عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر بیت اللہ کا سات بار طواف کیا، پھر طواف کی دونوں رکعتیں پڑھیں۔ وکیع کہتے ہیں: یعنی مقام ابراہیم کے پاس، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی کی طرف نکلے۔
(مرفوع) حدثنا العباس بن عثمان الدمشقي ، حدثنا الوليد بن مسلم ، عن مالك بن انس ، عن جعفر بن محمد ، عن ابيه ، عن جابر " انه لما فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم من طواف البيت، اتى مقام إبراهيم، فقال عمر: يا رسول الله، هذا مقام ابينا إبراهيم الذي قال الله سبحانه: واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى سورة البقرة آية 125"، قال الوليد: فقلت لمالك: هكذا قراها واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى سورة البقرة آية 125، قال: نعم. (مرفوع) حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرٍ " أَنَّهُ لَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ طَوَافِ الْبَيْتِ، أَتَى مَقَامَ إِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا مَقَامُ أَبِينَا إِبْرَاهِيمَ الَّذِي قَالَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ: وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125"، قَالَ الْوَلِيدُ: فَقُلْتُ لِمَالِكٍ: هَكَذَا قَرَأَهَا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125، قَالَ: نَعَمْ.
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے طواف سے فارغ ہوئے تو مقام ابراہیم کے پاس آئے، عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ہمارے باپ ابراہیم کی جگہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: «واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى»”مقام ابراھیم کو نماز کی جگہ بناؤ“، ولید کہتے ہیں کہ میں نے مالک سے کہا: کیا اس کو اسی طرح (بکسر خاء) صیغہ امر کے ساتھ پڑھا؟ انہوں نے کہا: ہاں ۱؎۔
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ وہ بیمار ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لوگوں کے پیچھے سوار ہو کر طواف کرنے کا حکم دیا، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت اللہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ «والطور وكتاب مسطور» کی قرات فرما رہے تھے۔ ابن ماجہ کہتے ہیں: یہ ابوبکر بن ابی شیبہ کی روایت ہے۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بیماری اور کمزوری کی حالت میں سوار ہو کر طواف کرنا درست ہے، آج کل بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے سواری پر طواف کرنا بڑا مشکل بلکہ ناممکن ہے، اس لیے اس کی جگہ پرمخصوص لوگ حجاج کو چارپائی پر بٹھا کرطواف کراتے ہیں۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا عبد الرزاق ، قال: سمعت المثنى بن الصباح ، يقول: حدثني عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال:" طفت مع عبد الله بن عمرو، فلما فرغنا من السبع ركعنا في دبر الكعبة، فقلت: الا نتعوذ بالله من النار، قال: اعوذ بالله من النار، قال: ثم مضى، فاستلم الركن، ثم قام بين الحجر والباب: فالصق صدره ويديه وخده إليه، ثم قال: هكذا رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعل". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْمُثَنَّى بْنَ الصَّبَّاحِ ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ:" طُفْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، فَلَمَّا فَرَغْنَا مِنَ السَّبْعِ رَكَعْنَا فِي دُبُرِ الْكَعْبَةِ، فَقُلْتُ: أَلَا نَتَعَوَّذُ بِاللَّهِ مِنَ النَّارِ، قَالَ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ النَّارِ، قَالَ: ثُمَّ مَضَى، فَاسْتَلَمَ الرُّكْنَ، ثُمَّ قَامَ بَيْنَ الْحَجَرِ وَالْبَاب: فَأَلْصَقَ صَدْرَهُ وَيَدَيْهِ وَخَدَّهُ إِلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ".
شعیب کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے دادا) عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کے ساتھ طواف کیا، جب ہم سات پھیروں سے فارغ ہوئے، تو ہم نے کعبہ کے پیچھے طواف کی دو رکعتیں ادا کیں، میں نے کہا: کیا ہم جہنم سے اللہ تعالیٰ کی پناہ نہ چاہیں؟ انہوں نے کہا: میں جہنم سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں، شعیب کہتے ہیں: پھر عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے چل کر حجر اسود کا استلام کیا، پھر حجر اسود اور باب کعبہ کے درمیان کھڑے ہوئے، اور اپنا سینہ، دونوں ہاتھ اور چہرے کو اس سے چمٹا دیا، پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/المناسک 55 (1899)، (تحفة الأشراف: 8776) (حسن)» (سند میں مثنی بن الصباح ضعیف ہیں، لیکن متابعت اور شواہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2138)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (1899) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 484
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعلي بن محمد ، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة ، عن عبد الرحمن بن القاسم ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم لا نرى إلا الحج، فلما كنا بسرف او قريبا من سرف حضت، فدخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا ابكي، فقال:" ما لك، انفست؟"، قلت: نعم، قال:" إن هذا امر كتبه الله على بنات آدم، فاقضي المناسك كلها، غير ان لا تطوفي بالبيت"، قالت: وضحى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نسائه بالبقر. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَرَى إِلَّا الْحَجَّ، فَلَمَّا كُنَّا بِسَرِفَ أَوْ قَرِيبًا مِنْ سَرِفَ حِضْتُ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، فَقَالَ:" مَا لَكِ، أَنَفِسْتِ؟"، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" إِنَّ هَذَا أَمْرٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، فَاقْضِي الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا، غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ"، قَالَتْ: وَضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِسَائِهِ بِالْبَقَرِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہمارے پیش نظر صرف حج کرنا تھا، جب ہم مقام سرف میں تھے یا سرف کے قریب پہنچے تو مجھے حیض آ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے، میں رو رہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا؟ کیا حیض آ گیا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم زادیوں پر لکھ دیا ہے، تم حج کے سارے اعمال ادا کرو، البتہ خانہ کعبہ کا طواف نہ کرنا“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی۔
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2638، ومصباح الزجاجة: 1040) (صحیح) (ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ ثابت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج قران کیا، نیز ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی: رقم: 371)»
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف نکلے، میں نے آپ کو حج اور عمرہ کا ایک ساتھ تلبیہ پکارتے ہوئے سنا ۱؎۔