(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله بن يزيد، قال: حدثنا سفيان، عن ايوب، عن محمد، عن انس، قال: اتانا منادي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" إن الله ورسوله ينهاكم عن لحوم الحمر فإنها رجس". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قال: أَتَانَا مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يَنْهَاكُمْ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ فَإِنَّهَا رِجْسٌ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منادی آیا اور اس نے کہا: اللہ اور اس کے رسول تم لوگوں کو گدھوں کے گوشت سے منع فرماتے ہیں، کیونکہ وہ ناپاک ہیں ۱؎۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا عبد الرحمن، عن سفيان، عن المقدام بن شريح، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:" كنت اتعرق العرق فيضع رسول الله صلى الله عليه وسلم فاه حيث وضعت وانا حائض، وكنت اشرب من الإناء فيضع فاه حيث وضعت وانا حائض". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قالت:" كُنْتُ أَتَعَرَّقُ الْعَرْقَ فَيَضَعُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاهُ حَيْثُ وَضَعْتُ وَأَنَا حَائِضٌ، وَكُنْتُ أَشْرَبُ مِنَ الْإِنَاءِ فَيَضَعُ فَاهُ حَيْثُ وَضَعْتُ وَأَنَا حَائِضٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں ہڈی نوچتی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا منہ اسی جگہ رکھتے جہاں میں رکھتی حالانکہ میں حائضہ ہوتی، اور میں برتن سے پانی پیتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا منہ اسی جگہ رکھتے جہاں میں رکھتی، حالانکہ میں حائضہ ہوتی۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة بن سعيد، قال: حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة انها اخبرته، انها" كانت تغتسل مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في الإناء الواحد". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنَّهَا" كَانَتْ تَغْتَسِلُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْإِنَاءِ الْوَاحِدِ".
عروہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے انہیں خبر دی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہی برتن سے غسل کرتی تھیں۔
وضاحت: مکوک سے مراد یہاں مد ہے، اور ایک قول کے مطابق صاع ہے لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ ایک روایت میں مکوک کی تفسیر مد سے کی گئی ہے، اور مد اہل حجاز کے نزدیک ایک رطل اور تہائی رطل کا ہوتا ہے، اور اہل عراق کے نزدیک دو رطل کا ہوتا ہے، اس حساب سے صاع جو چار مد کا ہوتا ہے اہل حجاز کے نزدیک پانچ رطل کا ہو گا، اور اہل عراق کے نزدیک آٹھ رطل کا ہو گا۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن بشار، قال: حدثنا محمد، ثم ذكر كلمة معناها، حدثنا شعبة، عن حبيب، قال: سمعت عباد بن تميم، يحدث عن جدتي وهي ام عمارة بنت كعب، ان النبي صلى الله عليه وسلم" توضا فاتي بماء في إناء قدر ثلثي المد". قال شعبة: فاحفظ انه غسل ذراعيه وجعل يدلكهما ويمسح اذنيه باطنهما". ولا احفظ انه مسح ظاهرهما. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ، ثُمَّ ذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حَبِيبٍ، قال: سَمِعْتُ عَبَّادَ بْنَ تَمِيمٍ، يُحَدِّثُ عَنْ جَدَّتِي وَهِيَ أُمُّ عُمَارَةَ بِنْتُ كَعْبٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" تَوَضَّأَ فَأُتِيَ بِمَاءٍ فِي إِنَاءٍ قَدْرَ ثُلُثَيِ الْمُدِّ". قَالَ شُعْبَةُ: فَأَحْفَظُ أَنَّهُ غَسَلَ ذِرَاعَيْهِ وَجَعَلَ يَدْلُكُهُمَا وَيَمْسَحُ أُذُنَيْهِ بَاطِنَهُمَا". وَلَا أَحْفَظُ أَنَّهُ مَسَحَ ظَاهِرَهُمَا.
ام عمارہ بنت کعب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کا ارادہ کیا تو آپ کی خدمت میں ایک برتن میں دو تہائی مد کے بقدر پانی لایا گیا، (شعبہ کہتے ہیں: مجھے اتنا اور یاد ہے کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو دھویا، اور انہیں ملنے اور اپنے دونوں کانوں کے داخلی حصے کا مسح کرنے لگے، اور مجھے یہ نہیں یاد کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اوپری (ظاہری) حصے کا مسح کیا۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، آدمی کے لیے وہی چیز ہے جس کی اس نے نیت کی، تو جس نے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو گی، اور جس نے دنیا کے حصول یا کسی عورت سے شادی کرنے کی غرض سے ہجرت کی تو اس کی ہجرت اسی چیز کے واسطے ہو گی جس کے لیے اس نے ہجرت کی“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کی بنیاد پر علماء کا اتفاق ہے کہ اعمال میں نیت ضروری ہے، اور نیت کے مطابق ہی اجر ملے گا، اور نیت کا محل دل ہے یعنی دل میں نیت کرنی ضروری ہے، زبان سے اس کا اظہار ضروری نہیں، بلکہ یہ بدعت ہے سوائے ان صورتوں کے جن میں زبان سے نیت کرنا دلائل و نصوص سے ثابت ہے، جیسے حج و عمرہ وغیرہ۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، عن مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، عن انس، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم" وحانت صلاة العصر فالتمس الناس الوضوء فلم يجدوه، فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بوضوء فوضع يده في ذلك الإناء، وامر الناس ان يتوضئوا فرايت الماء ينبع من تحت اصابعه حتى توضئوا من عند آخرهم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قال: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" وَحَانَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ فَالْتَمَسَ النَّاسُ الْوَضُوءَ فَلَمْ يَجِدُوهُ، فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَضُوءٍ فَوَضَعَ يَدَهُ فِي ذَلِكَ الْإِنَاءِ، وَأَمَرَ النَّاسَ أَنْ يَتَوَضَّئُوا فَرَأَيْتُ الْمَاءَ يَنْبُعُ مِنْ تَحْتِ أَصَابِعِهِ حَتَّى تَوَضَّئُوا مِنْ عِنْدِ آخِرِهِمْ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی حالت میں دیکھا کہ عصر کا وقت قریب ہو گیا تھا، تو لوگوں نے وضو کے لیے پانی تلاش کیا مگر وہ پانی نہیں پا سکے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تھوڑا سا وضو کا پانی لایا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برتن میں اپنا ہاتھ رکھا، اور لوگوں کو وضو کرنے کا حکم دیا، تو میں نے دیکھا کہ پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے نیچے سے ابل رہا ہے، حتیٰ کہ ان کے آخری آدمی نے بھی وضو کر لیا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ تھا، دوسری روایت میں ہے کہ یہ کل تین سو آدمی تھے، ایک روایت میں ہے کہ ایک ہزار پانچ سو آدمی تھے «واللہ اعلم» ۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا عبد الرزاق، قال: انبانا سفيان، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، قال:" كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم فلم يجدوا ماء فاتي بتور فادخل يده، فلقد رايت الماء يتفجر من بين اصابعه، ويقول: حي على الطهور والبركة من الله عز وجل". قال الاعمش: فحدثني سالم بن ابي الجعد، قال: قلت لجابر: كم كنتم يومئذ؟ قال: الف وخمس مائة. (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قال: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قال:" كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَجِدُوا مَاءً فَأُتِيَ بِتَوْرٍ فَأَدْخَلَ يَدَهُ، فَلَقَدْ رَأَيْتُ الْمَاءَ يَتَفَجَّرُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ، وَيَقُولُ: حَيَّ عَلَى الطَّهُورِ وَالْبَرَكَةِ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ". قَالَ الْأَعْمَشُ: فَحَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ أَبِي الْجَعْدِ، قَالَ: قُلْتُ لِجَابِرٍ: كَمْ كُنْتُمْ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: أَلْفٌ وَخَمْسُ مِائَةٍ.
عبداللہ (عبداللہ بن مسعود) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، لوگوں کو پانی نہ ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک طشت لایا گیا، آپ نے اس میں اپنا ہاتھ داخل کیا، تو میں نے دیکھا کہ پانی آپ کی انگلیوں کے درمیان سے ابل رہا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”پاک کرنے والے پانی اور اللہ کی برکت پر آؤ“۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا عبد الرزاق، قال: حدثنا معمر، عن ثابت، وقتادة، عن انس، قال: طلب بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وضوءا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هل مع احد منكم ماء؟ فوضع يده في الماء، ويقول: توضئوا بسم الله، فرايت الماء يخرج من بين اصابعه حتى توضئوا من عند آخرهم". قال ثابت: قلت لانس: كم تراهم؟ قال: نحوا من سبعين. (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قال: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، وَقَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، قال: طَلَبَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضُوءًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ مَعَ أَحَدٍ مِنْكُمْ مَاءٌ؟ فَوَضَعَ يَدَهُ فِي الْمَاءِ، وَيَقُولُ: تَوَضَّئُوا بِسْمِ اللَّهِ، فَرَأَيْتُ الْمَاءَ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ حَتَّى تَوَضَّئُوا مِنْ عِنْدِ آخِرِهِمْ". قَالَ ثَابِتٌ: قُلْتُ لِأَنَسٍ: كَمْ تُرَاهُمْ؟ قَالَ: نَحْوًا مِنْ سَبْعِينَ.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کچھ صحابہ کرام نے وضو کا پانی تلاش کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم میں سے کسی کے پاس پانی ہے؟“(تو ایک برتن میں تھوڑا سا پانی لایا گیا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ یہ فرماتے ہوئے پانی میں ڈالا: ”بسم اللہ کر کے وضو کرو“ میں نے دیکھا کہ پانی آپ کی انگلیوں کے درمیان سے نکل رہا تھا، حتیٰ کہ ان میں سے آخری آدمی نے بھی وضو کر لیا۔ ثابت کہتے ہیں: میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ کے خیال میں وہ کتنے لوگ تھے؟ تو انہوں نے کہا: ستر کے قریب ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائی، حدیث ثابت عن أنس، (تحفة الأشراف: 484)، وحدیث قتادة عن أنس، (تحفة الأشراف: 1347)، (نیز ملاحظہ ہو: 76) (صحیح الاسناد)»
وضاحت: ۱؎: اس باب اور اس سے پہلے والے باب کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ایک سے زیادہ بار پیش آیا تھا، «واللہ اعلم بالصواب» ۔