(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع، حدثنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن ابي الخليل كوفي، عن علي، قال:" سمعت رجلا يستغفر لابويه وهما مشركان، فقلت له: اتستغفر لابويك وهما مشركان؟ فقال: اوليس استغفر إبراهيم لابيه وهو مشرك؟ فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فنزلت ما كان للنبي والذين آمنوا ان يستغفروا للمشركين سورة التوبة آية 113"، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، قال: وفي الباب، عن سعيد بن المسيب، عن ابيه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ كُوفِيٌّ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ:" سَمِعْتُ رَجُلًا يَسْتَغْفِرُ لِأَبَوَيْهِ وَهُمَا مُشْرِكَانِ، فَقُلْتُ لَهُ: أَتَسْتَغْفِرُ لِأَبَوَيْكَ وَهُمَا مُشْرِكَانِ؟ فَقَالَ: أَوَلَيْسَ اسْتَغْفَرَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ وَهُوَ مُشْرِكٌ؟ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَتْ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ سورة التوبة آية 113"، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِيهِ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو اپنے مشرک ماں باپ کے لیے مغفرت طلب کرتے ہوئے سنا تو میں نے اس سے کہا: کیا اپنے مشرک ماں باپ کے لیے مغفرت طلب کرتے ہو؟ اس نے کہا: کیا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے مشرک باپ کے لیے مغفرت طلب نہیں کی تھی؟ پھر میں نے اس بات کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ پر یہ آیت نازل ہوئی «ما كان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشركين»”نبی اور مومنین کے لیے زیبا نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت طلب کریں“(التوبہ: ۱۱۳)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں سعید بن مسیب سے بھی روایت ہے اور وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الجنائز 102 (2038) (تحفة الأشراف: 10181)، و مسند احمد (1/130، 131) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن أحكام الجنائز (96)
قال الشيخ زبير على زئي: (3101) إسناده ضعيف / ن 2038 أبو إسحاق عنعن (تقدم:107)
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، اخبرنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن عبد الرحمن بن كعب بن مالك، عن ابيه، قال: لم اتخلف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة غزاها حتى كانت غزوة تبوك، إلا بدرا ولم يعاتب النبي صلى الله عليه وسلم احدا تخلف عن بدر، إنما خرج يريد العير فخرجت قريش مغوثين لعيرهم، فالتقوا عن غير موعد، كما قال الله عز وجل: ولعمري إن اشرف مشاهد رسول الله صلى الله عليه وسلم في الناس لبدر، وما احب اني كنت شهدتها مكان بيعتي ليلة العقبة حيث تواثقنا على الإسلام، ثم لم اتخلف بعد عن النبي صلى الله عليه وسلم، حتى كانت غزوة تبوك وهي آخر غزوة غزاها، وآذن النبي صلى الله عليه وسلم الناس بالرحيل فذكر الحديث بطوله، قال: فانطلقت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فإذا هو جالس في المسجد وحوله المسلمون، وهو يستنير كاستنارة القمر، وكان إذا سر بالامر استنار فجئت فجلست بين يديه، فقال:" ابشر يا كعب بن مالك بخير يوم اتى عليك منذ ولدتك امك"، فقلت: يا نبي الله، امن عند الله ام من عندك؟ قال:" بل من عند الله، ثم تلا هؤلاء الآيات لقد تاب الله على النبي والمهاجرين والانصار الذين اتبعوه في ساعة العسرة من بعد ما كاد يزيغ قلوب فريق منهم ثم تاب عليهم إنه بهم رءوف رحيم سورة التوبة آية 117، قال: وفينا انزلت ايضا اتقوا الله وكونوا مع الصادقين سورة التوبة آية 119"، قال: قلت: يا نبي الله، إن من توبتي ان لا احدث إلا صدقا وان انخلع من مالي كله صدقة إلى الله وإلى رسوله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" امسك عليك بعض مالك فهو خير لك"، فقلت: فإني امسك سهمي الذي بخيبر، قال:" فما انعم الله علي نعمة بعد الإسلام اعظم في نفسي من صدقي رسول الله صلى الله عليه وسلم حين صدقته انا وصاحباي لا نكون كذبنا فهلكنا كما هلكوا، وإني لارجو ان لا يكون الله ابلى احدا في الصدق مثل الذي ابلاني، ما تعمدت لكذبة بعد وإني لارجو ان يحفظني الله فيما بقي"، قال: وقد روي عن الزهري هذا الحديث بخلاف هذا الإسناد، وقد قيل: عن عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب بن مالك، عن عمه عبيد الله، عن كعب، وقد قيل غير هذا، وروى يونس بن يزيد هذا الحديث عن الزهري، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب بن مالك، ان اباه حدثه عن كعب بن مالك.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَمْ أَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا حَتَّى كَانَتْ غَزْوَةُ تَبُوكَ، إِلَّا بَدْرًا وَلَمْ يُعَاتِبِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا تَخَلَّفَ عَنْ بَدْرٍ، إِنَّمَا خَرَجَ يُرِيدُ الْعِيرَ فَخَرَجَتْ قُرَيْشٌ مُغْوثِينَ لِعِيرِهِمْ، فَالْتَقَوْا عَنْ غَيْرِ مَوْعِدٍ، كَمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَلَعَمْرِي إِنَّ أَشْرَفَ مَشَاهِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ لَبَدْرٌ، وَمَا أُحِبُّ أَنِّي كُنْتُ شَهِدْتُهَا مَكَانَ بَيْعَتِي لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ حَيْثُ تَوَاثَقْنَا عَلَى الْإِسْلَامِ، ثُمَّ لَمْ أَتَخَلَّفْ بَعْدُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى كَانَتْ غَزْوَةُ تَبُوكَ وَهِيَ آخِرُ غَزْوَةٍ غَزَاهَا، وَآذَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ بِالرَّحِيلِ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ وَحَوْلَهُ الْمُسْلِمُونَ، وَهُوَ يَسْتَنِيرُ كَاسْتِنَارَةِ الْقَمَرِ، وَكَانَ إِذَا سُرَّ بِالْأَمْرِ اسْتَنَارَ فَجِئْتُ فَجَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ:" أَبْشِرْ يَا كَعْبُ بْنَ مَالِكٍ بِخَيْرِ يَوْمٍ أَتَى عَلَيْكَ مُنْذُ وَلَدَتْكَ أُمُّكَ"، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَمِنْ عِنْدِ اللَّهِ أَمْ مِنْ عِنْدِكَ؟ قَالَ:" بَلْ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ، ثُمَّ تَلَا هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَحِيمٌ سورة التوبة آية 117، قَالَ: وَفِينَا أُنْزِلَتْ أَيْضًا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ سورة التوبة آية 119"، قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ لَا أُحَدِّثَ إِلَّا صِدْقًا وَأَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي كُلِّهِ صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ"، فَقُلْتُ: فَإِنِّي أُمْسِكُ سَهْمِيَ الَّذِي بِخَيْبَرَ، قَالَ:" فَمَا أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيَّ نِعْمَةً بَعْدَ الْإِسْلَامِ أَعْظَمَ فِي نَفْسِي مِنْ صِدْقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ صَدَقْتُهُ أَنَا وَصَاحِبَايَ لَا نَكُونُ كَذَبْنَا فَهَلَكْنَا كَمَا هَلَكُوا، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ اللَّهُ أَبْلَى أَحَدًا فِي الصِّدْقِ مِثْلَ الَّذِي أَبْلَانِي، مَا تَعَمَّدْتُ لِكَذِبَةٍ بَعْدُ وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَحْفَظَنِي اللَّهُ فِيمَا بَقِيَ"، قَالَ: وَقَدْ رُوِيَ عَنِ الزُّهْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثُ بِخِلَافِ هَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَدْ قِيلَ: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ عَمِّهِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ كَعْبٍ، وَقَدْ قِيلَ غَيْرُ هَذَا، وَرَوَى يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ.
کعب بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے بھی غزوے کیے ان میں سے غزوہ تبوک کو چھوڑ کر کوئی بھی غزوہ ایسا نہیں ہے کہ جس میں آپ کے ساتھ میں نہ رہا ہوں۔ رہا بدر کا معاملہ سو بدر میں جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے ان میں سے کسی کی بھی آپ نے سرزنش نہیں کی تھی۔ کیونکہ آپ کا ارادہ (شام سے آ رہے) قافلے کو گھیرنے کا تھا، اور قریش اپنے قافلے کو بچانے کے لیے نکلے تھے، پھر دونوں قافلے بغیر پہلے سے طے کئے ہوئے جگہ میں جا ٹکرائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت: «إذ أنتم بالعدوة الدنيا وهم بالعدوة القصوى والركب أسفل منكم ولو تواعدتم لاختلفتم في الميعاد ولكن ليقضي الله أمرا كان مفعولا»(الأنفال: ۴۲)۱؎ میں فرمایا ہے اور قسم اللہ کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں سب سے بڑھ کر غزوہ بدر ہے۔ اور میں اس میں شرکت کو عقبہ کی رات میں اپنی بیعت کے مقابل میں قابل ترجیح نہیں سمجھتا۔ جب ہم نے اسلام پر عہد و میثاق لیا تھا۔ اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر میں کبھی پیچھے نہیں ہوا یہاں تک کہ غزوہ تبوک کا واقعہ پیش آ گیا۔ اور یہ آخری غزوہ تھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں کوچ کا اعلان کر دیا۔ پھر انہوں نے لمبی حدیث بیان کی، کہا (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوہ تبوک سے لوٹنے کے بعد) میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ مسجد میں تشریف فرما تھے اور مسلمان آپ کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے۔ اور چاند کی روشنی بکھرنے کی طرح آپ نور بکھیر رہے تھے۔ آپ جب کسی معاملے میں خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ انور دمکنے لگتا تھا، میں پہنچ کر آپ کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا: ”کعب بن مالک! اس بہترین دن کی بدولت خوش ہو جاؤ جو تمہیں جب سے تمہاری ماں نے جنا ہے اس دن سے آج تک میں اب حاصل ہوا ہے۔“ میں نے کہا: اللہ کے نبی! یہ دن مجھے اللہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے یا آپ کی طرف سے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے۔“ پھر آپ نے یہ آیات پڑھیں «لقد تاب الله على النبي والمهاجرين والأنصار الذين اتبعوه في ساعة العسرة» یہاں تک کہ آپ تلاوت کرتے ہوئے «إن الله هو التواب الرحيم»۱؎ تک پہنچے۔ آیت «اتقوا الله وكونوا مع الصادقين» بھی ہمارے ہی متعلق نازل ہوئی ہے۔ میں نے کہا: اللہ کے نبی! میری توبہ کی قبولیت کا تقاضہ ہے کہ میں جب بھی بولوں سچی بات ہی بولوں، اور میری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ میں اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول کے حوالے کر کے خود خالی ہاتھ ہو جاؤں۔ آپ نے فرمایا: ”اپنا کچھ مال اپنے لیے روک لو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔“ میں نے کہا: تو پھر میں اپنا وہ حصہ روک لیتا ہوں جو خیبر میں ہے، اسلام قبول کرنے کے بعد اللہ نے میری نظر میں اس سے بڑھ کر کوئی اور نعمت مجھے نہیں عطا کی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچ بولا اور جھوٹ نہ بولے کہ ہم ہلاک ہو جاتے جیسا کہ (جھوٹ بول کر) دوسرے ہلاک و برباد ہو گئے۔ اور میرا گمان غالب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سچائی کے معاملے میں جتنا مجھے آزمایا ہے کسی اور کو نہ آزمایا ہو گا، اس کے بعد تو میں نے کبھی جھوٹ بولنے کا قصد و ارادہ ہی نہیں کیا۔ اور میں اللہ کی ذات سے امید رکھتا ہوں کہ وہ باقی ماندہ زندگی میں بھی مجھے جھوٹ بولنے سے محفوظ رکھے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث زہری سے اس اسناد سے مختلف دوسری سندوں سے بھی آئی ہے، ۲- یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ حدیث روایت کی گئی ہے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک سے اور وہ روایت کرتے ہیں اپنے چچا عبیداللہ سے اور وہ کعب سے، اور اس کے سوا اور بھی کچھ کہا گیا ہے، ۳- یونس بن یزید نے یہ حدیث زہری سے روایت کی ہے، اور زہری نے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک سے کہ ان کے باپ نے کعب بن مالک سے سن کر بیان کیا۔
وضاحت: ۱؎: ”اللہ تعالیٰ نے توجہ فرمائی اپنے نبی پر اور ان مہاجرین و انصار کی طرف جنہوں نے اس کی مدد کی کٹھن گھڑی میں جب کہ ان میں سے ایک فریق کے دلوں کے پلٹ جانے اور کج روی اختیار کر لینے کا ڈر موجود تھا، پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی۔ بیشک وہ ان پر نرمی والا اور مہر بان ہے“(التوبہ: ۱۱۷)۔
(موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن الزهري، عن عبيد بن السباق، ان زيد بن ثابت حدثه، قال: بعث إلي ابو بكر الصديق مقتل اهل اليمامة، فإذا عمر بن الخطاب عنده، فقال: إن عمر بن الخطاب قد اتاني، فقال:" إن القتل قد استحر بقراء القرآن يوم اليمامة، وإني لاخشى ان يستحر القتل بالقراء في المواطن كلها، فيذهب قرآن كثير وإني ارى ان تامر بجمع القرآن، قال ابو بكر لعمر: كيف افعل شيئا لم يفعله رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال عمر: هو والله خير، فلم يزل يراجعني في ذلك حتى شرح الله صدري للذي شرح له صدر عمر، ورايت فيه الذي راى، قال زيد: قال ابو بكر: إنك شاب عاقل لا نتهمك، قد كنت تكتب لرسول الله صلى الله عليه وسلم الوحي فتتبع القرآن، قال: فوالله لو كلفوني نقل جبل من الجبال ما كان اثقل علي من ذلك، قال: قلت: كيف تفعلون شيئا لم يفعله رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال ابو بكر: هو والله خير، فلم يزل يراجعني في ذلك ابو بكر، وعمر حتى شرح الله صدري للذي شرح له صدرهما صدر ابي بكر، وعمر، فتتبعت القرآن اجمعه من الرقاع، والعسب، واللخاف يعني الحجارة، وصدور الرجال، فوجدت آخر سورة براءة مع خزيمة بن ثابت لقد جاءكم رسول من انفسكم عزيز عليه ما عنتم حريص عليكم بالمؤمنين رءوف رحيم {128} فإن تولوا فقل حسبي الله لا إله إلا هو عليه توكلت وهو رب العرش العظيم {129} سورة التوبة آية 128-129"، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ حَدَّثَهُ، قَالَ: بَعَثَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ مَقْتَلَ أَهْلِ الْيَمَامَةِ، فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عِنْدَهُ، فَقَالَ: إِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَدْ أَتَانِي، فَقَالَ:" إِنَّ الْقَتْلَ قَدِ اسْتَحَرَّ بِقُرَّاءِ الْقُرْآنِ يَوْمَ الْيَمَامَةِ، وَإِنِّي لَأَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّاءِ فِي الْمَوَاطِنِ كُلِّهَا، فَيَذْهَبَ قُرْآنٌ كَثِيرٌ وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ لِعُمَرَ: كَيْفَ أَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ عُمَرُ: هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ، فَلَمْ يَزَلْ يُرَاجِعُنِي فِي ذَلِكَ حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ لَهُ صَدْرَ عُمَرَ، وَرَأَيْتُ فِيهِ الَّذِي رَأَى، قَالَ زَيْدٌ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّكَ شَابٌّ عَاقِلٌ لَا نَتَّهِمُكَ، قَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَحْيَ فَتَتَبَّعِ الْقُرْآنَ، قَالَ: فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفُونِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ تَفْعَلُونَ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ، فَلَمْ يَزَلْ يُرَاجِعُنِي فِي ذَلِكَ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ لَهُ صَدْرَهُمَا صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ الرِّقَاعِ، وَالْعُسُبِ، وَاللِّخَافِ يَعْنِي الْحِجَارَةَ، وَصُدُورِ الرِّجَالِ، فَوَجَدْتُ آخِرَ سُورَةِ بَرَاءَةٌ مَعَ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ {128} فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ {129} سورة التوبة آية 128-129"، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
زید بن ثابت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جنگ یمامہ کے موقع پر ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے انہیں بلا بھیجا، اتفاق کی بات کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ بھی وہاں موجود تھے، ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: عمر بن خطاب میرے پاس آئے ہیں کہتے ہیں کہ جنگ یمامہ میں قرآن کے بہت سے قراء (حافظوں) کی ہلاکت ہوئی ہے، اور میں ڈرتا ہوں کہ اگر ان تمام جگہوں میں جہاں جنگیں چل رہی ہیں قراء قرآن کا قتل بڑھتا رہا تو بہت سارا قرآن ضائع ہو سکتا ہے، اس لیے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ مکمل قرآن اکٹھا کرنے کا حکم فرمائیں۔ ابوبکر رضی الله عنہ نے عمر رضی الله عنہ سے کہا: میں کوئی ایسی چیز کیسے کروں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ہے۔ عمر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ بہتر کام ہے۔ وہ مجھ سے یہ بات باربار کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے مجھے بھی اس کام کے لیے شرح صدر عطا کر دیا جس کام کے لیے اللہ نے عمر کو شرح صدر عطا فرمایا تھا۔ اور میں نے بھی اس سلسلہ میں وہی بات مناسب سمجھی جو انہوں نے سمجھی۔ زید کہتے ہیں: ابوبکر رضی الله عنہ نے (مجھ سے) کہا: تم جوان ہو، عقلمند ہو، ہم تمہیں (کسی معاملے میں بھی) متہم نہیں کرتے۔ اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی لکھتے بھی تھے، تو ایسا کرو کہ پورا قرآن تلاش کر کے لکھ ڈالو، (یکجا کر دو) زید کہتے ہیں: قسم اللہ کی! اگر مجھ سے پہاڑوں میں سے کسی پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے کہتے تو یہ کام مجھے اس کام سے زیادہ بھاری نہ لگتا، میں نے کہا: آپ لوگ کوئی ایسا کام جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ہے کیسے (کرنے کی جرات) کرتے ہیں؟ ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! تمہارے لیے بہتر ہے۔ اور ابوبکر و عمر رضی الله عنہما دونوں مجھ سے باربار یہی دہراتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے میرے سینے کو بھی اس حق کے لیے کھول دیا جس کے لیے ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کے سینے کو اس نے کھولا تھا، تو میں نے پورے قرآن کی تلاش و جستجو شروع کر دی، میں پرزوں، کھجور کے پتوں، نرم پتھروں اور لوگوں کے سینوں سے لے کر نقل کر کر کے یکجا کرنے لگا، تو سورۃ برأۃ کی آخری آیات «لقد جاءكم رسول من أنفسكم عزيز عليه ما عنتم حريص عليكم بالمؤمنين رءوف رحيم فإن تولوا فقل حسبي الله لا إله إلا هو عليه توكلت وهو رب العرش العظيم»”تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے، اس پر تمہاری تکلیف شاق گزرتی ہے، وہ تمہاری بھلائی کا حریص ہے اور ایمان داروں کے حال پر نہایت درجہ شفیق اور مہربان ہے۔ پھر بھی اگر وہ منہ پھیر لیں تو اللہ مجھ کو کافی ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے اور وہی عرش عظیم کا مالک ہے“(التوبہ: ۱۲۸)۔ مجھے خزیمہ بن ثابت رضی الله عنہ کے پاس ملیں۔
(موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن الزهري، عن انس، ان حذيفة قدم على عثمان بن عفان وكان يغازي اهل الشام في فتح ارمينية واذربيجان مع اهل العراق، فراى حذيفة اختلافهم في القرآن، فقال لعثمان بن عفان: يا امير المؤمنين، ادرك هذه الامة قبل ان يختلفوا في الكتاب كما اختلفت اليهود والنصارى، فارسل إلى حفصة ان ارسلي إلينا بالصحف ننسخها في المصاحف، ثم نردها إليك، فارسلت حفصة إلى عثمان بالصحف، فارسل عثمان إلى زيد بن ثابت، وسعيد بن العاص، وعبد الرحمن بن الحارث بن هشام، وعبد الله بن الزبير، ان انسخوا الصحف في المصاحف، وقال للرهط القرشيين الثلاثة، ما اختلفتم انتم وزيد بن ثابت فاكتبوه بلسان قريش فإنما نزل بلسانهم، حتى نسخوا الصحف في المصاحف بعث عثمان إلى كل افق بمصحف من تلك المصاحف التي نسخوا، قال الزهري: وحدثني خارجة بن زيد بن ثابت، ان زيد بن ثابت، قال: فقدت آية من سورة الاحزاب، كنت اسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرؤها من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه فمنهم من قضى نحبه ومنهم من ينتظر سورة الاحزاب آية 23 فالتمستها فوجدتها مع خزيمة بن ثابت، او ابي خزيمة فالحقتها في سورتها، قال الزهري: فاختلفوا يومئذ في التابوت والتابوه، فقال القرشيون: التابوت، وقال زيد: التابوه، فرفع اختلافهم إلى عثمان، فقال: اكتبوه التابوت فإنه نزل بلسان قريش، قال الزهري: فاخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة: ان عبد الله بن مسعود كره لزيد بن ثابت نسخ المصاحف، وقال: يا معشر المسلمين اعزل عن نسخ كتابة المصحف ويتولاها رجل، والله لقد اسلمت وإنه لفي صلب رجل كافر، يريد زيد بن ثابت، ولذلك قال عبد الله بن مسعود: يا اهل العراق اكتموا المصاحف التي عندكم وغلوها، فإن الله يقول ومن يغلل يات بما غل يوم القيامة سورة آل عمران آية 161 فالقوا الله بالمصاحف، قال الزهري: فبلغني ان ذلك كرهه من مقالة ابن مسعود رجال من افاضل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم"، قال: هذا حديث حسن صحيح، وهو حديث الزهري لا نعرفه إلا من حديثه.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ حُذَيْفَةَ قَدِمَ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَكَانَ يُغَازِي أَهْلَ الشَّامِ فِي فَتْحِ أَرْمِينِيَةَ وَأَذْرَبِيجَانَ مَعَ أَهْلِ الْعِرَاقِ، فَرَأَى حُذَيْفَةُ اخْتِلَافَهُمْ فِي الْقُرْآنِ، فَقَالَ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَدْرِكْ هَذِهِ الْأُمَّةَ قَبْلَ أَنْ يَخْتَلِفُوا فِي الْكِتَابِ كَمَا اخْتَلَفَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى، فَأَرْسَلَ إِلَى حَفْصَةَ أَنْ أَرْسِلِي إِلَيْنَا بِالصُّحُفِ نَنْسَخُهَا فِي الْمَصَاحِفِ، ثُمَّ نَرُدُّهَا إِلَيْكِ، فَأَرْسَلَتْ حَفْصَةُ إِلَى عُثْمَانَ بِالصُّحُفِ، فَأَرْسَلَ عُثْمَانُ إِلَى زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَسَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنِ انْسَخُوا الصُّحُفَ فِي الْمَصَاحِفِ، وَقَالَ لِلرَّهْطِ الْقُرَشِيِّينَ الثَّلَاثَةِ، مَا اخْتَلَفْتُمْ أَنْتُمْ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ فَاكْتُبُوهُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ فَإِنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِهِمْ، حَتَّى نَسَخُوا الصُّحُفَ فِي الْمَصَاحِفِ بَعَثَ عُثْمَانُ إِلَى كُلِّ أُفُقٍ بِمُصْحَفٍ مِنْ تِلْكَ الْمَصَاحِفِ الَّتِي نَسَخُوا، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَحَدَّثَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، قَالَ: فَقَدْتُ آيَةً مِنْ سُورَةِ الْأَحْزَابِ، كُنْتُ أَسْمَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَؤُهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ سورة الأحزاب آية 23 فَالْتَمَسْتُهَا فَوَجَدْتُهَا مَعَ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، أَوْ أَبِي خُزَيْمَةَ فَأَلْحَقْتُهَا فِي سُورَتِهَا، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَاخْتَلَفُوا يَوْمَئِذٍ فِي التَّابُوتِ وَالتَّابُوهِ، فَقَالَ الْقُرَشِيُّونَ: التَّابُوتُ، وَقَالَ زَيْدٌ: التَّابُوهُ، فَرُفِعَ اخْتِلَافُهُمْ إِلَى عُثْمَانَ، فَقَالَ: اكْتُبُوهُ التَّابُوتُ فَإِنَّهُ نَزَلَ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ: أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ كَرِهَ لِزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ نَسْخَ الْمَصَاحِفِ، وَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ أُعْزَلُ عَنْ نَسْخِ كِتَابَةِ الْمُصْحَفِ وَيَتَوَلَّاهَا رَجُلٌ، وَاللَّهِ لَقَدْ أَسْلَمْتُ وَإِنَّهُ لَفِي صُلْبِ رَجُلٍ كَافِرٍ، يُرِيدُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، وَلِذَلِكَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ اكْتُمُوا الْمَصَاحِفَ الَّتِي عِنْدَكُمْ وَغُلُّوهَا، فَإِنَّ اللَّهَ يَقُولُ وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ سورة آل عمران آية 161 فَالْقُوا اللَّهَ بِالْمَصَاحِفِ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَبَلَغَنِي أَنَّ ذَلِكَ كَرِهَهُ مِنْ مَقَالَةِ ابْنِ مَسْعُودٍ رِجَالٌ مِنْ أَفَاضِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ حَدِيثُ الزُّهْرِيِّ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِهِ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ حذیفہ بن الیمان عثمان رضی الله عنہما کے پاس آئے، ان دنوں آپ شام والوں کے ساتھ آرمینیہ کی فتح میں اور عراق والوں کے ساتھ آذر بائیجان کی فتح میں مشغول تھے، حذیفہ رضی الله عنہ نے قرآن کی قرأت میں لوگوں کا اختلاف دیکھ کر عثمان بن عفان رضی الله عنہ سے کہا: امیر المؤمنین! اس امت کو سنبھالئے اس سے پہلے کہ یہ کتاب (قرآن مجید) کے معاملے میں اختلاف کا شکار ہو جائے (اور آپس میں لڑنے لگے) جیسا کہ یہود و نصاریٰ اپنی کتابوں (تورات و انجیل اور زبور) کے بارے میں مختلف ہو گئے۔ تو عثمان رضی الله عنہ نے حفصہ رضی الله عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ (ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کے تیار کرائے ہوئے) صحیفے ہمارے پاس بھیج دیں ہم انہیں مصاحف میں لکھا کر آپ کے پاس واپس بھیج دیں گے، چنانچہ ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا نے عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے پاس یہ صحیفے بھیج دیے۔ پھر عثمان نے زید بن ثابت اور سعید بن العاص اور عبدالرحمٰن بن الحارث بن ہشام اور عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہم کے پاس ان صحیفوں کو اس حکم کے ساتھ بھیجا کہ یہ لوگ ان کو مصاحف میں نقل کر دیں۔ اور تینوں قریشی صحابہ سے کہا کہ جب تم میں اور زید بن ثابت رضی الله عنہ میں اختلاف ہو جائے تو قریش کی زبان (و لہجہ) میں لکھو کیونکہ قرآن انہیں کی زبان میں نازل ہوا ہے، یہاں تک کہ جب انہوں نے صحیفے مصحف میں نقل کر لیے تو عثمان نے ان تیار مصاحف کو (مملکت اسلامیہ کے حدود اربعہ میں) ہر جانب ایک ایک مصحف بھیج دیا۔ زہری کہتے ہیں مجھ سے خارجہ بن زید نے بیان کیا کہ زید بن ثابت نے کہا کہ میں سورۃ الاحزاب کی ایک آیت جسے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھتے ہوئے سنتا تھا اور مجھے یاد نہیں رہ گئی تھی اور وہ آیت یہ ہے «من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه فمنهم من قضى نحبه ومنهم من ينتظر»۱؎ تو میں نے اسے ڈھونڈا، بہت تلاش کے بعد میں اسے خزیمہ بن ثابت کے پاس پایا ۲؎ خزیمہ بن ثابت رضی الله عنہ کہا یا ابوخزیمہ کہا۔ (راوی کو شک ہو گیا) تو میں نے اسے اس کی سورۃ میں شامل کر دیا۔ زہری کہتے ہیں: لوگ اس وقت (لفظ) «تابوهاور» تابوت میں مختلف ہو گئے، قریشیوں نے کہا «التابوت» اور زید نے «التابوه» کہا۔ ان کا اختلاف عثمان رضی الله عنہ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا: «التابوت» لکھو کیونکہ یہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ زہری کہتے ہیں: مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بتایا ہے کہ عبداللہ بن مسعود نے زید بن ثابت رضی الله عنہما کے مصاحف لکھنے کو ناپسند کیا اور کہا: اے گروہ مسلمانان! میں مصاحف کے لکھنے سے روک دیا گیا، اور اس کام کا والی و کارگزار وہ شخص ہو گیا جو قسم اللہ کی جس وقت میں ایمان لایا وہ شخص ایک کافر شخص کی پیٹھ میں تھا (یعنی پیدا نہ ہوا تھا) یہ کہہ کر انہوں نے زید بن ثابت کو مراد لیا ۳؎ اور اسی وجہ سے عبداللہ بن مسعود نے کہا: عراق والو! جو مصاحف تمہارے پاس ہیں انہیں چھپا لو، اور سنبھال کر رکھو۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جو کوئی چیز چھپا رکھے گا قیامت کے دن اسے لے کر حاضر ہو گا تو تم قیامت میں اپنے مصاحف ساتھ میں لے کر اللہ سے ملاقات کرنا ۴؎ زہری کہتے ہیں: مجھے یہ اطلاع و خبر بھی ملی کہ کبار صحابہ نے ابن مسعود رضی الله عنہ کی یہ بات ناپسند فرمائی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور یہ زہری کی حدیث ہے، اور ہم اسے صرف انہیں کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت: ۱؎: ”مومنوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کیا تھا انہیں سچا کر دکھایا، بعض نے تو اپنا عہد پورا کر دیا اور بعض (موقع کے) منتظر ہیں“(الأحزاب: ۲۳)۔
۲؎: صرف اسی مناسبت سے مؤلف نے اس روایت کو اس باب میں ذکر کیا ہے، ورنہ یہ آیت سورۃ التوبہ کی نہیں ہے جس کی تفسیر کا باب ہے۔
۳؎: عثمان رضی الله عنہ نے اس کام پر جو زید بن ثابت رضی الله عنہ کو لگایا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ابوبکر رضی الله عنہ کے وقت میں زید بن ثابت ہی نے قرآن کو ایک جگہ جمع کرنے کا کام انجام دیا تھا، نیز اس وقت ابن مسعود رضی الله عنہ مدینہ سے دور کوفہ میں تھے، اور معاملہ جلدی کا تھا، عفی اللہ عنہ وعنہم۔
۴؎: ایسا ہوا تھا کہ جب عثمان رضی الله عنہ کا لکھوایا ہوا نسخہ کوفہ پہنچا تو ابن مسعود رضی الله عنہ کے تلامذہ نے ان سے کہا کہ اب آپ اپنا نسخہ ضائع کر دیجئیے، اس پر انہوں نے کہا کہ تمہارے پاس میرا جو نسخہ ہے اسے چھپا کر رکھ دو، اس کو قیامت کے دن لا کر ظاہر کرنا، یہ بڑی شرف کی بات ہو گی۔
(قدسي) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا حماد بن سلمة، عن ثابت البناني، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن صهيب، عن النبي صلى الله عليه وسلم في قول الله عز وجل: للذين احسنوا الحسنى وزيادة سورة يونس آية 26قال:" إذا دخل اهل الجنة الجنة نادى مناد إن لكم عند الله موعدا يريد ان ينجزكموه، قالوا: الم تبيض وجوهنا وتنجنا من النار وتدخلنا الجنة؟ قال: فيكشف الحجاب، قال: فوالله ما اعطاهم الله شيئا احب إليهم من النظر إليه"، قال ابو عيسى: حديث حماد بن سلمة، هكذا روى غير واحد، عن حماد بن سلمة، مرفوعا، وروى سليمان بن المغيرة هذا الحديث عن ثابت، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى قوله، ولم يذكر فيه عن صهيب، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(قدسي) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ صُهَيْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ سورة يونس آية 26قَالَ:" إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ نَادَى مُنَادٍ إِنَّ لَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ مَوْعِدًا يُرِيدُ أَنْ يُنْجِزَكُمُوهُ، قَالُوا: أَلَمْ تُبَيِّضْ وُجُوهَنَا وَتُنْجِّنَا مِنَ النَّارِ وَتُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ؟ قَالَ: فَيُكْشَفُ الْحِجَابُ، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا أَعْطَاهُمُ اللَّهُ شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلَيْهِ"، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، هَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، مَرْفُوعًا، وَرَوَى سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَوْلَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ صُهَيْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
صہیب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «للذين أحسنوا الحسنى وزيادة»”جن لوگوں نے نیکی کی ہے ان کے واسطے اچھائی (جنت) ہے اور مزید برآں بھی (یعنی دیدار الٰہی)“(یونس: ۲۶)، کی تفسیر اس طرح فرمائی: ”جب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے تو ایک پکارنے والا پکار کر کہے گا: اللہ کے پاس تمہارے لیے اس کی طرف سے کیا ہوا ایک وعدہ ہے اور وہ چاہتا ہے کہ تم سے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا کر دے۔ تو وہ جنتی کہیں گے: کیا اللہ نے ہمارے چہرے روشن نہیں کر دیئے ہیں اور ہمیں آگ سے نجات نہیں دی ہے اور ہمیں جنت میں داخل نہیں فرمایا ہے؟ (اب کون سی نعمت باقی رہ گئی ہے؟)“، آپ نے فرمایا: ”پھر پردہ اٹھا دیا جائے گا“، آپ نے فرمایا: ”قسم اللہ کی! اللہ نے انہیں کوئی ایسی چیز دی ہی نہیں جو انہیں اس کے دیدار سے زیادہ لذیذ اور محبوب ہو۔“
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- حماد بن سلمہ کی حدیث ایسی ہی ہے، ۲- کئی ایک نے اسے حماد بن سلمہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ سلیمان بن مغیرہ نے یہ حدیث ثابت سے اور ثابت نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے ان کے قول کی حیثیت سے روایت کی ہے اور انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ یہ روایت صہیب سے ہے اور صہیب رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن ابن المنكدر، عن عطاء بن يسار، عن رجل من اهل مصر، قال: سالت ابا الدرداء، عن هذه الآية لهم البشرى في الحياة الدنيا سورة يونس آية 64، قال: ما سالني عنها احد منذ سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عنها، فقال: " ما سالني عنها احد غيرك منذ انزلت فهي الرؤيا الصالحة يراها المسلم او ترى له ".(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ مِصْرَ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ، عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا سورة يونس آية 64، قَالَ: مَا سَأَلَنِي عَنْهَا أَحَدٌ مُنْذُ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهَا، فَقَالَ: " مَا سَأَلَنِي عَنْهَا أَحَدٌ غَيْرُكَ مُنْذُ أُنْزِلَتْ فَهِيَ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الْمُسْلِمُ أَوْ تُرَى لَهُ ".
عطاء بن یسار ایک مصری شیخ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابو الدرداء رضی الله عنہ سے اس آیت «لهم البشرى في الحياة الدنيا»”ان کے لیے بشارت ہے دنیا کی زندگی میں“(یونس: ۶۴)، کی تفسیر پوچھی تو انہوں نے کہا: جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کی تفسیر پوچھی مجھ سے کسی نے اس آیت کے متعلق نہیں پوچھا (اور میں نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب سے یہ آیت نازل ہوئی ہے مجھ سے تمہارے سوا کسی نے اس کے متعلق نہیں پوچھا۔ ”یہ بشارت اچھے خواب ہیں جنہیں مسلمان دیکھتا ہے یا اس کے لیے (کسی اور کو) دکھایا جاتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2273 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح ومضى (2389)
قال الشيخ زبير على زئي: (3106) إسناده ضعيف / تقدم: 2273
ابوالدرداء رضی الله عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی۔ اور اس سند میں عطاء بن یسار سے روایت کا ذکر نہیں ہے ۱؎، ۳- اس باب میں عبادہ بن صامت سے بھی روایت ہے۔
فائدہ ۱؎: اور ابوصالح سمان کا سماع ابو الدرداء رضی الله عنہ سے ثابت ہے، اس لیے یہ سند بھی متصل ہوئی۔
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا الحجاج بن منهال، حدثنا حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن يوسف بن مهران، عن ابن عباس ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:"لما اغرق الله فرعون قال: {آمنت انه لا إله إلا الذي آمنت به بنو إسرائيل} فقال جبريل: يا محمد! فلو رايتني وانا آخذ من حال البحر؛ فادسه في فيه مخافة ان تدركه الرحمة". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مِهْرَانَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:"لَمَّا أَغْرَقَ اللَّهُ فِرْعَوْنَ قَالَ: {آمَنْتُ أَنَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ} فَقَالَ جِبْرِيلُ: يَا مُحَمَّدُ! فَلَوْ رَأَيْتَنِي وَأَنَا آخُذُ مِنْ حَالِ الْبَحْرِ؛ فَأَدُسُّهُ فِي فِيهِ مَخَافَةَ أَنْ تُدْرِكَهُ الرَّحْمَةُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ نے فرعون کو ڈبویا تو اس نے (اس موقع پر) کہا «آمنت أنه لا إله إلا الذي آمنت به بنو إسرائيل» کہ ”میں اس بات پر ایمان لایا کہ اس معبود کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں“(یونس: ۹۰)، پھر جبرائیل علیہ السلام نے کہا: اے محمد! کاش اس وقت میری حالت دیکھی ہوتی۔ میں اس ڈر سے کہ کہیں اس (مردود) کو اللہ کی رحمت حاصل نہ ہو جائے، میں سمندر سے کیچڑ نکال نکال کر اس کے منہ میں ٹھونسنے لگا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف وانظر مایأتي (تحفة الأشراف: 6560) (صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، نیچے آنے والی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح بما بعده (3106)
قال الشيخ زبير على زئي: (3107) إسناده ضعيف علي بن زيد بن جدعان ضعيف (تقدم: 589) والحديث الأتي (الأصل: 3108) يغني عنه
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا کہ (جب فرعون ڈوبنے لگا) جبرائیل علیہ السلام فرعون کے منہ میں مٹی ٹھونسنے لگے، اس ڈر سے کہ وہ کہیں «لا إلٰہ إلا اللہ» نہ کہہ دے تو اللہ کو اس پر رحم آ جائے۔ راوی کو شک ہو گیا ہے کہ آپ نے «خشية أن يقول لا إله إلا الله» کہا یا «خشية أن يرحمه الله» کہا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔