(مرفوع) اخبرنا قتيبة بن سعيد، قال: حدثنا ابو عوانة، عن عبد الرحمن بن الاصم، قال: سئل انس بن مالك، عن التكبير في الصلاة، فقال:" يكبر إذا ركع وإذا سجد , وإذا رفع راسه من السجود , وإذا قام من الركعتين" , فقال حطيم عمن تحفظ هذا , فقال: عن النبي صلى الله عليه وسلم وابي بكر وعمر رضي الله عنهما، ثم سكت , فقال له حطيم: وعثمان , قال: وعثمان. (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَصَمِّ، قَالَ: سُئِلَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، عَنِ التَّكْبِيرِ فِي الصَّلَاةِ، فَقَالَ:" يُكَبِّرُ إِذَا رَكَعَ وَإِذَا سَجَدَ , وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ , وَإِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ" , فَقَالَ حُطَيْمٌ عَمَّنْ تَحْفَظُ هَذَا , فَقَالَ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ثُمَّ سَكَتَ , فَقَالَ لَهُ حُطَيْمٌ: وَعُثْمَانُ , قَالَ: وَعُثْمَانُ.
عبدالرحمٰن بن اصم کہتے ہیں کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نماز میں اللہ اکبر کہنے کے سلسلہ میں پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا: اللہ اکبر کہے جب رکوع میں جائے، اور جب سجدہ میں جائے، اور جب سجدہ سے سر اٹھائے، اور جب دوسری رکعت سے اٹھے۔ حطیم نے پوچھا: آپ نے اسے کس سے سن کر یاد کیا ہے، تو انہوں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم سے، پھر وہ خاموش ہو گئے، تو حطیم نے ان سے کہا، اور عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی؟ انہوں نے کہا: اور عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی۔
مطرف بن عبداللہ کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی، تو وہ ہر جھکنے اور اٹھنے میں اللہ اکبر کہتے تھے، اور تکبیر پوری کرتے تھے (اس میں کوئی کمی نہیں کرتے تھے) تو عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے کہا: اس شخص نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز یاد دلا دی۔
ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب دونوں رکعتوں سے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے، اور رفع یدین کرتے یہاں تک کہ دونوں ہاتھوں کو اپنے مونڈھوں کے برابر لے جاتے، جیسے وہ نماز شروع کرتے وقت کرتے تھے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے جب نماز میں داخل ہوتے، اور جب رکوع کا ارادہ کرتے، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے، اور دو رکعتوں کے بعد جب کھڑے ہوتے تو بھی اپنے ہاتھوں کو مونڈھوں کے بالمقابل اٹھاتے تھے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله بن بزيع، قال: حدثنا عبد الاعلى بن عبد الاعلى، قال: حدثنا عبيد الله وهو ابن عمر , عن ابي حازم، عن سهل بن سعد، قال: انطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم , يصلح بين بني عمرو بن عوف فحضرت الصلاة , فجاء المؤذن إلى ابي بكر , فامره ان يجمع الناس ويؤمهم , فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فخرق الصفوف حتى قام في الصف المقدم , وصفح الناس بابي بكر ليؤذنوه برسول الله صلى الله عليه وسلم وكان ابو بكر لا يلتفت في الصلاة , فلما اكثروا علم انه قد نابهم شيء في صلاتهم , فالتفت فإذا هو برسول الله صلى الله عليه وسلم , فاوما إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم اي كما انت , فرفع ابو بكر يديه فحمد الله واثنى عليه لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم رجع القهقرى , وتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى , فلما انصرف , قال لابي بكر:" ما منعك إذ اومات إليك ان تصلي" , فقال ابو بكر رضي الله عنه: ما كان ينبغي لابن ابي قحافة ان يؤم رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال للناس:" ما بالكم صفحتم إنما التصفيح للنساء، ثم قال: إذا نابكم شيء في صلاتكم فسبحوا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ وَهُوَ ابْنُ عُمَرَ , عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: انْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يُصْلِحُ بَيْنَ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ , فَجَاءَ الْمُؤَذِّنُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ , فَأَمَرَهُ أَنْ يَجْمَعَ النَّاسَ وَيَؤُمَّهُمْ , فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَقَ الصُّفُوفَ حَتَّى قَامَ فِي الصَّفِّ الْمُقَدَّمِ , وَصَفَّحَ النَّاسُ بِأَبِي بَكْرٍ لِيُؤْذِنُوهُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لَا يَلْتَفِتُ فِي الصَّلَاةِ , فَلَمَّا أَكْثَرُوا عَلِمَ أَنَّهُ قَدْ نَابَهُمْ شَيْءٌ فِي صَلَاتِهِمْ , فَالْتَفَتَ فَإِذَا هُوَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْ كَمَا أَنْتَ , فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ يَدَيْهِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى , وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى , فَلَمَّا انْصَرَفَ , قَالَ لِأَبِي بَكْرٍ:" مَا مَنَعَكَ إِذْ أَوْمَأْتُ إِلَيْكَ أَنْ تُصَلِّيَ" , فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: مَا كَانَ يَنْبَغِي لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يَؤُمَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ:" مَا بَالُكُمْ صَفَّحْتُمْ إِنَّمَا التَّصْفِيحُ لِلنِّسَاءِ، ثُمَّ قَالَ: إِذَا نَابَكُمْ شَيْءٌ فِي صَلَاتِكُمْ فَسَبِّحُوا".
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ بنی عمرو بن عوف کے درمیان صلح کرانے گئے تھے کہ نماز کا وقت ہو گیا، تو مؤذن ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور اس نے ان سے لوگوں کو جمع کر کے ان کی امامت کرنے کے لیے کہا (چنانچہ انہوں نے امامت شروع کر دی) اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، اور صفوں کو چیر کر اگلی صف میں آ کر کھڑے ہو گئے، لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تالیاں بجانے لگے تاکہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خبر دے دیں، جب لوگوں نے کثرت سے تالیاں بجائیں تو انہیں احساس ہوا کہ نماز میں کوئی چیز ہو گئی ہے، تو وہ متوجہ ہوئے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ہیں ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں کسی اور طرف دھیان نہیں کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ جیسے ہو ویسے ہی رہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کہنے پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ کی حمد و ثنا کی، پھر وہ الٹے پاؤں پیچھے آ گئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے، پھر آپ نے نماز پڑھائی، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ”تم نے نماز کیوں نہیں پڑھائی، جب میں نے تمہیں اشارہ کر دیا تھا؟“ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوقحافہ کے بیٹے کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کرے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا: ”تمہیں کیا ہو گیا تھا کہ تم تالیاں بجا رہے تھے، تالیاں تو عورتوں کے لیے ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہیں تمہاری نماز میں کوئی چیز پیش آ جائے، تو تم ”سبحان اللہ“ کہو“۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة بن سعيد، قال: حدثنا عبثر، عن الاعمش، عن المسيب بن رافع، عن تميم بن طرفة، عن جابر بن سمرة، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم , ونحن رافعو ايدينا في الصلاة , فقال:" ما بالهم رافعين ايديهم في الصلاة كانها اذناب الخيل الشمس , اسكنوا في الصلاة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْثَرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَنَحْنُ رَافِعُو أَيْدِينَا فِي الصَّلَاةِ , فَقَالَ:" مَا بَالُهُمْ رَافِعِينَ أَيْدِيَهُمْ فِي الصَّلَاةِ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ , اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ".
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، اور ہم نماز میں اپنے ہاتھ اٹھا اٹھا کر سلام کر رہے تھے ۱؎ تو آپ نے فرمایا: ”لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ نماز میں اپنے ہاتھ اٹھا رہے ہیں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دم ہیں، نماز میں سکون سے رہا کرو“۔
(مرفوع) اخبرنا احمد بن سليمان، قال: حدثنا يحيى بن آدم، عن مسعر، عن عبيد الله ابن القبطية، عن جابر بن سمرة، قال: كنا نصلي خلف النبي صلى الله عليه وسلم فنسلم بايدينا , فقال:" ما بال هؤلاء يسلمون بايديهم كانها اذناب خيل شمس؟ اما يكفي احدهم ان يضع يده على فخذه، ثم يقول: السلام عليكم , السلام عليكم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ابْنِ الْقِبْطِيَّةِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: كُنَّا نُصَلِّي خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنُسَلِّمُ بِأَيْدِينَا , فَقَالَ:" مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يُسَلِّمُونَ بِأَيْدِيهِمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمُسٍ؟ أَمَا يَكْفِي أَحَدُهُمْ أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ، ثُمَّ يَقُولَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمُ , السَّلَامُ عَلَيْكُمْ".
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے، اور اپنے ہاتھ اٹھا کر سلام کرتے تھے، اس پر آپ نے فرمایا: ”ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ اپنے ہاتھ اٹھا اٹھا کر سلام کرتے ہیں گویا کہ یہ شریر گھوڑوں کی دم ہیں، کیا ان کے لیے یہ کافی نہیں کہ وہ اپنے ہاتھ اپنی ران پر رکھیں پھر «السلام عليكم، السلام عليكم» کہیں“۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة بن سعيد، قال: حدثنا الليث، عن بكير، عن نابل صاحب العباء، عن ابن عمر، عن صهيب صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" مررت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يصلي فسلمت عليه , فرد علي إشارة , ولا اعلم , إلا انه قال: بإصبعه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ بُكَيْرٍ، عَنْ نَابِلٍ صَاحِبِ الْعَبَاءِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ صُهَيْبٍ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" مَرَرْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ , فَرَدَّ عَلَيَّ إِشَارَةً , وَلَا أَعْلَمُ , إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: بِإِصْبَعِهِ".
صحابی رسول صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا، اور آپ نماز پڑھ رہے تھے تو میں نے آپ کو سلام کیا، تو آپ نے مجھے اشارے سے جواب دیا، (ابن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں) اور میں یہی جانتا ہوں کہ صہیب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے اشارہ کیا۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور المكي، قال: حدثنا سفيان، عن زيد ابن اسلم , قال: قال ابن عمر:" دخل النبي صلى الله عليه وسلم مسجد قباء ليصلي فيه , فدخل عليه رجال يسلمون عليه , فسالت صهيبا وكان معه: كيف كان النبي صلى الله عليه وسلم يصنع إذا سلم عليه؟ قال:" كان يشير بيده". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ الْمَكِّيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زَيْدِ ابْنِ أَسْلَمَ , قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ:" دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسْجِدَ قُبَاءَ لِيُصَلِّيَ فِيهِ , فَدَخَلَ عَلَيْهِ رِجَالٌ يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ , فَسَأَلْتُ صُهَيْبًا وَكَانَ مَعَهُ: كَيْفَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ إِذَا سُلِّمَ عَلَيْهِ؟ قَالَ:" كَانَ يُشِيرُ بِيَدِهِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد قباء میں نماز پڑھنے کے لیے داخل ہوئے، تو لوگ ان کے پاس سلام کرنے کے لیے آئے، میں نے صہیب صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا (وہ آپ کے ساتھ تھے) کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب سلام کیا جاتا تھا تو آپ کیسے جواب دیتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: آپ اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے۔
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، اور آپ نماز پڑھ رہے تھے، تو آپ نے انہیں (اشارے سے) جواب دیا۔