(مرفوع) حدثنا القعنبي، عن مالك، عن موسى بن عقبة، عن سالم بن عبد الله، عن ابيه، قال:" بيداؤكم هذه التي تكذبون على رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها ما اهل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا من عند المسجد، يعني مسجد ذي الحليفة". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" بَيْدَاؤُكُمْ هَذِهِ الَّتِي تَكْذِبُونَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا مَا أَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مِنْ عِنْدِ الْمَسْجِدِ، يَعْنِي مَسْجِدَ ذِي الْحُلَيْفَةِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ یہی وہ بیداء کا مقام ہے جس کے بارے میں تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غلط بیان کرتے ہو کہ آپ نے تو مسجد یعنی ذی الحلیفہ کی مسجد کے پاس ہی سے تلبیہ کہا تھا۔
Ibn Umar said this is your al-Baida’ about which you ascribe falsehood to the Messenger of Allah ﷺ. He did not raise his voice in talbiyah but from the masjid, i. e. the mosque of Dhu al-Hulaifah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1767
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1541) صحيح مسلم (1186)
(مرفوع) حدثنا القعنبي، عن مالك، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن عبيد بن جريج، انه قال لعبد الله بن عمر:" يا ابا عبد الرحمن، رايتك تصنع اربعا لم ار احدا من اصحابك يصنعها، قال: ما هن يا ابن جريج؟ قال: رايتك لا تمس من الاركان إلا اليمانيين، ورايتك تلبس النعال السبتية، ورايتك تصبغ بالصفرة، ورايتك إذا كنت بمكة اهل الناس إذا راوا الهلال، ولم تهل انت حتى كان يوم التروية، فقال عبد الله بن عمر: اما الاركان، فإني لم ار رسول الله صلى الله عليه وسلم يمس إلا اليمانيين، واما النعال السبتية، فإني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبس النعال التي ليس فيها شعر ويتوضا فيها، فانا احب ان البسها، واما الصفرة فإني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصبغ بها، فانا احب ان اصبغ بها، واما الإهلال، فإني لم ار رسول الله صلى الله عليه وسلم يهل حتى تنبعث به راحلته". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ جُرَيْجٍ، أَنَّهُ قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ:" يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، رَأَيْتُكَ تَصْنَعُ أَرْبَعًا لَمْ أَرَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِكَ يَصْنَعُهَا، قَالَ: مَا هُنَّ يَا ابْنَ جُرَيْجٍ؟ قَالَ: رَأَيْتُكَ لَا تَمَسُّ مِنَ الْأَرْكَانِ إِلَّا الْيَمَانِيَّيْنِ، وَرَأَيْتُكَ تَلْبَسُ النِّعَالَ السِّبْتِيَّةَ، وَرَأَيْتُكَ تَصْبُغُ بِالصُّفْرَةِ، وَرَأَيْتُكَ إِذَا كُنْتَ بِمَكَّةَ أَهَلَّ النَّاسُ إِذَا رَأَوْا الْهِلَالَ، وَلَمْ تُهِلَّ أَنْتَ حَتَّى كَانَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: أَمَّا الْأَرْكَانُ، فَإِنِّي لَمْ أَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمَسُّ إِلَّا الْيَمَانِيَّيْنِ، وَأَمَّا النِّعَالُ السِّبْتِيَّةُ، فَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْبَسُ النِّعَالَ الَّتِي لَيْسَ فِيهَا شَعْرٌ وَيَتَوَضَّأُ فِيهَا، فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَلْبَسَهَا، وَأَمَّا الصُّفْرَةُ فَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْبُغُ بِهَا، فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَصْبُغَ بِهَا، وَأَمَّا الْإِهْلَالُ، فَإِنِّي لَمْ أَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهِلُّ حَتَّى تَنْبَعِثَ بِهِ رَاحِلَتُهُ".
عبید بن جریج سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: ابوعبدالرحمٰن! میں نے آپ کو چار کام ایسے کرتے دیکھا ہے جنہیں میں نے آپ کے اصحاب میں سے کسی کو کرتے نہیں دیکھا ہے؟ انہوں نے پوچھا: وہ کیا ہیں ابن جریج؟ وہ بولے: میں نے دیکھا کہ آپ صرف رکن یمانی اور حجر اسود کو چھوتے ہیں، اور دیکھا کہ آپ ایسی جوتیاں پہنتے ہیں جن کے چمڑے میں بال نہیں ہوتے، اور دیکھا آپ زرد خضاب لگاتے ہیں، اور دیکھا کہ جب آپ مکہ میں تھے تو لوگوں نے چاند دیکھتے ہی احرام باندھ لیا لیکن آپ نے یوم الترویہ (آٹھویں ذی الحجہ) کے آنے تک احرام نہیں باندھا، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رہی رکن یمانی اور حجر اسود کی بات تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف انہیں دو کو چھوتے دیکھا ہے، اور رہی بغیر بال کی جوتیوں کی بات تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی جوتیاں پہنتے دیکھی ہیں جن میں بال نہیں تھے اور آپ ان میں وضو کرتے تھے، لہٰذا میں بھی انہی کو پہننا پسند کرتا ہوں، اور رہی زرد خضاب کی بات تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زرد رنگ کا خضاب لگاتے دیکھا ہے، لہٰذا میں بھی اسی کو پسند کرتا ہوں، اور احرام کے بارے میں یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت تک لبیک پکارتے نہیں دیکھا جب تک کہ آپ کی سواری آپ کو لے کر چلنے کے لیے کھڑی نہ ہو جاتی۔
Ubayd ibn Jurayj said to Abdullah ibn Umar: Abu Abdur Rahman, I saw you doing things which I did not see being done by your companions. He asked: What are they, Ibn Jurayj? He replied: I saw you touching only the two Yamani corners; and I saw you wearing shoes having no hair; I saw you dyeing in yellow colour; and I saw you wearing ihram on the eighth of Dhul-Hijjah, whereas the people had worn ihram when they sighted the moon. Abdullah ibn Umar replied: As regards the corners, I have not seen the Messenger of Allah ﷺ touching anything (in the Kabah) but the two Yamani corners. As for the tanned leather shoes, I have seen the Messenger of Allah ﷺ wearing tanned leather shoes, and he would wear them after ablution. Therefore I like to wear them. As regards wearing yellow, I have seen the Messenger of Allah ﷺ wearing yellow, so I like to wear with it. As regards shouting the talbiyah, I have seen the Messenger of Allah ﷺ raising his voice in talbiyah when his she-camel stood up with him on its back.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1768
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (166) صحيح مسلم (1187)
(مرفوع) حدثنا احمد بن حنبل، حدثنا محمد بن بكر، حدثنا ابن جريج، عن محمد بن المنكدر، عن انس، قال:" صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الظهر بالمدينة اربعا وصلى العصر بذي الحليفة ركعتين ثم بات بذي الحليفة حتى اصبح فلما ركب راحلته واستوت به اهل". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ بِالْمَدِينَةِ أَرْبَعًا وَصَلَّى الْعَصْرَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ بَاتَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ حَتَّى أَصْبَحَ فَلَمَّا رَكِبَ رَاحِلَتَهُ وَاسْتَوَتْ بِهِ أَهَلَّ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر چار رکعت اور ذی الحلیفہ میں عصر دو رکعت ادا کی، پھر ذی الحلیفہ میں رات گزاری یہاں تک کہ صبح ہو گئی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر بیٹھے اور وہ آپ کو لے کر سیدھی ہو گئی تو آپ نے تلبیہ پڑھا۔
Anas said: Messenger of Allah ﷺ prayed four rak’ahs at Madinah and prayed two rak’ahs of afternoon prayer at Dhu-al Hulaifah. He then passed the night at Dhu-al Hulaifah till the morning came. When he rode on his mount and it stood up on its back, he raised his voice in talbiyah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1769
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1546) صحيح مسلم (690)
(مرفوع) حدثنا احمد بن حنبل، حدثنا روح، حدثنا اشعث، عن الحسن، عن انس بن مالك، ان النبي صلى الله عليه وسلم" صلى الظهر ثم ركب راحلته، فلما علا على جبل البيداء اهل". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ رَكِبَ رَاحِلَتَهُ، فَلَمَّا عَلَا عَلَى جَبَلِ الْبَيْدَاءِ أَهَلَّ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر پڑھی، پھر اپنی سواری پر بیٹھے جب بیداء کے پہاڑ پر چڑھے تو تلبیہ پڑھا۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الحج 25 (2663)، 56 (2756)، 143 (2934)، (تحفة الأشراف: 524)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/207)، سنن الدارمی/الحج 12 (1848) (صحیح لغیرہ)» (اس حدیث کے روای حسن بصری ہیں جو مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اس کی اصل سابقہ حدیث نمبر: (1773) ہے، اس سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)
Narrated Anas ibn Malik: The Prophet ﷺ offered the noon prayer, and then rode on his mount. When he came to the hill of al-Bayda', he raised his voice in talbiyah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1770
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نسائي (2663) الحسن البصري مدلس وعنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 70
عائشہ بنت سعد بن ابی وقاص کہتی ہیں کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب فرع کا راستہ (جو مکہ کو جاتا ہے) اختیار کرتے تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری آپ کو لے کر سیدھی ہو جاتی تو آپ تلبیہ پڑھتے اور جب آپ احد کا راستہ اختیار کرتے تو بیداء کی پہاڑی پر چڑھتے وقت تلبیہ پڑھتے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3956) (ضعیف)» (اس کے راوی ابن اسحاق مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں)
Narrated Saad ibn Abi Waqqas: When the Prophet of Allah (peace be upon him0 undertook his journey by the way of al-Far', he shouted talbiyah when his mount stood up with him on its back. But when he travelled by the way of Uhud, he raised his voice in Talbiyah when he ascended the hill of al-Bayda'.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1771
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن إسحاق عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 70
(مرفوع) حدثنا احمد بن حنبل، حدثنا عباد بن العوام، عن هلال بن خباب، عن عكرمة، عن ابن عباس، ان ضباعة بنت الزبير بن عبد المطلب اتت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت:" يا رسول الله، إني اريد الحج ااشترط؟ قال: نعم"، قالت: فكيف اقول؟ قال:" قولي: لبيك اللهم لبيك، ومحلي من الارض حيث حبستني". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ هِلَالِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ ضُبَاعَةَ بِنْتَ الزُّبَيْرِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أُرِيدُ الْحَجَّ أَأَشْتَرِطُ؟ قَالَ: نَعَمْ"، قَالَتْ: فَكَيْفَ أَقُولُ؟ قَالَ:" قُولِي: لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، وَمَحِلِّي مِنَ الْأَرْضِ حَيْثُ حَبَسْتَنِي".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: اللہ کے رسول! میں حج میں شرط لگانا چاہتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، (لگا سکتی ہو)“، انہوں نے کہا: تو میں کیسے کہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو! «لبيك اللهم لبيك، ومحلي من الأرض حيث حبستني»”حاضر ہوں اے اللہ حاضر ہوں، اور میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہے جہاں تو مجھے روک دے“۔
Ibn Abbas said: Duba`ah, daughter of al-Zubair bin Abd al-Muttalib, came to the Messenger of Allah ﷺ and said Messenger of Allah ﷺ I want to perform Hajj; may I make a provision? He said Yes. She asked how should I say? He replied: Say “ Labbaik Allahumma Labbaik (I am at Thy service, Oh Allah, I am at Thy service). The place where I took off Ihram will be where Thou restrainest me. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1772
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح أخرجه الترمذي (941 وسنده حسن) ورواه مسلم (1208)
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 17 (1211)، سنن الترمذی/الحج 10 (820)، سنن النسائی/الحج 48 (2716)، سنن ابن ماجہ/المناسک 37 (2964)، (تحفة الأشراف: 17517)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الحج 11(37)، مسند احمد (6/243)، سنن الدارمی/المناسک 16 (1853) (صحیح الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: حج کے مہینے میں میقات سے صرف حج کی نیت سے احرام باندھنے کو افراد کہتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں صحیح یہ ہے کہ آپ نے حج قِران کیا تھا، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہدی کے جانور تھے، ورنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا تھا کہ جن کے ساتھ ہدی کا جانور نہ ہو وہ عمرہ پورا کر کے احرام کھول دیں، یعنی حج قران کو حج تمتع میں بدل دیں، دیکھئے حدیث نمبر: (۷۹۵)۔
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، قال: حدثنا حماد بن زيد. ح وحدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد يعني ابن سلمة. ح وحدثنا موسى،حدثنا وهيب، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، انها قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم موافين هلال ذي الحجة، فلما كان بذي الحليفة، قال:" من شاء ان يهل بحج فليهل، ومن شاء ان يهل بعمرة فليهل بعمرة"، قال موسى في حديث وهيب:" فإني لولا اني اهديت لاهللت بعمرة، وقال في حديث حماد بن سلمة: واما انا فاهل بالحج فإن معي الهدي، ثم اتفقوا، فكنت فيمن اهل بعمرة، فلما كان في بعض الطريق حضت، فدخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا ابكي، فقال: ما يبكيك؟ قلت: وددت اني لم اكن خرجت العام، قال: ارفضي عمرتك وانقضي راسك وامتشطي، قال موسى: واهلي بالحج، وقال سليمان: واصنعي ما يصنع المسلمون في حجهم، فلما كان ليلة الصدر امر، يعني رسول الله صلى الله عليه وسلم، عبد الرحمن فذهب بها إلى التنعيم، زاد موسى: فاهلت بعمرة مكان عمرتها وطافت بالبيت فقضى الله عمرتها وحجها. قال هشام: ولم يكن في شيء من ذلك هدي. قال ابو داود: زاد موسى في حديث حماد بن سلمة: فلما كانت ليلة البطحاء طهرت عائشة رضي الله عنها. (مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ. ح وحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ. ح وحَدَّثَنَا مُوسَى،حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُوَافِينَ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، فَلَمَّا كَانَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ، قَالَ:" مَنْ شَاءَ أَنْ يُهِلَّ بِحَجٍّ فَلْيُهِلَّ، وَمَنْ شَاءَ أَنْ يُهِلَّ بِعُمْرَةٍ فَلْيُهِلَّ بِعُمْرَةٍ"، قَالَ مُوسَى فِي حَدِيثِ وُهَيْبٍ:" فَإِنِّي لَوْلَا أَنِّي أَهْدَيْتُ لَأَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ، وَقَالَ فِي حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ: وَأَمَّا أَنَا فَأُهِلُّ بِالْحَجِّ فَإِنَّ مَعِي الْهَدْيَ، ثُمَّ اتَّفَقُوا، فَكُنْتُ فِيمَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، فَلَمَّا كَانَ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ حِضْتُ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، فَقَالَ: مَا يُبْكِيكِ؟ قُلْتُ: وَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ خَرَجْتُ الْعَامَ، قَالَ: ارْفِضِي عُمْرَتَكِ وَانْقُضِي رَأْسَكِ وَامْتَشِطِي، قَالَ مُوسَى: وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ، وَقَالَ سُلَيْمَانُ: وَاصْنَعِي مَا يَصْنَعُ الْمُسْلِمُونَ فِي حَجِّهِمْ، فَلَمَّا كَانَ لَيْلَةُ الصَّدَرِ أَمَرَ، يَعْنِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَبْدَ الرَّحْمَنِ فَذَهَبَ بِهَا إِلَى التَّنْعِيمِ، زَادَ مُوسَى: فَأَهَلَّتْ بِعُمْرَةٍ مَكَانَ عُمْرَتِهَا وَطَافَتْ بِالْبَيْتِ فَقَضَى اللَّهُ عُمْرَتَهَا وَحَجَّهَا. قَالَ هِشَامٌ: وَلَمْ يَكُنْ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ هَدْيٌ. قَالَ أَبُو دَاوُد: زَادَ مُوسَى فِي حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ: فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْبَطْحَاءِ طَهُرَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ذی الحجہ کا چاند نکلنے کو ہوا تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، جب آپ ذی الحلیفہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو حج کا احرام باندھنا چاہے وہ حج کا احرام باندھے، اور جو عمرہ کا احرام باندھنا چاہے وہ عمرہ کا باندھے“۔ موسیٰ نے وہیب والی روایت میں کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں ہدی نہ لے چلتا تو میں بھی عمرہ کا احرام باندھتا“۔ اور حماد بن سلمہ کی حدیث میں ہے: ”رہا میں تو میں حج کا احرام باندھتا ہوں کیونکہ میرے ساتھ ہدی ہے“۔ آگے دونوں راوی متفق ہیں (ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں) میں عمرے کا احرام باندھنے والوں میں تھی، آپ ابھی راستہ ہی میں تھے کہ مجھے حیض آ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، میں رو رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیوں رو رہی ہو؟“، میں نے عرض کیا: میری خواہش یہ ہو رہی ہے کہ میں اس سال نہ نکلتی (تو بہتر ہوتا)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنا عمرہ چھوڑ دو، سر کھول لو اور کنگھی کر لو“۔ موسیٰ کی روایت میں ہے: ”اور حج کا احرام باندھ لو“، اور سلیمان کی روایت میں ہے: ”اور وہ تمام کام کرو جو مسلمان اپنے حج میں کرتے ہیں“۔ تو جب طواف زیارت کی رات ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن کو حکم دیا چنانچہ وہ انہیں مقام تنعیم لے کر گئے۔ موسیٰ نے یہ اضافہ کیا ہے کہ انہوں نے اپنے اس عمرے کے عوض (جو ان سے چھوٹ گیا تھا) دوسرے عمرے کا احرام باندھا اور بیت اللہ کا طواف کیا، اس طرح اللہ نے ان کے عمرے اور حج دونوں کو پورا کر دیا۔ ہشام کہتے ہیں: اور اس میں ان پر اس سے کوئی ہدی لازم نہیں ہوئی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: موسیٰ نے حماد بن سلمہ کی حدیث میں یہ اضافہ کیا ہے کہ جب بطحاء ۱؎ کی رات آئی تو عائشہ رضی اللہ عنہا حیض سے پاک ہو گئیں۔
تخریج الحدیث: «حدیث سلیمان بن حرب عن حماد بن زید قد أخرجہ: سنن النسائی/الحج 185 (2993)، 186 (2994)، (تحفة الأشراف: 16863، 16882)، وحدیث موسی بن اسماعیل عن حماد بن سلمة وموسی بن اسماعیل عن وہیب، قد تفرد بہما أبو داود، (تحفة الأشراف: 17295)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحیض 1 (294)، 7 (305)، 15(316)، 16 (317)، 18 (319)، الحج/31 (1556)، 33 (1560)، 34 (1562)، 77 (1638)، 115 (1709)، 124 (1720)، 145 (1757)، العمرة 7 (1786)، 9 (1788)، الجھاد 105 (2952)، المغازي 77 (4395)، صحیح مسلم/الحج 17 (1211)، سنن النسائی/الطھارة 183 (291) سنن ابن ماجہ/الحج 36 (2963) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: بطحاء سے مراد منیٰ ہے، یعنی قیام منیٰ کے ایام کی کسی رات میں وہ پاک ہو گئیں، علامہ عینی کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا حیض تین ذی الحجہ بروز سنیچر مقام سرف میں شروع ہوا تھا، اور دسویں ذی الحجہ کو سنیچر کے روز پاک ہوئیں۔
Aishah said: We went out along with The Messenger of Allah ﷺ when the moon of the month of Dhu al-Hijja was going to appear shortly. When he reached Dhu al-Hulaifah he said: Anyone who wants to perform Hajj should raise his voice in Talbiyah for Hajj (after wearing Ihram); and he who wants to perform Umrah should raise his voice in talbiyah for an Umrah. The narrator Musa in the version of Wuhaib reported him (the Prophet) as saying if there were no sacrificial animals with me, I would raise my voice in talbiyah for an Umrah. But according to the version of Hammad bin Salamah, he said as for myself, I shall raise my voice in talbiyah for Hajj because I have sacrificial animal with me. The agreed version goes I (Aishah) was one of those persons who wore Ihram for an ‘Umrah. But on my way (to Makkah) I menstruated. The Messenger of Allah ﷺ entered upon me while I was weeping. He asked why are you weeping? I wished I would not come out (for Hajj) this year. He said give up your Umrah; untie your hair and comb. The version of Musa said and raise your voice in talbiyah for Hajj (after wearing Ihram). Sulaiman’s version goes and do as all the Muslims do during their Hajj. When the night for performing the obligatory circumambulation (tawaf al-Ziyarah) came, the Messenger of Allah ﷺ commanded Abdur-Rahman. He took her to al-Tan’im (instead of the words “her ‘Umrah”). She went round the Kaabah. Allah thus completed both her ‘Umrah and Hajj. Hisham said: No sacrificial animal was offered during all this time. In the version of Hammad bin Salamah, the narrator Musa added when the night of al-Batha came Ai’ shah was purified.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1774
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح أخرجه النسائي (2718 وسنده صحيح) ورواه البخاري (317) ومسلم (1211)
(مرفوع) حدثنا القعنبي عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابي الاسود محمد بن عبد الرحمن بن نوفل، عن عروة بن الزبير، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت:" خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام حجة الوداع فمنا من اهل بعمرة ومنا من اهل بحج وعمرة ومنا من اهل بالحج، و اهل رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحج، فاما من اهل بالحج او جمع الحج والعمرة فلم يحلوا حتى كان يوم النحر". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ:" خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ وَعُمْرَةٍ وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ، وَ أَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ، فَأَمَّا مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ أَوْ جَمَعَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ فَلَمْ يُحِلُّوا حَتَّى كَانَ يَوْمَ النَّحْرِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم لوگ حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے ہم میں کچھ ایسے لوگ تھے جنہوں نے عمرے کا احرام باندھا، اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھا، اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے صرف حج کا احرام باندھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا احرام باندھا، چنانچہ جن لوگوں نے حج کا یا حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا انہوں نے یوم النحر (یعنی دسویں ذی الحجہ) تک احرام نہیں کھولا۔
Aishah wife the Prophet ﷺ narrated we went out with the Messenger of Allah ﷺ at the farewell pilgrimage. Some of us had put on Ihram for Umrah and some both for Hajj and Umrah, when the Messenger of Allah ﷺ had put on Ihram for Hajj only. He who had put on Ihram for Umrah, put off Ihram after performing Umrah and he who had worn Ihram both for Hajj and Umrah or only for Hajj did not take it off till the tenth (of the month).
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1775
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1562) صحيح مسلم (1211)
اس سند سے بھی ابوالاسود سے اسی طریق سے اسی کے مثل مروی ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے: ”رہے وہ لوگ جنہوں نے صرف عمرے کا احرام باندھا تھا تو ان لوگوں نے (عمرہ کر کے) احرام کھول دیا“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 16389) (صحیح)»
The aforesaid tradition has also been narrated by Abu al-Aswad through a different chain of narrators. This version adds he who raises his voice in talbiyah for Umrah (and wearing Ihram for it) should put off Ihram after performing Umrah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1776
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1562) صحيح مسلم (1211)