طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ ۱؎ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اور وہ یا آپ اپنا پیر رکاب میں رکھے ہوئے تھے، کون سا جہاد افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظالم حکمراں کے پاس حق اور سچ کہنا“۔
وضاحت: ۱؎: طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کا شرف تو حاصل ہے مگر آپ سے خود کوئی حدیث نہیں سنی تھی، آپ کی روایت کسی اور صحابی کے واسطہ سے ہوتی ہے، اور اس صحابی کا نام نہ معلوم ہونے سے حدیث کی صحت میں فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ سارے صحابہ کرام ثقہ ہیں اور سند سے معلوم ثقہ، بالخصوص صحابی کا ساقط ہونا حدیث کی صحت میں موثر نہیں، اس لیے کہ سارے صحابہ ثقہ اور عدول ہیں، اس طرح کی حدیث جس میں حدیث نقل کرنے میں صحابی واسطہ صحابی کا ذکر کئے بغیر حدیث کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کر دے، علمائے حدیث کی اصطلاح میں ”مرسل صحابی“ کہتے ہیں، اور ”مرسل صحابی“ مقبول و مستفید ہے۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن ابي إدريس الخولاني، عن عبادة بن الصامت، قال: كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم في مجلس، فقال:" بايعوني على ان لا تشركوا بالله شيئا، ولا تسرقوا، ولا تزنوا، وقرا عليهم الآية، فمن وفى منكم فاجره على الله، ومن اصاب من ذلك شيئا فستر الله عليه، فهو إلى الله عز وجل، إن شاء عذبه، وإن شاء غفر له". (مرفوع) أخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَجْلِسٍ، فَقَالَ:" بَايِعُونِي عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَزْنُوا، وَقَرَأَ عَلَيْهِمُ الْآيَةَ، فَمَنْ وَفَّى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَسَتَرَ اللَّهُ عَلَيْهِ، فَهُوَ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ، وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک مجلس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے تو آپ نے فرمایا: ”تم لوگ مجھ سے بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ گے، نہ چوری کرو گے، نہ زنا کرو گے، پھر آپ نے لوگوں کو (سورۃ الممتحنہ کی) آیت پڑھ کر سنائی“۱؎، پھر فرمایا: ”تم میں سے جس نے بیعت کو پورا کیا تو اس کا اجر اللہ پر ہے، اور جس نے اس میں سے کسی غلط کام کو انجام دیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے چھپائے رکھا تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے چاہے تو اسے سزا دے، اور چاہے تو اسے معاف کر دے“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4166 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس آیت سے مراد سورۃ الممتحنہ کی یہ آیت ہے: «يا أيها النبي إذا جائك المؤمنات يبايعنك على أن لايشركن بالله شيئا …»(سورة الممتحنة: 12)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب تم لوگ امارت و سرداری کی خواہش کرو گے لیکن وہ باعث ندامت و حسرت ہو گی، اس لیے کہ دودھ پلانے والی کتنی اچھی ہوتی ہے، اور دودھ چھڑانے والی کتنی بری ہوتی ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأحکام 7 (7148)، (تحفة الأشراف: 13017)، مسند احمد (2/448، 476) ویأتي عند المؤلف في القضاء (برقم5387) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی حکومت ملتے وقت وہ بھلی لگتی ہے اور جاتے وقت بری لگتی ہے۔