(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن حميد، عن انس رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم" نهى عن بيع ثمر التمر حتى يزهو"، فقلنا لانس: ما زهوها، قال: تحمر وتصفر، ارايت إن منع الله الثمرة بم تستحل مال اخيك.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ بَيْعِ ثَمَرِ التَّمْرِ حَتَّى يَزْهُوَ"، فَقُلْنَا لِأَنَسٍ: مَا زَهْوُهَا، قَالَ: تَحْمَرُّ وَتَصْفَرُّ، أَرَأَيْتَ إِنْ مَنَعَ اللَّهُ الثَّمَرَةَ بِمَ تَسْتَحِلُّ مَالَ أَخِيكَ.
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے حمید نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت کو «زهو.» سے پہلے ٹوٹی ہوئی کھجور کے بدلے بیچنے سے منع فرمایا۔ ہم نے پوچھا کہ «زهو.» کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ وہ پک کے سرخ ہو جائے یا زرد ہو جائے۔ تم ہی بتاؤ کہ اگر اللہ کے حکم سے پھل نہ آ سکا تو تم کس چیز کے بدلے میں اپنے بھائی (خریدار) کا مال اپنے لیے حلال کرو گے۔
Narrated Humaid: Anas said, "The Prophet forbade the selling of dates till they were almost ripe." We asked Anas, "What does 'almost ripe' mean?" He replied, "They get red and yellow. The Prophet added, 'If Allah destroyed the fruits present on the trees, what right would the seller have to take the money of his brother (somebody else)?' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 410
(مرفوع) حدثنا ابو الوليد هشام بن عبد الملك، حدثنا ابو عوانة، عن ابي بشر، عن مجاهد، عن ابن عمر رضي الله عنه، قال:" كنت عند النبي صلى الله عليه وسلم وهو ياكل جمارا، فقال: من الشجر شجرة كالرجل المؤمن، فاردت ان اقول هي النخلة، فإذا انا احدثهم، قال: هي النخلة".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَأْكُلُ جُمَّارًا، فَقَالَ: مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةٌ كَالرَّجُلِ الْمُؤْمِنِ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَقُولَ هِيَ النَّخْلَةُ، فَإِذَا أَنَا أَحْدَثُهُمْ، قَالَ: هِيَ النَّخْلَةُ".
ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک سے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے مجاہد نے، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کا گابھا کھا رہے تھے۔ اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ درختوں میں ایک درخت مرد مومن کی مثال ہے میرے دل میں آیا کہ کہوں کہ یہ کھجور کا درخت ہے، لیکن حاضرین میں، میں ہی سب سے چھوٹی عمر کا تھا (اس لیے بطور ادب میں چپ رہا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔
Narrated Ibn `Umar: I was with the Prophet while he was eating fresh dates. He said, "From the trees there is a tree which resembles a faithful believer." I wanted to say that it was the date palm, but I was the youngest among them (so I kept quiet). He added, "It is the date palm."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 411
95. باب: خرید و فروخت اور اجارے میں ہر ملک کے دستور کے موافق حکم دیا جائے گا اسی طرح ماپ اور تول اور دوسرے کاموں میں ان کی نیت اور رسم و رواج کے موافق۔
(95) Chapter. In cases where there is no fixed judgement, the traditions and conventions of each community are to be referred to, to deduce a judgement in such matters as sales, renting, measuring and weighing.
وقال شريح للغزالين: سنتكم بينكم ربحا، وقال عبد الوهاب: عن ايوب، عن محمد، لا باس العشرة باحد عشر وياخذ للنفقة ربحا، وقال النبي صلى الله عليه وسلم لهند: خذي ما يكفيك وولدك بالمعروف، وقال تعالى: ومن كان فقيرا فلياكل بالمعروف سورة النساء آية 6 واكترى الحسن من عبد الله بن مرداس حمارا، فقال: بكم؟ قال: بدانقين، فركبه ثم جاء مرة اخرى، فقال: الحمار الحمار فركبه ولم يشارطه، فبعث إليه بنصف درهم.وَقَالَ شُرَيْحٌ لِلْغَزَّالِينَ: سُنَّتُكُمْ بَيْنَكُمْ رِبْحًا، وَقَالَ عَبْدُ الْوَهَّابِ: عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، لَا بَأْسَ الْعَشَرَةُ بِأَحَدَ عَشَرَ وَيَأْخُذُ لِلنَّفَقَةِ رِبْحًا، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِهِنْدٍ: خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَوَلَدَكِ بِالْمَعْرُوفِ، وَقَالَ تَعَالَى: وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ سورة النساء آية 6 وَاكْتَرَى الْحَسَنُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مِرْدَاسٍ حِمَارًا، فَقَالَ: بِكَمْ؟ قَالَ: بِدَانَقَيْنِ، فَرَكِبَهُ ثُمَّ جَاءَ مَرَّةً أُخْرَى، فَقَالَ: الْحِمَارَ الْحِمَارَ فَرَكِبَهُ وَلَمْ يُشَارِطْهُ، فَبَعَثَ إِلَيْهِ بِنِصْفِ دِرْهَمٍ.
اور قاضی شریح نے سوت بیچنے والوں سے کہا جیسے تم لوگوں کا رواج ہے اسی کے موافق حکم دیا جائے گا اور عبدالوہاب نے ایوب سے روایت کی، انہوں نے محمد بن سیرین سے کہ دس کا مال گیارہ میں بیچنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اور جو خرچہ پڑا ہے اس پر بھی یہی نفع لے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہندہ (ابوسفیان کی عورت) سے فرمایا، تو اپنا اور اپنے بچوں کا خرچ دستور کے موافق نکال لے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو کوئی محتاج ہو وہ (یتیم کے مال میں سے) نیک نیتی کے ساتھ کھا لے۔ اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے عبداللہ بن مرداس سے گدھا کرائے پر لیا تو ان سے اس کا کرایہ پوچھا، تو انہوں نے کہا کہ دو وانق ہے۔ (ایک وانق درہم کا چھٹا حصہ ہوتا ہے) اس کے بعد وہ گدھے پر سوار ہوئے، پھر دوسری مرتبہ ایک ضرورت پر آپ آئے اور کہا کہ مجھے گدھا چاہئیے۔ اس مرتبہ آپ اس پر کرایہ مقرر کئے بغیر سوار ہوئے اور ان کے پاس آدھا درہم بھیج دیا۔
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن حميد الطويل، عن انس بن مالك رضي الله عنه، قال:" حجم رسول الله صلى الله عليه وسلم ابو طيبة" فامر له رسول الله صلى الله عليه وسلم بصاع من تمر، وامر اهله ان يخففوا عنه من خراجه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" حَجَمَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو طَيْبَةَ" فَأَمَرَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَاعٍ مِنْ تَمْرٍ، وَأَمَرَ أَهْلَهُ أَنْ يُخَفِّفُوا عَنْهُ مِنْ خَرَاجِهِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں حمید طویل نے اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوطیبہ نے پچھنا لگایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک صاع کھجور (مزدوری میں) دینے کا حکم فرمایا۔ اور اس کے مالکوں سے فرمایا کہ وہ اس کے خراج میں کچھ کمی کر دیں۔
Narrated Anas bin Malik: Abu Taiba cupped Allah's Apostle and so Allah's Apostle ordered that a Sa of dates be paid to him and ordered his masters (for he was a slave) to reduce his tax.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 412
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا سفيان، عن هشام، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها، قالت هند ام معاوية لرسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن ابا سفيان رجل شحيح، فهل علي جناح ان آخذ من ماله سرا؟ قال: خذي انت وبنوك ما يكفيك بالمعروف".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَت هِنْدٌ أُمُّ مُعَاوِيَةَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ شَحِيحٌ، فَهَلْ عَلَيَّ جُنَاحٌ أَنْ آخُذَ مِنْ مَالِهِ سِرًّا؟ قَالَ: خُذِي أَنْتِ وَبَنُوكِ مَا يَكْفِيكِ بِالْمَعْرُوفِ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی والدہ ہندہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ابوسفیان بخیل آدمی ہے۔ تو کیا اگر میں ان کے مال سے چھپا کر کچھ لے لیا کروں تو کوئی حرج ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے لیے اور اپنے بیٹوں کے لیے نیک نیتی کے ساتھ اتنا لے سکتی ہو جو تم سب کے لیے کافی ہو جایا کرے۔
Narrated `Aisha: Hind, the mother of Mu'awiya said to Allah's Apostle, "Abu Sufyan (her husband) is a miser. Am I allowed to take from his money secretly?" The Prophet said to her, "You and your sons may take what is sufficient reasonably and fairly."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 413
(مرفوع) حدثني إسحاق، حدثنا ابن نمير، اخبرنا هشام. ح وحدثني محمد بن سلام، قال: سمعت عثمان بن فرقد، قال: سمعت هشام بن عروة يحدث، عن ابيه، انه سمع عائشة رضي الله عنها، تقول:" ومن كان غنيا فليستعفف ومن كان فقيرا فلياكل بالمعروف سورة النساء آية 6، انزلت في والي اليتيم الذي يقيم عليه، ويصلح في ماله، إن كان فقيرا اكل منه بالمعروف".(مرفوع) حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ. ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَّامٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ فَرْقَدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ عُرْوَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، تَقُولُ:" وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ سورة النساء آية 6، أُنْزِلَتْ فِي وَالِي الْيَتِيمِ الَّذِي يُقِيمُ عَلَيْهِ، وَيُصْلِحُ فِي مَالِهِ، إِنْ كَانَ فَقِيرًا أَكَلَ مِنْهُ بِالْمَعْرُوفِ".
مجھ سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن نمیر نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ہشام نے خبر دی (دوسری سند) اور مجھ سے محمد نے بیان کیا کہا کہ میں نے عثمان بن فرقد سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ہشام بن عروہ سے سنا، وہ اپنے باپ سے بیان کرتے تھے کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، وہ فرماتی تھیں کہ(قرآن کی آیت) «ومن كان غنيا فليستعفف ومن كان فقيرا فليأكل بالمعروف» جو شخص مالدار ہو وہ (اپنی زیر پرورش یتیم کا مال ہضم کرنے سے) اپنے کو بچائے۔ اور جو فقیر ہو وہ نیک نیتی کے ساتھ اس میں سے کھا لے۔“ یہ آیت یتیموں کے ان سر پرستوں کے متعلق نازل ہوئی تھی جو ان کی اور ان کے مال کی نگرانی اور دیکھ بھال کرتے ہوں کہ اگر وہ فقیر ہیں تو (اس خدمت کے عوض) نیک نیتی کے ساتھ اس میں سے کھا سکتے ہیں۔
Narrated Hisham bin `Urwa from his father: who heard Aisha saying, "The Holy Verse; 'Whoever amongst the guardians is rich, he should take no wages (from the property of the orphans) but If he is poor, let him have for himself what is just and reasonable (according to his labors)' (4.6) was revealed concerning the guardian of the orphans who looks after them and manages favorably their financial affairs; If the guardian Is poor, he could have from It what Is just and reasonable, (according to his labors).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 414
(مرفوع) حدثني محمود، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن جابر رضي الله عنه،" جعل رسول الله صلى الله عليه وسلم الشفعة في كل مال لم يقسم، فإذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة".(مرفوع) حَدَّثَنِي مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشُّفْعَةَ فِي كُلِّ مَالٍ لَمْ يُقْسَمْ، فَإِذَا وَقَعَتِ الْحُدُودُ وَصُرِّفَتِ الطُّرُقُ فَلَا شُفْعَةَ".
ہم سے محمود نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ابوسلمہ نے اور انہیں جابر رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ کا حق ہر اس مال میں قرار دیا تھا جو تقسیم نہ ہوا ہو، لیکن اس کی حد بندی ہو جائے اور راستے بھی پھیر دیئے جائیں تو اب شفعہ کا حق باقی نہیں رہا۔
Narrated Jabir: Allah's Apostle gave preemption (to the partner) in every joint property, but if the boundaries of the property were demarcated or the ways and streets were fixed, then there was no pre-emption.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 415
ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے معمر نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایسے مال میں شفعہ کا حق قائم رکھا جو تقسیم نہ ہوا ہو، لیکن جب اس کی حدود قائم ہو گئی ہوں اور راستہ بھی پھیر دیا گیا ہو تو اب شفعہ کا حق باقی نہیں رہا۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: Allah's Apostle decided the validity of preemption in every joint undivided property, but if the boundaries were well marked or the ways and streets were fixed, then there was no pre-emption. Narrated Mussaddad from `Abdul Wahid: the same as above but said, "... in every joint undivided thing..." Narrated Hisham from Ma`mar the same as above but said, " ... in every property... "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 416, 417
ہم سے مسدد نے اور ان سے عبدالواحد نے اسی طرح بیان کیا، اور کہا کہ ہر اس چیز میں (شفعہ ہے) جو تقسیم نہ ہوئی ہو۔ اس کی متابعت ہشام نے معمر کے واسطہ سے کی ہے اور عبدالرزاق نے یہ لفظ کہے کہ”ہر مال میں“ اس کی روایت عبدالرحمٰن بن اسحاق نے زہری سے کی ہے۔
(مرفوع) حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا ابو عاصم، اخبرنا ابن جريج، قال: اخبرني موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" خرج ثلاثة نفر يمشون فاصابهم المطر، فدخلوا في غار في جبل، فانحطت عليهم صخرة، قال: فقال بعضهم لبعض: ادعوا الله بافضل عمل عملتموه، فقال احدهم: اللهم إني كان لي ابوان شيخان كبيران فكنت اخرج فارعى، ثم اجيء فاحلب فاجيء بالحلاب فآتي به ابوي فيشربان، ثم اسقي الصبية واهلي وامراتي، فاحتبست ليلة فجئت فإذا هما نائمان، قال: فكرهت ان اوقظهما والصبية يتضاغون عند رجلي، فلم يزل ذلك دابي ودابهما حتى طلع الفجر، اللهم إن كنت تعلم اني فعلت ذلك ابتغاء وجهك، فافرج عنا فرجة نرى منها السماء، قال: ففرج عنهم، وقال الآخر: اللهم إن كنت تعلم اني كنت احب امراة من بنات عمي كاشد ما يحب الرجل النساء، فقالت: لا تنال ذلك منها حتى تعطيها مائة دينار، فسعيت فيها حتى جمعتها، فلما قعدت بين رجليها، قالت: اتق الله ولا تفض الخاتم إلا بحقه، فقمت وتركتها، فإن كنت تعلم اني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج عنا فرجة، قال: ففرج عنهم الثلثين، وقال الآخر: اللهم إن كنت تعلم اني استاجرت اجيرا بفرق من ذرة، فاعطيته وابى ذاك ان ياخذ، فعمدت إلى ذلك الفرق فزرعته، حتى اشتريت منه بقرا وراعيها، ثم جاء فقال: يا عبد الله اعطني حقي، فقلت: انطلق إلى تلك البقر وراعيها، فإنها لك، فقال: اتستهزئ بي، قال: فقلت: ما استهزئ بك، ولكنها لك اللهم إن كنت تعلم اني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج عنا، فكشف عنهم".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" خَرَجَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ يَمْشُونَ فَأَصَابَهُمُ الْمَطَرُ، فَدَخَلُوا فِي غَارٍ فِي جَبَلٍ، فَانْحَطَّتْ عَلَيْهِمْ صَخْرَةٌ، قَالَ: فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: ادْعُوا اللَّهَ بِأَفْضَلِ عَمَلٍ عَمِلْتُمُوهُ، فَقَالَ أَحَدُهُمْ: اللَّهُمَّ إِنِّي كَانَ لِي أَبَوَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ فَكُنْتُ أَخْرُجُ فَأَرْعَى، ثُمَّ أَجِيءُ فَأَحْلُبُ فَأَجِيءُ بِالْحِلَابِ فَآتِي بِهِ أَبَوَيَّ فَيَشْرَبَانِ، ثُمَّ أَسْقِي الصِّبْيَةَ وَأَهْلِي وَامْرَأَتِي، فَاحْتَبَسْتُ لَيْلَةً فَجِئْتُ فَإِذَا هُمَا نَائِمَانِ، قَالَ: فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَهُمَا وَالصِّبْيَةُ يَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ رِجْلَيَّ، فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ دَأْبِي وَدَأْبَهُمَا حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ، فَافْرُجْ عَنَّا فُرْجَةً نَرَى مِنْهَا السَّمَاءَ، قَالَ: فَفُرِجَ عَنْهُمْ، وَقَالَ الْآخَرُ: اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي كُنْتُ أُحِبُّ امْرَأَةً مِنْ بَنَاتِ عَمِّي كَأَشَدِّ مَا يُحِبُّ الرَّجُلُ النِّسَاءَ، فَقَالَتْ: لَا تَنَالُ ذَلِكَ مِنْهَا حَتَّى تُعْطِيَهَا مِائَةَ دِينَارٍ، فَسَعَيْتُ فِيهَا حَتَّى جَمَعْتُهَا، فَلَمَّا قَعَدْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا، قَالَتِ: اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَفُضَّ الْخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّهِ، فَقُمْتُ وَتَرَكْتُهَا، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا فُرْجَةً، قَالَ: فَفَرَجَ عَنْهُمُ الثُّلُثَيْنِ، وَقَالَ الْآخَرُ: اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي اسْتَأْجَرْتُ أَجِيرًا بِفَرَقٍ مِنْ ذُرَةٍ، فَأَعْطَيْتُهُ وَأَبَى ذَاكَ أَنْ يَأْخُذَ، فَعَمَدْتُ إِلَى ذَلِكَ الْفَرَقِ فَزَرَعْتُهُ، حَتَّى اشْتَرَيْتُ مِنْهُ بَقَرًا وَرَاعِيهَا، ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ أَعْطِنِي حَقِّي، فَقُلْتُ: انْطَلِقْ إِلَى تِلْكَ الْبَقَرِ وَرَاعِيهَا، فَإِنَّهَا لَكَ، فَقَالَ: أَتَسْتَهْزِئُ بِي، قَالَ: فَقُلْتُ: مَا أَسْتَهْزِئُ بِكَ، وَلَكِنَّهَا لَكَ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا، فَكُشِفَ عَنْهُمْ".
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا کہا کہ ہم کو ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے موسیٰ بن عقبہ نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تین شخص کہیں باہر جا رہے تھے کہ اچانک بارش ہونے لگی۔ انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں جا کر پناہ لی۔ اتفاق سے پہاڑ کی ایک چٹان اوپر سے لڑھکی (اور اس غار کے منہ کو بند کر دیا جس میں یہ تینوں پناہ لیے ہوئے تھے) اب ایک نے دوسرے سے کہا کہ اپنے سب سے اچھے عمل کا جو تم نے کبھی کیا ہو، نام لے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ اس پر ان میں سے ایک نے یہ دعا کی ”اے اللہ! میرے ماں باپ بہت ہی بوڑھے تھے۔ میں باہر لے جا کر اپنے مویشی چراتا تھا۔ پھر جب شام کو واپس آتا تو ان کا دودھ نکالتا اور برتن میں پہلے اپنے والدین کو پیش کرتا۔ جب میرے والدین پی چکتے تو پھر بچوں کو اور اپنی بیوی کو پلاتا۔ اتفاق سے ایک رات واپسی میں دیر ہو گئی اور جب میں گھر لوٹا تو والدین سو چکے تھے۔ اس نے کہا کہ پھر میں نے پسند نہیں کیا کہ انہیں جگاؤں بچے میرے قدموں میں بھوکے پڑے رو رہے تھے۔ میں برابر دودھ کا پیالہ لیے والدین کے سامنے اسی طرح کھڑا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ اے اللہ! اگر تیرے نزدیک بھی میں نے یہ کام صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا، تو ہمارے لیے اس چٹان کو ہٹا کر اتنا راستہ تو بنا دے کہ ہم آسمان کو تو دیکھ سکیں“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ چنانچہ وہ پتھر کچھ ہٹ گیا۔ دوسرے شخص نے دعا کی ”اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ مجھے اپنے چچا کی ایک لڑکی سے اتنی زیادہ محبت تھی جتنی ایک مرد کو کسی عورت سے ہو سکتی ہے۔ اس لڑکی نے کہا تم مجھ سے اپنی خواہش اس وقت تک پوری نہیں کر سکتے جب تک مجھے سو اشرفی نہ دے دو۔ میں نے ان کے حاصل کرنے کی کوشش کی، اور آخر اتنی اشرفی جمع کر لی۔ پھر جب میں اس کی دونوں رانوں کے درمیان بیٹھا۔ تو وہ بولی، اللہ سے ڈر، اور مہر کو ناجائز طریقے پر نہ توڑ۔ اس پر میں کھڑا ہو گیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ اب اگر تیرے نزدیک بھی میں نے یہ عمل تیری ہی رضا کے لیے کیا تھا تو ہمارے لیے (نکلنے کا) راستہ بنا دے“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ چنانچہ وہ پتھر دو تہائی ہٹ گیا۔ تیسرے شخص نے دعا کی ”اے اللہ! تو جانتا ہے کہ میں نے ایک مزدور سے ایک فرق جوار پر کام کرایا تھا۔ جب میں نے اس کی مزدوری اسے دے دی تو اس نے لینے سے انکار کر دیا۔ میں نے اس جوار کو لے کر بو دیا (کھیتی جب کٹی تو اس میں اتنی جوار پیدا ہوئی کہ) اس سے میں نے ایک بیل اور ایک چرواہا خرید لیا۔ کچھ عرصہ بعد پھر اس نے آ کر مزدوری مانگی کہ اللہ کے بندے مجھے میرا حق دیدے۔ میں نے کہا کہ اس بیل اور اس کے چرواہے کے پاس جاؤ کہ یہ تمہارے ہی ملک ہیں۔ اس نے کہا کہ مجھ سے مذاق کرتے ہو۔ میں نے کہا ”میں مذاق نہیں کرتا“ واقعی یہ تمہارے ہی ہیں۔ تو اے اللہ! اگر تیرے نزدیک یہ کام میں نے صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو یہاں ہمارے لیے (اس چٹان کو ہٹا کر) راستہ بنا دے۔ چنانچہ وہ غار پورا کھل گیا اور وہ تینوں شخص باہر آ گئے۔
Narrated Ibn `Umar: The Prophet said, "While three persons were walking, rain began to fall and they had to enter a cave in a mountain. A big rock rolled over and blocked the mouth of the cave. They said to each other, 'Invoke Allah with the best deed you have performed (so Allah might remove the rock)'. One of them said, 'O Allah! My parents were old and I used to go out for grazing (my animals). On my return I would milk (the animals) and take the milk in a vessel to my parents to drink. After they had drunk from it, I would give it to my children, family and wife. One day I was delayed and on my return I found my parents sleeping, and I disliked to wake them up. The children were crying at my feet (because of hunger). That state of affairs continued till it was dawn. O Allah! If You regard that I did it for Your sake, then please remove this rock so that we may see the sky.' So, the rock was moved a bit. The second said, 'O Allah! You know that I was in love with a cousin of mine, like the deepest love a man may have for a woman, and she told me that I would not get my desire fulfilled unless I paid her one-hundred Dinars (gold pieces). So, I struggled for it till I gathered the desired amount, and when I sat in between her legs, she told me to be afraid of Allah, and asked me not to deflower her except rightfully (by marriage). So, I got up and left her. O Allah! If You regard that I did if for Your sake, kindly remove this rock.' So, two-thirds of the rock was removed. Then the third man said, 'O Allah! No doubt You know that once I employed a worker for one Faraq (three Sa's) of millet, and when I wanted to pay him, he refused to take it, so I sowed it and from its yield I bought cows and a shepherd. After a time that man came and demanded his money. I said to him: Go to those cows and the shepherd and take them for they are for you. He asked me whether I was joking with him. I told him that I was not joking with him, and all that belonged to him. O Allah! If You regard that I did it sincerely for Your sake, then please remove the rock.' So, the rock was removed completely from the mouth of the cave."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 418