِفَةٍ، وَقَدْ رَوَى سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ نَحْوَ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ لوگ اپنے ہدئیے تحفے بھیجنے کے لیے عائشہ رضی الله عنہا کے دن (باری کے دن) کی تلاش میں رہتے تھے، تو میری سوکنیں سب ام سلمہ رضی الله عنہا کے یہاں جمع ہوئیں، اور کہنے لگیں: ام سلمہ! لوگ اپنے ہدایا بھیجنے کے لیے عائشہ رضی الله عنہا کے دن کی تلاش میں رہتے ہیں اور ہم سب بھی خیر کی اسی طرح خواہاں ہیں جیسے عائشہ ہیں، تو تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر کہو کہ آپ لوگوں سے کہہ دیں کہ آپ جہاں بھی ہوں (یعنی جس کے یہاں بھی باری ہو) وہ لوگ وہیں آپ کو ہدایا بھیجا کریں، چنانچہ ام سلمہ نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے اعراض کیا، اور ان کی بات کی طرف کوئی توجہ نہیں دی، پھر آپ ان کی طرف پلٹے تو انہوں نے اپنی بات پھر دہرائی اور بولیں: میری سوکنیں کہتی ہیں کہ لوگ اپنے ہدایا کے لیے عائشہ کی باری کی تاک میں رہتے ہیں تو آپ لوگوں سے کہہ دیں کہ آپ جہاں بھی ہوں وہ ہدایا بھیجا کریں، پھر جب انہوں نے تیسری بار آپ سے یہی کہا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ام سلمہ تم عائشہ کے سلسلہ میں مجھے نہ ستاؤ کیونکہ عائشہ کے علاوہ تم سب میں سے کوئی عورت ایسی نہیں جس کے لحاف میں مجھ پر وحی اتری ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- بعض راویوں نے اس حدیث کو حماد بن زید سے، حماد نے ہشام بن عروہ سے اور ہشام نے اپنے باپ عروہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کیا ہے،
۳- یہ حدیث ہشام بن عروہ کے طریق سے عوف بن حارث سے بھی آئی ہے جسے عوف بن حارث نے رمیثہ کے واسطہ سے ام سلمہ رضی الله عنہا سے اس کا کچھ حصہ روایت کیا ہے، ہشام بن عروہ سے مروی یہ حدیث مختلف طریقوں سے آئی ہے،
۴- سلیمان بن بلال نے بھی بطریق: «هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة» حماد بن زید کی حدیث کی طرح روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الھبة 7 (2574)، و8 (2580، 2581)، وفضائل الصحابة 30 (3775)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 13 (2441)، سنن النسائی/عشرة النساء 3 (3396) (تحفة الأشراف: 16861)، و مسند احمد (6/293) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: صحیح بخاری میں کعب بن مالک رضی الله عنہ کی توبہ کی قبولیت کی وحی کے بارے میں آیا ہے کہ یہ وحی ام سلمہ رضی الله عنہا کے گھر میں نازل ہوئی، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اور ام سلمہ رضی الله عنہا ایک ہی لحاف میں تھے، لحاف میں وحی نازل ہونے کی خصوصیت صرف عائشہ رضی الله عنہا کی ہے، اور یہ بہت بڑی فضیلت کی بات ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3880
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، اخبرنا عبد الرزاق، عن عبد الله بن عمرو بن علقمة المكي، عن ابن ابي حسين، عن ابن ابي مليكة، عن عائشة، ان جبريل جاء بصورتها في خرقة حرير خضراء إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " إن هذه زوجتك في الدنيا والآخرة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث عبد الله بن عمرو بن علقمة، وقد روى عبد الرحمن بن مهدي هذا الحديث، عن عبد الله بن عمرو بن علقمة بهذا الإسناد مرسلا، ولم يذكر فيه عن عائشة، وقد روى ابو اسامة، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم شيئا من هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ الْمَكِّيِّ، عَنِ ابْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ جِبْرِيلَ جَاءَ بِصُورَتِهَا فِي خِرْقَةِ حَرِيرٍ خَضْرَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " إِنَّ هَذِهِ زَوْجَتُكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ، وَقَدْ رَوَى عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مُرْسَلًا، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَائِشَةَ، وَقَدْ رَوَى أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا مِنْ هَذَا.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام ایک سبز ریشم کے ٹکڑے پر ان کی تصویر لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور کہا: یہ آپ کی بیوی ہیں، دنیا اور آخرت دونوں میں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف عبداللہ بن عمرو بن علقمہ کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- عبدالرحمٰن بن مہدی نے اس حدیث کو عبداللہ بن عمرو بن علقمہ سے اسی سند سے مرسلاً روایت کیا ہے اور اس میں عائشہ سے روایت کا ذکر نہیں کیا ہے،
۳- ابواسامہ نے اس حدیث کے کچھ حصہ کو ہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنے باپ سے، انہوں نے عائشہ رضی الله عنہا سے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 16258) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ تصویر کی حرمت سے پہلے کا ہو، کیونکہ اللہ نے ہر طرح کے جاندار کی تصویر کو حرام کر دیا ہے، یا یہ اللہ کے خاص حکم سے جبرائیل علیہ السلام کا کام تھا جس کا تعلق عام انسانوں سے نہیں ہے، عام انسانوں کے لیے وہی حرمت والا معاملہ ہے، واللہ اعلم۔
۲؎: یہ روایت صحیح بخاری کتاب النکاح باب رقم ۵اور باب رقم: ۳۵ میں آئی ہے، اس میں جبرائیل کی بجائے صرف فرشتہ کا لفظ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3881
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا سويد بن نصر، حدثنا عبد الله بن المبارك، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا عائشة هذا جبريل وهو يقرا عليك السلام "، قالت: قلت: وعليه السلام ورحمة الله وبركاته ترى ما لا نرى. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا عَائِشَةُ هَذَا جِبْرِيلُ وَهُوَ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلَامَ "، قَالَتْ: قُلْتُ: وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ تَرَى مَا لَا نَرَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! یہ جبرائیل ہیں، تمہیں سلام کہہ رہے ہیں، میں نے عرض کیا: اور انہیں بھی میری طرف سے سلام اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں، آپ وہ دیکھتے ہیں جو ہم نہیں دیکھ پاتے (جیسے جبرائیل کو) ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 6 (3217)، وفضائل الصحابة 30 (3768)، والأدب 111 (6201)، والاستئذان 16 (6249)، و19 (6253)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 13 (2447)، سنن النسائی/عشرة النساء 3 (3405، 346) (تحفة الأشراف: 17766)، و مسند احمد (6/146، 150، 208، 224) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3882
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا سويد، اخبرنا عبد الله بن المبارك، اخبرنا زكريا، عن الشعبي، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، عن عائشة، قالت: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن جبريل يقرا عليك السلام "، فقلت: وعليه السلام ورحمة الله وبركاته. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ جِبْرِيلَ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلَامَ "، فَقُلْتُ: وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل تمہیں سلام کہہ رہے ہیں تو میں نے عرض کیا: ان پر سلام اور اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ، وحدیث رقم 2693 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح وقد مضى (2846)
حدیث نمبر: 3883
Save to word اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا حميد بن مسعدة، حدثنا زياد بن الربيع، حدثنا خالد بن سلمة المخزومي، عن ابي بردة، عن ابي موسى، قال: " ما اشكل علينا اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم حديث قط فسالنا عائشة إلا وجدنا عندها منه علما ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمَخْزُومِيُّ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: " مَا أَشْكَلَ عَلَيْنَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثٌ قَطُّ فَسَأَلْنَا عَائِشَةَ إِلَّا وَجَدْنَا عِنْدَهَا مِنْهُ عِلْمًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب بھی کوئی حدیث مشکل ہوتی اور ہم نے اس کے بارے میں عائشہ رضی الله عنہا سے پوچھا تو ہمیں ان کے پاس اس کے بارے میں کوئی جانکاری ضرور ملی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ عائشہ رضی الله عنہا کی وسعت علمی کی دلیل ہے، اور اس سے عام صحابہ پر فضیلت ثابت ہوتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (6185)
حدیث نمبر: 3884
Save to word اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا القاسم بن دينار الكوفي، حدثنا معاوية بن عمرو، عن زائدة، عن عبد الملك بن عمير، عن موسى بن طلحة، قال: " ما رايت احدا افصح من عائشة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، قَالَ: " مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَفْصَحَ مِنْ عَائِشَةَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
موسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی الله عنہا سے زیادہ فصیح کسی کو نہیں دیکھا۔
امام ترمذی کہتے ہی: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 17668/الف) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (6186)

قال الشيخ زبير على زئي: (3884) إسناده ضعيف
عبدالملك بن عمير عنعن (تقدم:3659) والمفهوم صحيح
حدیث نمبر: 3885
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن يعقوب، ومحمد بن بشار , واللفظ لابن يعقوب، قالا: حدثنا يحيى بن حماد، حدثنا عبد العزيز بن المختار، حدثنا خالد الحذاء، عن ابي عثمان النهدي، عن عمرو بن العاص، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم استعمله على جيش ذات السلاسل , قال: فاتيته , فقلت: يا رسول الله اي الناس احب إليك؟ قال: " عائشة "، قلت: من الرجال؟ قال: " ابوها ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , وَاللَّفْظُ لِابْنِ يَعْقُوبَ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَهُ عَلَى جَيْشِ ذَاتِ السُّلَاسِلِ , قَالَ: فَأَتَيْتُهُ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: " عَائِشَةُ "، قُلْتُ: مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَ: " أَبُوهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عمرو بن العاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لشکر ذات السلاسل کا امیر مقرر کیا، وہ کہتے ہیں: تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ نے فرمایا: عائشہ، میں نے پوچھا: مردوں میں کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ان کے باپ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل الصحابة 5 (3662)، والمغازي 63 (4358)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 1 (2384) (تحفة الأشراف: 10738) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: پیچھے فاطمہ رضی الله عنہا کے مناقب میں گزرا ہے کہ عورتوں میں فاطمہ اور مردوں میں ان کے شوہر علی رضی الله عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب تھے، لیکن وہ حدیث ضعیف منکر ہے، اور یہ حدیث صحیح ہے، اور دونوں عورتوں اور دونوں مردوں کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ محبوب ہونے میں تضاد ہی کیا ہے، یہ سب سے زیادہ محبوب تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3886
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن سعيد الجوهري، حدثنا يحيى بن سعيد الاموي، عن إسماعيل بن ابي خالد، عن قيس بن ابي حازم، عن عمرو بن العاص، انه قال: يا رسول الله من احب الناس إليك؟ قال: " عائشة "، قال: من الرجال؟ قال: " ابوها ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه من حديث إسماعيل، عن قيس.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ أَحَبُّ النَّاسِ إِلَيْكَ؟ قَالَ: " عَائِشَةُ "، قَالَ: مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَ: " أَبُوهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ إِسْمَاعِيل، عَنْ قَيْسٍ.
عمرو بن العاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ نے فرمایا: عائشہ، انہوں نے پوچھا: مردوں میں؟ آپ نے فرمایا: ان کے والد۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے یعنی اسماعیل کی روایت سے جسے وہ قیس سے روایت کرتے ہیں حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وانظر ماقبلہ (تحفة الأشراف: 10745) (صحیح)»
حدیث نمبر: 3887
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن عبد الله بن عبد الرحمن بن معمر الانصاري، عن انس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " فضل عائشة على النساء كفضل الثريد على سائر الطعام ". وفي الباب عن عائشة، وابي موسى. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وعبد الله بن عبد الرحمن بن معمر هو ابو طوالة الانصاري المدني ثقة , وقد روى عنه مالك بن انس.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْمَرٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " فَضْلُ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ ". وَفِي الْبَابِ عَنْ عَائِشَةَ، وَأَبِي مُوسَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْمَرٍ هُوَ أَبُو طُوَالَةَ الْأَنْصَارِيُّ الْمَدَنِيُّ ثِقَةٌ , وَقَدْ رَوَى عَنْهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورتوں پر عائشہ کی فضیلت اسی طرح ہے جیسے ثرید کی فضیلت دوسرے کھانوں پر ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں عائشہ، ابوموسیٰ اشعری سے احادیث آئی ہیں،
۳- عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن معمر انصاری سے مراد ابوطوالہ انصاری مدنی ہیں اور وہ ثقہ ہیں، ان سے مالک بن انس نے بھی روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل الصحابة 30 (3770)، والأطعمة 25 (5419)، و30 (5428)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 13 (2446)، سنن ابن ماجہ/الأطعمة 14 (3281) (تحفة الأشراف: 970)، و مسند احمد (3/156، 264) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ان عورتوں میں سے مریم، خدیجہ اور فاطمہ مستثنیٰ ہیں، جیسا کہ دوسری روایات سے ثابت ہوتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3281)

Previous    26    27    28    29    30    31    32    33    34    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.