عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پندرہ دن ٹھہرے رہے ۱؎ اور آپ دو دو رکعتیں پڑھتے رہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 5832)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 279 (1231)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 76 (1076) (شاذ) (کیوں کہ تمام صحیح روایات کے خلاف ہے، صحیح روایت ”انیس دن‘‘ کی ہے)»
وضاحت: ۱؎: یہ فتح مکہ کی بات ہے اور دس دن کے قیام والی روایت حجۃ الوداع کے موقع کی ہے، فتح مکہ کے موقع پر مکہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے دنوں تک قیام کیا اس سلسلہ میں روایتیں مختلف ہیں، صحیح بخاری کی روایت میں ۱۹ دن کا ذکر ہے، اور ابوداؤد کی ایک روایت اٹھارہ دن، اور دوسری میں سترہ دن کا ذکر ہے، تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ جس نے دخول اور خروج کے دنوں کو شمار نہیں کیا، اس نے سترہ کی روایت کی ہے اور جس نے دخول کا شمار کیا اور خروج کا نہیں یا خروج کا شمار کیا اور دخول کا نہیں، اس نے اٹھارہ کی روایت کی ہے، رہی پندرہ دن والی مؤلف کی روایت تو یہ شاذ ہے، اور اگر اسے صحیح مان لیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ راوی نے سمجھا کہ اصل ۱۷ دن ہے، پھر اس میں سے دخول اور خروج کو خارج کر کے ۱۵ دن کی روایت کی۔
علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہاجر حج و عمرہ کے ارکان و مناسک پورے کرنے کے بعد (مکہ میں) تین دن تک ٹھر سکتا ہے“۔
علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہاجر اپنے نسک (حج و عمرہ کے ارکان) پورے کرنے کے بعد مکہ میں تین دن ٹھر سکتا ہے“۔
(مرفوع) اخبرني احمد بن يحيى الصوفي، قال: حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا العلاء بن زهير الازدي، قال: حدثنا عبد الرحمن بن الاسود، عن عائشة، انها اعتمرت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم من المدينة إلى مكة، حتى إذا قدمت مكة قالت: يا رسول الله , بابي انت وامي قصرت واتممت وافطرت وصمت , قال:" احسنت يا عائشة وما عاب علي". (مرفوع) أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى الصُّوفِيُّ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قال: حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ زُهَيْرٍ الْأَزْدِيُّ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا اعْتَمَرَتْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ، حَتَّى إِذَا قَدِمَتْ مَكَّةَ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي قَصَرْتَ وَأَتْمَمْتُ وَأَفْطَرْتَ وَصُمْتُ , قَالَ:" أَحْسَنْتِ يَا عَائِشَةُ وَمَا عَابَ عَلَيَّ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عمرہ کرنے کے لیے مدینہ سے مکہ کے لیے نکلیں یہاں تک کہ جب وہ مکہ آ گئیں، تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ نے نماز قصر پڑھی ہے، اور میں نے پوری پڑھی ہے، اور آپ نے روزہ نہیں رکھا ہے اور میں نے رکھا ہے تو آپ نے فرمایا: ”عائشہ! تم نے اچھا کیا“، اور آپ نے مجھ پر کوئی نکیر نہیں کی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 16298) (منکر) (سند میں ’’عبدالرحمن‘‘ اور ”عائشہ رضی اللہ عنہا“ کے درمیان انقطاع ہے، نیز یہ تمام صحیح روایات کے خلاف ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے رمضان میں کوئی عمرہ نہیں کیا ہے، جبکہ اس روایت کے بعض طرق میں ’’رمضان میں‘‘ کا تذکرہ ہے)»
وبرہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہم سفر میں دو رکعت پر اضافہ نہیں کرتے تھے، نہ تو اس سے پہلے نماز پڑھتے اور نہ ہی اس کے بعد، تو ان سے کہا گیا: یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔
(مرفوع) اخبرني نوح بن حبيب، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، قال: حدثنا عيسى بن حفص بن عاصم، قال: حدثني ابي، قال: كنت مع ابن عمر في سفر فصلى الظهر والعصر ركعتين، ثم انصرف إلى طنفسة له، فراى قوما يسبحون , قال: ما يصنع هؤلاء؟ قلت: يسبحون , قال: لو كنت مصليا قبلها او بعدها لاتممتها، صحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان:" لا يزيد في السفر على الركعتين , وابا بكر حتى قبض وعمر وعثمان رضي الله عنهم كذلك". (مرفوع) أَخْبَرَنِي نُوحُ بْنُ حَبِيبٍ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، قال: حَدَّثَنِي أَبِي، قال: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ فِي سَفَرٍ فَصَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى طِنْفِسَةٍ لَهُ، فَرَأَى قَوْمًا يُسَبِّحُونَ , قَالَ: مَا يَصْنَعُ هَؤُلَاءِ؟ قُلْتُ: يُسَبِّحُونَ , قَالَ: لَوْ كُنْتُ مُصَلِّيًا قَبْلَهَا أَوْ بَعْدَهَا لَأَتْمَمْتُهَا، صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ:" لَا يَزِيدُ فِي السَّفَرِ عَلَى الرَّكْعَتَيْنِ , وَأَبَا بَكْرٍ حَتَّى قُبِضَ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ كَذَلِكَ".
حفص بن عاصم کہتے ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایک سفر میں تھا تو انہوں نے ظہر اور عصر کی نمازیں دو دو رکعت پڑھیں، پھر اپنے خیمے کی طرف لوٹنے لگے، تو لوگوں کو دیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں، تو انہوں نے پوچھا: یہ لوگ (اب) کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: یہ لوگ سنت پڑھ رہے ہیں، تو انہوں نے کہا: اگر میں اس سے پہلے یا بعد میں کوئی نماز پڑھنے والا ہوتا تو میں فرض ہی کو پورا کرتا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا، آپ سفر میں دو رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، ابوبکر کے ساتھ رہا یہاں تک کہ ان کا انتقال ہو گیا، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ بھی رہا یہ سب لوگ اسی طرح کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تقصیر ال صلاة 11 (1101، 1102)، صحیح مسلم/المسافرین 1 (689)، سنن ابی داود/الصلاة 276 (1223)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة 274 (الجمعة 39) (544)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 75 (1071)، (تحفة الأشراف: 6693)، مسند احمد 2/24، 56 (صحیح)»