(مرفوع) حدثنا محمد بن العلاء، حدثنا حفص، عن هشام، عن ابن سيرين، عن انس بن مالك، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" رمى جمرة العقبة يوم النحر، ثم رجع إلى منزله بمنى فدعا بذبح فذبح، ثم دعا بالحلاق فاخذ بشق راسه الايمن فحلقه فجعل يقسم بين من يليه الشعرة والشعرتين، ثم اخذ بشق راسه الايسر فحلقه، ثم قال: ها هنا ابو طلحة، فدفعه إلى ابي طلحة". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ يَوْمَ النَّحْرِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى مَنْزِلِهِ بِمِنًى فَدَعَا بِذِبْحٍ فَذُبِحَ، ثُمَّ دَعَا بِالْحَلَّاقِ فَأَخَذَ بِشِقِّ رَأْسِهِ الْأَيْمَنِ فَحَلَقَهُ فَجَعَلَ يَقْسِمُ بَيْنَ مَنْ يَلِيهِ الشَّعْرَةَ وَالشَّعْرَتَيْنِ، ثُمَّ أَخَذَ بِشِقِّ رَأْسِهِ الْأَيْسَرِ فَحَلَقَهُ، ثُمَّ قَالَ: هَا هُنَا أَبُو طَلْحَةَ، فَدَفَعَهُ إِلَى أَبِي طَلْحَةَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر کو جمرہ عقبہ کی رمی کی، پھر آپ منیٰ میں اپنی قیام گاہ لوٹ آئے، پھر قربانی کے جانور منگا کر انہیں ذبح کیا، اس کے بعد حلاق (سر مونڈنے والے کو بلایا)، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے داہنے حصے کو پکڑا، اور بال مونڈ دیئے ۱؎، پھر ایک ایک اور دو دو بال ان لوگوں میں تقسیم کئے جو آپ کے قریب تھے پھر بایاں جانب منڈوایا اور فرمایا: ”ابوطلحہ یہاں ہیں؟“ اور وہ سب بال ابوطلحہ کو دے دیئے۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بال کٹوانے کے مقابلے میں منڈوانا زیادہ بہتر ہے، اور بال منڈوانے اور کتروانے میں یہ خیال رہے کہ اس کو داہنی جانب سے شروع کرے، مونڈنے والے کو بھی اس سنت کا خیال رکھنا چاہئے۔
Narrated Anas bin Malik: The Messenger of Allah ﷺ threw pebbles at the last jamrah (Jamrat al-'Aqabah) on the day of sacrifice. He then returned to his lodging at Mina. He called for a sacrificial animal which he slaughtered. He then called for a barber. He held the right side of his head and shaved it. He then began to distribute among those who were around him one or two hair each. He then held the left side of his head and shaved it. Again he said: Is Abu Talhah here ? He then gave it (the hair shaved off) to Abu Talhah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1976
ہشام بن حسان سے اس سند سے بھی یہی حدیث مروی ہے البتہ اس میں اس طرح ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلاق (سر مونڈنے والے) سے فرمایا: ”میرے دائیں جانب سے شروع کرو اور اسے مونڈو“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 1456) (صحیح)»
The aforesaid tradition has also been transmitted by Hisham n. Hassan through a different chain of narrators. This version adds: He said to the barber: Start with the right side and shave it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1977
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح انظر الحديث السابق (1981)
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي، اخبرنا يزيد بن زريع، اخبرنا خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يسال يوم منى، فيقول:" لا حرج، فساله رجل، فقال: إني حلقت قبل ان اذبح، قال: اذبح ولا حرج، قال: إني امسيت ولم ارم، قال: ارم ولا حرج". (مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُسْأَلُ يَوْمَ مِنًى، فَيَقُولُ:" لَا حَرَجَ، فَسَأَلَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنِّي حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ، قَالَ: اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ، قَالَ: إِنِّي أَمْسَيْتُ وَلَمْ أَرْمِ، قَالَ: ارْمِ وَلَا حَرَجَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منیٰ کے دن پوچھا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”کوئی حرج نہیں“، چنانچہ ایک شخص نے پوچھا: میں نے ذبح کرنے سے پہلے حلق کرا لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ذبح کر لو، کوئی حرج نہیں“، دوسرے نے کہا: مجھے شام ہو گئی اور میں نے اب تک رمی نہیں کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمی اب کر لو، کوئی حرج نہیں ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: حج میں نحر (قربانی) کے دن جمرہ کبری کو کنکری مارنا، ہدی کا جانور ذبح کرنا، بالوں کا حلق (منڈوانا) یا قصر (کٹوانا) پھر طواف افاضہ (طواف زیارہ)(یعنی کعبۃ اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی) میں ترتیب افضل ہے، مگر اس حدیث کی روشنی میں رمی، ذبح، حلق، اور طواف میں ترتیب باقی نہ رہ جائے تو دم لازم نہیں ہو گا، اور نہ ہی حج میں کوئی حرج واقع ہو گا۔
Narrated Ibn Abbas: The Prophet ﷺ was asked (about rites of Hajj) on the day of stay at Mina. He said: No harm. A man asked him: I got myself shaved before I slaughtered. He said: Slaughter, there is no harm. He again asked: The evening came but I did not throw stones at the jamrah. He replied: Throw stones now ; there is no harm.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1978
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورتوں پر حلق نہیں صرف «تقصير»(بال کٹانا) ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 6576)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/المناسک 63 (1946) (صحیح)» (اگلی سند سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے)
(مرفوع) حدثنا هناد بن السري، عن ابن ابي زائدة، حدثنا ابن جريج، ومحمد بن إسحاق، عن عبد الله بن طاوس، عن ابيه، عن ابن عباس، قال:" والله ما اعمر رسول الله صلى الله عليه وسلم عائشة في ذي الحجة إلا ليقطع بذلك امر اهل الشرك، فإن هذا الحي من قريش ومن دان دينهم كانوا يقولون: إذا عفا الوبر وبرا الدبر ودخل صفر فقد حلت العمرة لمن اعتمر، فكانوا يحرمون العمرة حتى ينسلخ ذو الحجة والمحرم. (مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ ابْنِ أَبِي زَائِدَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" وَاللَّهِ مَا أَعْمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَائِشَةَ فِي ذِي الْحِجَّةِ إِلَّا لِيَقْطَعَ بِذَلِكَ أَمْرَ أَهْلِ الشِّرْكِ، فَإِنَّ هَذَا الْحَيَّ مِنْ قُرَيْشٍ وَمَنْ دَانَ دِينَهُمْ كَانُوا يَقُولُونَ: إِذَا عَفَا الْوَبَرْ وَبَرَأَ الدَّبَرْ وَدَخَلَ صَفَرْ فَقَدْ حَلَّتِ الْعُمْرَةُ لِمَنِ اعْتَمَرْ، فَكَانُوا يُحَرِّمُونَ الْعُمْرَةَ حَتَّى يَنْسَلِخَ ذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو ذی الحجہ میں عمرہ صرف اس لیے کرایا کہ مشرکین کا خیال ختم ہو جائے اس لیے کہ قریش کے لوگ نیز وہ لوگ جو ان کے دین پر چلتے تھے، کہتے تھے: جب اونٹ کے بال بڑھ جائیں اور پیٹھ کا زخم ٹھیک ہو جائے اور صفر کا مہینہ آ جائے تو عمرہ کرنے والے کا عمرہ درست ہو گیا، چنانچہ وہ ذی الحجہ اور محرم (اشہر حرم) کے ختم ہونے تک عمرہ کرنا حرام سمجھتے تھے۔
Narrated Abdullah ibn Abbas: By Allah, the Messenger of Allah ﷺ did not make Aishah perform Umrah during Dhul-Hijjah but to discontinue the practice of the idolaters (in Arabia before Islam), for this clan of Quraysh and those who followed them used to say: When the fur of the camel abounds, and the wounds on the back of the camels are recovered and the month of Safar begins, Umrah becomes lawful for one who performs Umrah. They considered performing Umrah unlawful till the months of Dhul-Hijjah and al-Muharram passed away.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1982
قال الشيخ الألباني: حسن ق نحوه دون قول ابن عباس في أوله والله أهل الشرك
قال الشيخ زبير على زئي: حسن محمد بن إسحاق صرح بالسماع عند أحمد (1/261)
(مرفوع) حدثنا ابو كامل، حدثنا ابو عوانة، عن إبراهيم بن مهاجر، عن ابي بكر بن عبد الرحمن، اخبرني رسول مروان الذي ارسل إلى ام معقل، قالت: كان ابو معقل حاجا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما قدم، قالت ام معقل: قد علمت ان علي حجة فانطلقا يمشيان حتى دخلا عليه، فقالت: يا رسول الله، إن علي حجة وإن لابي معقل بكرا، قال ابو معقل: صدقت جعلته في سبيل الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اعطها فلتحج عليه فإنه في سبيل الله"، فاعطاها البكر، فقالت: يا رسول الله، إني امراة قد كبرت وسقمت، فهل من عمل يجزئ عني من حجتي؟ قال:" عمرة في رمضان تجزئ حجة". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنِي رَسُولُ مَرْوَانَ الَّذِي أُرْسِلَ إِلَى أُمِّ مَعْقَلٍ، قَالَتْ: كَانَ أَبُو مَعْقَلٍ حَاجًّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا قَدِمَ، قَالَتْ أُمُّ مَعْقَلٍ: قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ عَلَيَّ حَجَّةً فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ حَتَّى دَخَلَا عَلَيْهِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عَلَيَّ حَجَّةً وَإِنَّ لِأَبِي مَعْقَلٍ بَكْرًا، قَالَ أَبُو مَعْقَلٍ: صَدَقَتْ جَعَلْتُهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَعْطِهَا فَلْتَحُجَّ عَلَيْهِ فَإِنَّهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ"، فَأَعْطَاهَا الْبَكْرَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي امْرَأَةٌ قَدْ كَبِرْتُ وَسَقِمْتُ، فَهَلْ مِنْ عَمَلٍ يُجْزِئُ عَنِّي مِنْ حَجَّتِي؟ قَالَ:" عُمْرَةٌ فِي رَمَضَانَ تُجْزِئُ حَجَّةً".
ابوبکر بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ مجھے مروان کے قاصد (جسے ام معقل رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا گیا تھا) نے خبر دی ہے کہ ام معقل کا بیان ہے کہ ابو معقل رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کو نکلنے والے تھے جب وہ آئے تو ام معقل رضی اللہ عنہا کہنے لگیں: آپ کو معلوم ہے کہ مجھ پر حج واجب ہے ۱؎، چنانچہ دونوں (ام معقل اور ابو معقل رضی اللہ عنہما) چلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، ام معقل نے کہا: اللہ کے رسول! ابو معقل کے پاس ایک اونٹ ہے اور مجھ پر حج واجب ہے؟ ابو معقل نے کہا: یہ سچ کہتی ہے، میں نے اس اونٹ کو اللہ کی راہ میں دے دیا ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اونٹ اسے دے دو کہ وہ اس پر سوار ہو کر حج کر لے، یہ بھی اللہ کی راہ ہی میں ہے“، ابومعقل نے ام معقل کو اونٹ دے دیا، پھر وہ کہنے لگیں: اللہ کے رسول! میں عمر رسیدہ اور بیمار عورت ہوں ۲؎ کوئی ایسا کام ہے جو حج کی جگہ میرے لیے کافی ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان میں عمرہ کرنا (میرے ساتھ) حج کرنے کی جگہ میں کافی ہے ۳؎“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 18359)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الحج 95 (939)، سنن النسائی/ الکبری/ الحج (4227)، سنن ابن ماجہ/المناسک 45 (2993)، مسند احمد (6/405، 406) (حسن)» (اس کے راوی ابراہیم حافظہ کے کمزور ہیں مگر حدیث نمبر (1990) سے اس کو تقویت مل رہی ہے، نیز رمضان میں عمرہ کے ثواب سے متعلق جملہ کے شواہد صحیحین میں بھی ہیں، ہاں عورت کا قول «إني امرأة... من حجتي؟» صحیح نہیں ہے)
وضاحت: ۱؎: کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کرنے کا ارادہ کر رکھا تھا لیکن میرے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت مقدر نہیں تھی اور میں نہیں جا سکی۔ ۲؎: اس لئے مجھے نہیں معلوم کہ میں حج کب کر سکوں گی۔ ۳؎: یعنی رمضان میں عمرہ کا ثواب میرے ساتھ حج کے ثواب کے برابر ہے۔
Abu Bakr ibn Abdur Rahman said: The messenger of Marwan whom he sent to Umm Maqil reported to me. She said: Abu Maqil accompanied the Messenger of Allah ﷺ during hajj. When he came (to her) she said: You know that hajj is incumbent on me. They walked until they visited him (i. e. the Prophet) and she asked (him): Messenger of Allah, hajj is due from me, and Abu Maqil has a camel. Abu Maqil said: She spoke the truth, I have dedicated it to the cause of Allah. The Messenger of Allah ﷺ said: Give it to her, that is in the cause of Allah. So he gave the camel to her. She then said: Messenger of Allah, I am a woman who has become aged and ill. Is there any action which would be sufficient for me as my hajj? He replied: Umrah performed during Ramadan is sufficient as hajj.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1983
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله المرأة إني امرأة ... حجتي
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نسائي في الكبريٰ (4227) رسول مروان: لم أعرفه وأصل الحديث صحيح،رواه أحمد (406/6) بسند حسن: ((عمرة في شهر رمضان تعدل حجة)) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 76
(مرفوع) حدثنا محمد بن عوف الطائي، حدثنا احمد بن خالد الوهبي، حدثنا محمد بن إسحاق، عن عيسى بن معقل بن ام معقل الاسدي اسد خزيمة، حدثني يوسف بن عبد الله بن سلام، عن جدته ام معقل، قالت:" لما حج رسول الله صلى الله عليه وسلم حجة الوداع وكان لنا جمل فجعله ابو معقل في سبيل الله واصابنا مرض وهلك ابو معقل وخرج النبي صلى الله عليه وسلم، فلما فرغ من حجه جئته، فقال: يا ام معقل، ما منعك ان تخرجي معنا؟ قالت: لقد تهيانا فهلك ابو معقل وكان لنا جمل هو الذي نحج عليه فاوصى به ابو معقل في سبيل الله، قال: فهلا خرجت عليه، فإن الحج في سبيل الله، فاما إذ فاتتك هذه الحجة معنا فاعتمري في رمضان، فإنها كحجة، فكانت تقول: الحج حجة والعمرة عمرة، وقد قال هذا لي رسول الله صلى الله عليه وسلم، ما ادري الي خاصة". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ الطَّائِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْوَهْبِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ عِيسَى بْنِ مَعْقَلِ بْنِ أُمِّ مَعْقَلٍ الْأَسَدِيِّ أَسَدِ خُزَيْمَةَ، حَدَّثَنِي يُوسُفُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، عَنْ جَدَّتِهِ أُمِّ مَعْقَلٍ، قَالَتْ:" لَمَّا حَجَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّةَ الْوَدَاعِ وَكَانَ لَنَا جَمَلٌ فَجَعَلَهُ أَبُو مَعْقِلٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأَصَابَنَا مَرَضٌ وَهَلَكَ أَبُو مَعْقِلٍ وَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ حَجِّهِ جِئْتُهُ، فَقَالَ: يَا أُمَّ مَعْقِلٍ، مَا مَنَعَكِ أَنْ تَخْرُجِي مَعَنَا؟ قَالَتْ: لَقَدْ تَهَيَّأْنَا فَهَلَكَ أَبُو مَعْقِلٍ وَكَانَ لَنَا جَمَلٌ هُوَ الَّذِي نَحُجُّ عَلَيْهِ فَأَوْصَى بِهِ أَبُو مَعْقِلٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَ: فَهَلَّا خَرَجْتِ عَلَيْهِ، فَإِنَّ الْحَجَّ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَأَمَّا إِذْ فَاتَتْكِ هَذِهِ الْحَجَّةُ مَعَنَا فَاعْتَمِرِي فِي رَمَضَانَ، فَإِنَّهَا كَحَجَّةٍ، فَكَانَتْ تَقُولُ: الْحَجُّ حَجَّةٌ وَالْعُمْرَةُ عُمْرَةٌ، وَقَدْ قَالَ هَذَا لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أَدْرِي أَلِيَ خَاصَّةً".
ام معقل رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کیا تو ہمارے پاس ایک اونٹ تھا لیکن ابومعقل رضی اللہ عنہ نے اسے اللہ کی راہ میں دے دیا تھا ہم بیمار پڑ گئے، اور ابومعقل رضی اللہ عنہ چل بسے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حج کو تشریف لے گئے، جب اپنے حج سے واپس ہوئے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ام معقل! کس چیز نے تمہیں ہمارے ساتھ (حج کے لیے) نکلنے سے روک دیا؟“، وہ بولیں: ہم نے تیاری تو کی تھی لیکن اتنے میں ابومعقل کی وفات ہو گئی، ہمارے پاس ایک ہی اونٹ تھا جس پر ہم حج کیا کرتے تھے، ابومعقل نے اسے اللہ کی راہ میں دے دینے کی وصیت کر دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اسی اونٹ پر سوار ہو کر کیوں نہیں نکلیں؟ حج بھی تو اللہ کی راہ میں ہے، لیکن اب تو ہمارے ساتھ تمہارا حج جاتا رہا تم رمضان میں عمرہ کر لو، اس لیے کہ یہ بھی حج کی طرح ہے“، ام معقل رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں حج حج ہے اور عمرہ عمرہ ہے ۱؎ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہی فرمایا اب مجھے نہیں معلوم کہ یہ حکم میرے لیے خاص تھا (یا سب کے لیے ہے)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11857، 18361) (صحیح لغیرہ)» (اس کے راوی محمد بن اسحاق مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے، نیز عیسیٰ لین الحدیث ہیں، لیکن ”رمضان میں عمرہ کا ثواب حج کے برابر ہے“ کے ٹکڑے کے شواہد صحیحین اور دیگر مصادر میں ہیں، اس لئے یہ حدیث صحیح ہے، ہاں: آخری ٹکڑا: «فكانت تقول إلخ» کا شاہد نہیں ہے، اس لئے ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود 6؍ 230)
Narrated Umm Maqil: When the Messenger of Allah ﷺ performed the Farewell Pilgrimage, and we had a camel, Abu Maqil dedicated it to the cause of Allah. Then we suffered from a disease, and Abu Maqil died. The Prophet ﷺ went out (for hajj). When he finished the hajj, I came to him. He said (to me): Umm Maqil, what prevented you from coming out for hajj along with us? She said: We resolved (to do so), but Abu Maqil died. We had a camel on which we could perform hajj, but Abu Maqil had bequeathed it to the cause of Allah. He said: Why did you not go out (for hajj) upon it, for hajj is in the cause of Allah? If you miss this hajj along with us, perform Umrah during Ramadan, for it is like hajj. She used to say: hajj is hajj, and Umrah is Umrah. The Messenger of Allah ﷺ said it to me: I do not know whether it was peculiar to me.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1984
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله فكانت تقول
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن إسحاق عنعن وأصل الحديث صحيح،رواه الترمذي (935) بلفظ: ((عمرة في رمضان تعدل حجة)) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 76