علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے رضاعت سے بھی وہ سارے رشتے حرام کر دئیے ہیں جو نسب سے حرام ہیں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عائشہ، ابن عباس اور ام حبیبہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اس سلسلے میں ہم ان کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں جانتے۔
وضاحت: ۱؎: یہ سات رشتے ہیں (۱) مائیں (۲) بیٹیاں (۳) بہنیں (۴) پھوپھیاں (۵) خالائیں (۶) بھتیجیاں (۷) بھانجیاں، ماں میں دادی نانی داخل ہے اور بیٹی میں پوتی نواسی داخل، اور بہنیں تین طرح کی ہیں: سگی، سوتیلی اور اخیافی، اسی طرح بھتیجیاں اور بھانجیاں اگرچہ نیچے درجہ کی ہوں اور پھوپھیاں سگی ہوں خواہ سوتیلی خواہ اخیافی، اسی طرح باپ دادا اور ماں اور نانی کی پھوپھیاں سب حرام ہیں اور «خالائیں علی ہذا القیاس» ۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے رضاعت سے بھی وہ تمام رشتے حرام قرار دے دیئے ہیں جو ولادت (نسب) سے حرام ہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف ہے۔
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الخلال، حدثنا ابن نمير، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: جاء عمي من الرضاعة يستاذن علي، فابيت ان آذن له حتى استامر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فليلج عليك فإنه عمك "، قالت: إنما ارضعتني المراة، ولم يرضعني الرجل، قال: " فإنه عمك فليلج عليك ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم، من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم كرهوا لبن الفحل، والاصل في هذا حديث عائشة، وقد رخص بعض اهل العلم في لبن الفحل والقول الاول اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَاءَ عَمِّي مِنَ الرَّضَاعَةِ يَسْتَأْذِنُ عَلَيَّ، فَأَبَيْتُ أَنْ آذَنَ لَهُ حَتَّى أَسْتَأْمِرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَلْيَلِجْ عَلَيْكِ فَإِنَّهُ عَمُّكِ "، قَالَتْ: إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِي الْمَرْأَةُ، وَلَمْ يُرْضِعْنِي الرَّجُلُ، قَالَ: " فَإِنَّهُ عَمُّكِ فَلْيَلِجْ عَلَيْكِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ كَرِهُوا لَبَنَ الْفَحْلِ، وَالْأَصْلُ فِي هَذَا حَدِيثُ عَائِشَةَ، وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي لَبَنِ الْفَحْلِ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے رضاعی چچا آئے، وہ مجھ سے اندر آنے کی اجازت مانگ رہے تھے، تو میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کیا یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تیرے پاس آ سکتے ہیں کیونکہ وہ تیرے چچا ہیں“، اس پر انہوں نے عرض کیا: مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے، مرد نے نہیں، تو آپ نے فرمایا: ”تیرے چچا ہیں، وہ تیرے پاس آ سکتے ہیں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے انہوں نے «لبن فحل»(مرد کے دودھ) کو حرام کہا ہے۔ اس باب میں اصل عائشہ کی حدیث ہے، ۳- اور بعض اہل علم نے «لبن فحل»(مرد کے دودھ) کی رخصت دی ہے۔ پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الرضاع 2 (1445)، (تحفة الأشراف: 1682) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الشہادات 7 (2644) وتفسیر سورة السجدة 9 (6974)، و النکاح 22 (5103)، و1117 (5239)، والأدب 93 (6156)، صحیح مسلم/الرضاع (المصدر المذکور) سنن النسائی/النکاح 49 (3303)، سنن الدارمی/النکاح 48 (2294) من غیر ہذا الوجہ۔»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کے دودھ پلانے سے جس مرد کا دودھ ہو (یعنی اس عورت کا شوہر) وہ بھی شیرخوار پر حرام ہو جاتا ہے اور اس سے بھی شیرخوار کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔
(موقوف) حدثنا حدثنا قتيبة، حدثنا مالك. ح وحدثنا الانصاري، حدثنا معن، قال: حدثنا مالك، عن ابن شهاب، عن عمرو بن الشريد، عن ابن عباس، انه سئل، عن رجل له جاريتان: ارضعت إحداهما جارية، والاخرى غلاما، ايحل للغلام ان يتزوج بالجارية؟، فقال: " لا اللقاح واحد ". قال ابو عيسى: وهذا تفسير لبن الفحل وهذا الاصل في هذا الباب، وهو قول: احمد، وإسحاق.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ. ح وحَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ سُئِلَ، عَنْ رَجُلٍ لَهُ جَارِيتَانِ: أَرْضَعَتْ إِحْدَاهُمَا جَارِيَةً، وَالْأُخْرَى غُلَامًا، أَيَحِلُّ لِلْغُلَامِ أَنْ يَتَزَوَّجَ بِالْجَارِيَةِ؟، فَقَالَ: " لَا اللِّقَاحُ وَاحِدٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا تَفْسِيرُ لَبَنِ الْفَحْلِ وَهَذَا الْأَصْلُ فِي هَذَا الْبَابِ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس کے پاس دو لونڈیاں ہوں، ان میں سے ایک نے ایک لڑکی کو دودھ پلایا ہے اور دوسری نے ایک لڑکے کو۔ تو کیا اس لڑکے کے لیے جائز ہے کہ وہ اس لڑکی سے شادی کرے۔ انہوں نے (ابن عباس رضی الله عنہما) نے کہا: نہیں۔ اس لیے کہ «لقاح» ایک ہی ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہی اس باب میں اصل ہے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الاعلى الصنعاني، قال: حدثنا المعتمر بن سليمان، قال: سمعت ايوب يحدث، عن عبد الله بن ابي مليكة، عن عبد الله بن الزبير، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا تحرم المصة ولا المصتان ". قال: وفي الباب، عن ام الفضل، وابي هريرة، والزبير بن العوام، وابن الزبير، وروى غير واحد هذا الحديث، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عبد الله بن الزبير، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا تحرم المصة ولا المصتان "، وروى محمد بن دينار، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عبد الله بن الزبير، عن الزبير، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وزاد فيه محمد بن دينار البصري، عن الزبير، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وهو غير محفوظ والصحيح عند اهل الحديث، حديث ابن ابي مليكة، عن عبد الله بن الزبير، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم. قال ابو عيسى: حديث عائشة، حديث حسن صحيح، وسالت محمدا عن هذا فقال: الصحيح، عن ابن الزبير، عن عائشة، وحديث محمد بن دينار وزاد فيه، عن الزبير، وإنما هو هشام بن عروة، عن ابيه، عن الزبير، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله ليه وسلم وغيرهم. (حديث موقوف) وقالت عائشة: انزل في القرآن " عشر رضعات معلومات "، فنسخ من ذلك خمس، وصار إلى خمس رضعات معلومات، فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، والامر على ذلك. حدثنا بذلك إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن عبد الله بن ابي بكر، عن عمرة، عن عائشة بهذا، وبهذا كانت عائشة تفتي، وبعض ازواج النبي صلى الله عليه وسلم وهو قول: الشافعي، وإسحاق، وقال احمد بحديث النبي صلى الله عليه وسلم: " لا تحرم المصة ولا المصتان "، وقال: إن ذهب ذاهب، إلى قول عائشة في خمس رضعات، فهو مذهب قوي وجبن عنه، ان يقول فيه شيئا، وقال بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم: يحرم قليل الرضاع، وكثيره إذا وصل إلى الجوف، وهو قول: سفيان الثوري، ومالك بن انس، والاوزاعي، وعبد الله بن المبارك، ووكيع، واهل الكوفة عبد الله بن ابي مليكة هو عبد الله بن عبيد الله بن ابي مليكة ويكنى ابا محمد، وكان عبد الله، قد استقضاه على الطائف، وقال ابن جريج، عن ابن ابي مليكة، قال: ادركت ثلاثين من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَال: سَمِعْتُ أَيُّوبَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَلَا الْمَصَّتَانِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَالزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، وَابْنِ الزُّبَيْرِ، وَرَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَلَا الْمَصَّتَانِ "، وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ الزُّبَيْرِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَزَادَ فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ دِينَارٍ الْبَصْرِيُّ، عَنْ الزُّبَيْرِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَالصَّحِيحُ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، حَدِيثُ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا فَقَالَ: الصَّحِيحُ، عَنْ ابْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، وَحَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ دِينَارٍ وَزَادَ فِيهِ، عَنْ الزُّبَيْرِ، وَإِنَّمَا هُوَ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ الزُّبَيْرِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ َلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ. (حديث موقوف) وَقَالَتْ عَائِشَةُ: أُنْزِلَ فِي الْقُرْآنِ " عَشْرُ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ "، فَنُسِخَ مِنْ ذَلِكَ خَمْسٌ، وَصَارَ إِلَى خَمْسِ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ، فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ بِهَذَا، وَبِهَذَا كَانَتْ عَائِشَةُ تُفْتِي، وَبَعْضُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَإِسْحَاق، وقَالَ أَحْمَدُ بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَلَا الْمَصَّتَانِ "، وقَالَ: إِنْ ذَهَبَ ذَاهِبٌ، إِلَى قَوْلِ عَائِشَةَ فِي خَمْسِ رَضَعَاتٍ، فَهُوَ مَذْهَبٌ قَوِيٌّ وَجَبُنَ عَنْهُ، أَنْ يَقُولَ فِيهِ شَيْئًا، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: يُحَرِّمُ قَلِيلُ الرَّضَاعِ، وَكَثِيرُهُ إِذَا وَصَلَ إِلَى الْجَوْفِ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَالْأَوْزَاعِيِّ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، وَوَكِيعٍ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ وَيُكْنَى أَبَا مُحَمَّدٍ، وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ، قَدِ اسْتَقْضَاهُ عَلَى الطَّائِفِ، وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: أَدْرَكْتُ ثَلَاثِينَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک بار یا دو بار چھاتی سے دودھ چوس لینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ام فضل، ابوہریرہ، زبیر بن عوام اور ابن زبیر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اس حدیث کو دیگر کئی لوگوں نے بطریق: «هشام بن عروة عن أبيه عن عبد الله بن الزبير عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ”ایک یا دو بار دودھ چوس لینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی“۔ اور محمد بن دینار نے بطریق: «هشام بن عروة عن أبيه عن عبد الله بن الزبير عن الزبير عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے، اس میں محمد بن دینار بصریٰ نے زبیر کے واسطے کا اضافہ کیا ہے۔ لیکن یہ غیر محفوظ ہے، ۳- محدثین کے نزدیک صحیح ابن ابی ملیکہ کی روایت ہے جسے انہوں نے بطریق: «عبد الله بن الزبير عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے، ۴- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: صحیح ابن زبیر کی روایت ہے جسے انہوں نے عائشہ سے روایت کی ہے اور محمد بن دینار کی روایت جس میں: زبیر کے واسطے کا اضافہ ہے وہ دراصل ہشام بن عروہ سے مروی ہے جسے انہوں نے اپنے والد عروہ سے اور انہوں نے زبیر سے روایت کی ہے، ۵- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ۶- عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قرآن میں (پہلے) دس رضعات والی آیت نازل کی گئی پھر اس میں سے پانچ منسوخ کر دی گئیں تو پانچ رضاعتیں باقی رہ گئیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو معاملہ انہیں پانچ پر قائم رہا ۲؎، ۷- اور عائشہ رضی اللہ عنہا اور بعض دوسری ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اسی کا فتویٰ دیتی تھیں، اور یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ ۸- امام احمد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ”ایک بار یا دو بار کے چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی“ کے قائل ہیں اور انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر کوئی عائشہ رضی الله عنہا کے پانچ رضعات والے قول کی طرف جائے تو یہ قوی مذہب ہے۔ لیکن انہیں اس کا فتویٰ دینے کی ہمت نہیں ہوئی، ۹- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ رضاعت تھوڑی ہو یا زیادہ جب پیٹ تک پہنچ جائے تو اس سے حرمت ثابت ہو جاتی ہے۔ یہی سفیان ثوری، مالک بن انس، اوزاعی، عبداللہ بن مبارک، وکیع اور اہل کوفہ کا قول ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الرضاع 5 (1450)، سنن ابی داود/ النکاح 11 (2063)، سنن النسائی/النکاح 51 (3310)، سنن ابن ماجہ/النکاح 35 (1941)، (تحفة الأشراف: 16189) (صحیح) وأخرجہ کل من: مسند احمد (6/247)، وسنن الدارمی/النکاح 49 (2297) من غیر ہذا الوجہ۔»
وضاحت: ۱؎: «مصّتہ» اور «رضعۃ» دونوں ایک ہی معنی میں ہے، جب بچہ ماں کی چھاتی کو منہ میں لے کر چوستا ہے پھر بغیر کسی عارضہ کے اپنی مرضی و خوشی سے چھاتی کو چھوڑ دیتا ہے تو اسے «مصّتہ» اور «رضعۃ» کہتے ہیں۔
۲؎: پھر یہ پانچ چوس والی آیت تلاوت منسوخ ہو گئی مگر اس کا حکم باقی رہا (عائشہ رضی الله عنہا کو منسوخ ہونے کا علم نہ ہو سکا) حدیث ”ایک یا دو چوس سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی“ کا مطلب یہی ہے کہ پانچ بار چوس سے ہوتی ہے یا کم از کم تین بار چوس سے ہوتی ہے اس میں علماء کا اختلاف ہے، «واللہ اعلم بالصواب»(احتیاط یہ ہے کہ تین بار پر عمل کیا جائے)۔
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن ايوب، عن عبد الله بن ابي مليكة، قال: حدثني عبيد بن ابي مريم، عن عقبة بن الحارث، قال: وسمعته من عقبة ولكني لحديث عبيد، احفظ قال: تزوجت امراة، فجاءتنا امراة سوداء، فقالت: إني قد ارضعتكما، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: تزوجت فلانة بنت فلان، فجاءتنا امراة سوداء، فقالت: إني قد ارضعتكما وهي كاذبة، قال: فاعرض عني، قال: فاتيته من قبل وجهه، فاعرض عني بوجهه، فقلت: إنها كاذبة، قال: " وكيف بها وقد زعمت انها قد ارضعتكما؟ دعها عنك ". قال: وفي الباب، عن ابن عمر. قال ابو عيسى: حديث عقبة بن الحارث حديث حسن صحيح، وقد روى غير واحد هذا الحديث، عن ابن ابي مليكة، عن عقبة بن الحارث ولم يذكروا فيه، عن عبيد بن ابي مريم ولم يذكروا فيه، دعها عنك، والعمل على هذا الحديث عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، اجازوا شهادة المراة الواحدة في الرضاع، وقال ابن عباس: تجوز شهادة امراة واحدة في الرضاع، ويؤخذ يمينها، وبه يقول احمد، وإسحاق، وقد قال بعض اهل العلم: لا تجوز شهادة المراة الواحدة، حتى يكون اكثر، وهو قول: الشافعي: سمعت الجارود، يقول: سمعت وكيعا، يقول: لا تجوز شهادة امراة واحدة في الحكم، ويفارقها في الورع ".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: وَسَمِعْتُهُ مِنْ عُقْبَةَ وَلَكِنِّي لِحَدِيثِ عُبَيْدٍ، أَحْفَظُ قَالَ: تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً، فَجَاءَتْنَا امْرَأَةٌ سَوْدَاءُ، فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُكُمَا، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: تَزَوَّجْتُ فُلَانَةَ بِنْتَ فُلَانٍ، فَجَاءَتْنَا امْرَأَةٌ سَوْدَاءُ، فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُكُمَا وَهِيَ كَاذِبَةٌ، قَالَ: فَأَعْرَضَ عَنِّي، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ مِنْ قِبَلِ وَجْهِهِ، فَأَعْرَضَ عَنِّي بِوَجْهِهِ، فَقُلْتُ: إِنَّهَا كَاذِبَةٌ، قَالَ: " وَكَيْفَ بِهَا وَقَدْ زَعَمَتْ أَنَّهَا قَدْ أَرْضَعَتْكُمَا؟ دَعْهَا عَنْكَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ، دَعْهَا عَنْكَ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَجَازُوا شَهَادَةَ الْمَرْأَةِ الْوَاحِدَةِ فِي الرَّضَاعِ، وقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: تَجُوزُ شَهَادَةُ امْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ فِي الرَّضَاعِ، وَيُؤْخَذُ يَمِينُهَا، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَا تَجُوزُ شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ الْوَاحِدَةِ، حَتَّى يَكُونَ أَكْثَرَ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ: سَمِعْت الْجَارُودَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا، يَقُولُ: لَا تَجُوزُ شَهَادَةُ امْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ فِي الْحُكْمِ، وَيُفَارِقُهَا فِي الْوَرَعِ ".
عقبہ بن حارث رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے شادی کی تو ایک کالی کلوٹی عورت نے ہمارے پاس آ کر کہا: میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا کہ میں نے فلاں کی بیٹی فلاں سے شادی کی ہے، اب ایک کالی کلوٹی عورت نے آ کر کہا کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، وہ جھوٹ کہہ رہی ہے۔ آپ نے اپنا چہرہ مجھ سے پھیر لیا تو میں آپ کے چہرے کی طرف سے آیا، آپ نے (پھر) اپنا چہرہ پھیر لیا۔ میں نے عرض کیا: وہ جھوٹی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”یہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ وہ کہہ چکی ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ اپنی بیوی اپنے سے علاحدہ کر دو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عقبہ بن حارث رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس حدیث کو کئی اور بھی لوگوں نے ابن ابی ملیکہ سے روایت کیا ہے اور ابن ابی ملیکہ نے عقبہ بن حارث سے روایت کی ہے اور ان لوگوں نے اس میں عبید بن ابی مریم کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، نیز اس میں «دعها عنك»”اسے اپنے سے علاحدہ کر دو“، کا ذکر بھی نہیں ہے۔ اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ انہوں نے رضاعت کے سلسلے میں ایک عورت کی شہادت کو درست قرار دیا ہے، ۴- ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: رضاعت کے سلسلے میں ایک عورت کی شہادت جائز ہے۔ لیکن اس سے قسم بھی لی جائے گی۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں، ۵- اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ ایک عورت کی گواہی درست نہیں جب تک کہ وہ ایک سے زائد نہ ہوں۔ یہ شافعی کا قول ہے، ۶- وکیع کہتے ہیں: ایک عورت کی گواہی فیصلے میں درست نہیں۔ اور اگر ایک عورت کی گواہی سن کر وہ بیوی سے علاحدگی اختیار کر لے تو یہ عین تقویٰ ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابو عوانة، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن فاطمة بنت المنذر، عن ام سلمة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يحرم من الرضاعة إلا ما فتق الامعاء في الثدي، وكان قبل الفطام ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم، من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، ان الرضاعة لا تحرم إلا ما كان دون الحولين، وما كان بعد الحولين الكاملين، فإنه لا يحرم شيئا، وفاطمة بنت المنذر بن الزبير بن العوام وهي امراة هشام بن عروة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يُحَرِّمُ مِنَ الرِّضَاعَةِ إِلَّا مَا فَتَقَ الْأَمْعَاءَ فِي الثَّدْيِ، وَكَانَ قَبْلَ الْفِطَامِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ الرَّضَاعَةَ لَا تُحَرِّمُ إِلَّا مَا كَانَ دُونَ الْحَوْلَيْنِ، وَمَا كَانَ بَعْدَ الْحَوْلَيْنِ الْكَامِلَيْنِ، فَإِنَّهُ لَا يُحَرِّمُ شَيْئًا، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ الْمُنْذِرِ بْنِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ وَهِيَ امْرَأَةُ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رضاعت سے حرمت اسی وقت ثابت ہوتی ہے جب وہ انتڑیوں کو پھاڑ دے ۱؎، اور یہ دودھ چھڑانے سے پہلے ہو“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ رضاعت کی حرمت اس وقت ہوتی ہے جب بچے کی عمر دو برس سے کم ہو، اور جو دو برس پورے ہونے کے بعد ہو تو اس سے کوئی چیز حرام نہیں ہوتی۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن حجاج بن حجاج الاسلمي، عن ابيه، انه سال النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، ما يذهب عني مذمة الرضاع، فقال: " غرة عبد او امة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، ومعنى قوله: ما يذهب عني مذمة الرضاع، يقول: إنما يعني به ذمام الرضاعة، وحقها، يقول: إذا اعطيت المرضعة، عبدا او امة، فقد قضيت ذمامها، ويروى عن ابي الطفيل، قال: كنت جالسا مع النبي صلى الله عليه وسلم، إذ اقبلت امراة فبسط النبي صلى الله عليه وسلم رداءه حتى قعدت عليه، فلما ذهبت قيل: هي كانت ارضعت النبي صلى الله عليه وسلم، هكذا رواه يحيى بن سعيد القطان، وحاتم بن إسماعيل، وغير واحد، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن حجاج بن حجاج، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وروى سفيان بن عيينة، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن حجاج بن ابي حجاج، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وحديث ابن عيينة غير محفوظ والصحيح ما روى هؤلاء، عن هشام بن عروة، عن ابيه، وهشام بن عروة يكنى ابا المنذر، وقد ادرك جابر بن عبد الله، وابن عمر.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ حَجَّاجٍ الْأَسْلَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا يُذْهِبُ عَنِّي مَذَمَّةَ الرَّضَاعِ، فَقَالَ: " غُرَّةٌ عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: مَا يُذْهِبُ عَنِّي مَذَمَّةَ الرَّضَاعِ، يَقُولُ: إِنَّمَا يَعْنِي بِهِ ذِمَامَ الرَّضَاعَةِ، وَحَقَّهَا، يَقُولُ: إِذَا أَعْطَيْتَ الْمُرْضِعَةَ، عَبْدًا أَوْ أَمَةً، فَقَدْ قَضَيْتَ ذِمَامَهَا، وَيُرْوَى عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ أَقْبَلَتِ امْرَأَةٌ فَبَسَطَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رِدَاءَهُ حَتَّى قَعَدَتْ عَلَيْهِ، فَلَمَّا ذَهَبَتْ قِيلَ: هِيَ كَانَتْ أَرْضَعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هَكَذَا رَوَاهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، وَحَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ حَجَّاجٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَوَى سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَبِي حَجَّاجٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَالصَّحِيحُ مَا رَوَى هَؤُلَاءِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، وَهِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ يُكْنَى أَبَا الْمُنْذِرِ، وَقَدْ أَدْرَكَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، وَابْنَ عُمَرَ.
حجاج اسلمی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ کے رسول! مجھ سے حق رضاعت کس چیز سے ادا ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ”ایک جان: غلام یا لونڈی کے ذریعہ سے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسی طرح اسے یحییٰ بن سعید قطان، حاتم بن اسماعیل اور کئی لوگوں نے بطریق: «هشام بن عروة عن أبيه عن حجاج بن حجاج عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے۔ اور سفیان بن عیینہ نے بطریق: «هشام بن عروة عن أبيه عن حجاج بن أبي حجاج عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے اور ابن عیینہ کی حدیث غیر محفوظ ہے۔ صحیح وہی ہے جسے ان لوگوں نے ہشام بن عروۃ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے۔ (یعنی: «حجاج بن حجاج» والی نہ کہ «حجاج بن أبي حجاج» والی) ۳- اور «مايذهب عني مذمة الرضاعة» سے مراد رضاعت کا حق اور اس کا ذمہ ہے۔ وہ کہتے ہیں: جب تم دودھ پلانے والی کو ایک غلام دے دو، یا ایک لونڈی تو تم نے اس کا حق ادا کر دیا، ۴- ابوالطفیل رضی الله عنہ سے روایت کی گئی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں ایک عورت آئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر بچھا دی، یہاں تک کہ وہ اس پر بیٹھ گئی، جب وہ چلی گئی تو کہا گیا: یہی وہ عورت تھی جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ کے شوہر غلام تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو اختیار دیا، تو انہوں نے خود کو اختیار کیا، (عروہ کہتے ہیں) اگر بریرہ کے شوہر آزاد ہوتے تو آپ بریرہ کو اختیار نہ دیتے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/العتق 2 (1504/9)، سنن ابی داود/ الطلاق 19 (2233)، سنن النسائی/الطلاق 31 (3481)، (تحفة الأشراف: 16770) (صحیح) وأخرجہ مطولا ومختصرا کل من: صحیح البخاری/العتق 10 (2536)، والفرائض 22 (6758)، صحیح مسلم/العتق (المصدر المذکور) (504/10)، مسند احمد (6/46، 178)، سنن الدارمی/الطلاق 15 (2337) من غیر ھذا الوجہ، وانظر أیضا مایأتي برقم 1256 و 2124 و 2125»
وضاحت: ۱؎: نسائی نے سنن میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ آخری فقرہ حدیث میں مدرج ہے، یہ عروہ کا قول ہے، اور ابوداؤد نے بھی اس کی وضاحت کر دی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، لكن قوله: " ولو كان.... " مدرج من قول عروة، الإرواء (1873)، صحيح أبي داود (1935)
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة، قالت: " كان زوج بريرة حرا، فخيرها رسول الله صلى الله عليه وسلم ". قال ابو عيسى: حديث عائشة، حديث حسن صحيح هكذا، روى هشام، عن ابيه، عن عائشة، قالت: " كان زوج بريرة عبدا "، وروى عكرمة، عن ابن عباس، قال: رايت زوج بريرة، وكان عبدا، يقال له: مغيث، وهكذا روي عن ابن عمر، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم، وقالوا: إذا كانت الامة تحت الحر، فاعتقت فلا خيار لها، وإنما يكون لها الخيار إذا اعتقت، وكانت تحت عبد وهو قول: الشافعي، واحمد، وإسحاق، وروى الاعمش، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة، قالت: " كان زوج بريرة حرا، فخيرها رسول الله صلى الله عليه وسلم وروى ابو عوانة هذا الحديث، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة في قصة بريرة. قال الاسود: وكان زوجها حرا، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من التابعين، ومن بعدهم وهو قول: سفيان الثوري، واهل الكوفة.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ زَوْجُ بَرِيرَةَ حُرًّا، فَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ هَكَذَا، رَوَى هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ زَوْجُ بَرِيرَةَ عَبْدًا "، وَرَوَى عِكْرِمَةُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: رَأَيْتُ زَوْجَ بَرِيرَةَ، وَكَانَ عَبْدًا، يُقَالُ لَهُ: مُغِيثٌ، وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَالُوا: إِذَا كَانَتِ الْأَمَةُ تَحْتَ الْحُرِّ، فَأُعْتِقَتْ فَلَا خِيَارَ لَهَا، وَإِنَّمَا يَكُونُ لَهَا الْخِيَارُ إِذَا أُعْتِقَتْ، وَكَانَتْ تَحْتَ عَبْدٍ وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَرَوَى الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ زَوْجُ بَرِيرَةَ حُرًّا، فَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَوَى أَبُو عَوَانَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ فِي قِصَّةِ بَرِيرَةَ. قَالَ الْأَسْوَدُ: وَكَانَ زَوْجُهَا حُرًّا، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ کے شوہر آزاد تھے، پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اختیار دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسی طرح ہشام نے اپنے والد عروہ سے اور عروہ نے عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کی ہے، وہ کہتی ہیں کہ بریرہ کا شوہر غلام تھا، ۳- عکرمہ سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: میں نے بریرہ کے شوہر کو دیکھا ہے، وہ غلام تھے اور انہیں مغیث کہا جاتا تھا، ۴- اسی طرح کی ابن عمر رضی الله عنہما سے روایت کی گئی ہے، ۵- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب لونڈی آزاد مرد کے نکاح میں ہو اور وہ آزاد کر دی جائے تو اسے اختیار نہیں ہو گا۔ اسے اختیار صرف اس صورت میں ہو گا، جب وہ آزاد کی جائے اور وہ کسی غلام کی زوجیت میں ہو۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، ۶- لیکن اعمش نے بطریق: «إبراهيم عن الأسود عن عائشة» روایت کی ہے کہ بریرہ کے شوہر آزاد تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اختیار دیا۔ اور ابو عوانہ نے بھی اس حدیث کو بطریق: «الأعمش عن إبراهيم عن الأسود عن عائشة» بریرہ کے قصہ کے سلسلہ میں روایت کیا ہے، اسود کہتے ہیں: بریرہ کے شوہر آزاد تھے، ۷- تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الزکاة 99 (2615)، والطلاق 30 (3479)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 29 (2074) (تحفة الأشراف: 15959)، مسند احمد (6/42) (المحفوظ: ”کان زوجھا عبداً“ ”حراً“ کا لفظ بقول بخاری ”وہم“ ہے) (صحیح) (حدیث میں بریرہ کے شوہر کو ”حرا“ کہا گیا ہے، یعنی وہ غلام نہیں بلکہ آزاد تھے، اس لیے یہ ایک کلمہ شاذ ہے، اور محفوظ اور ثابت روایت ”عبداً“ کی ہے یعنی بریرہ کے شوہر ”مغیث“ غلام تھے)۔»
وضاحت: ۱؎: راجح روایت یہی ہے کہ بریرہ کے شوہر غلام تھے اور ان کا نام مغیث تھا «حراً» کا لفظ وہم ہے کما تقدم۔
قال الشيخ الألباني: شاذ - بلفظ: " حرا "، والمحفوظ: " عبدا " -، ابن ماجة (2074) // ضعيف ابن ماجة برقم (450)، وصحيح سنن ابن ماجة - باختصار السند - برقم (1687)، الإرواء (6 / 276) //
قال الشيخ زبير على زئي: (1155) إسناده ضعيف / د 2235، جه 2074